قبرستان کی حاضری کا طریقہ

[1]: نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِوَالتَّسْلِیم کا فرمانِ عظیم ہے: میں نے تم کو زیارتِ قُبُور سے منع کیا تھا، اب تم قبروں کی زیارت کرو کہ وہ دُنیا میں بے رغبتی کا سبب ہے اور آخِرت کی یاد دلاتی ہے۔ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۲ص۲۵۲حدیث۱۵۷۱)

[2]:(ولیُّ اللہ کے مزار شریف یا)کسی بھی مسلمان کی قَبْر کی زیارت کو جانا چاہے تو مُستَحَب یہ ہے کہ پہلے اپنے مکان پر (غیر مکروہ وقت میں) دو رَکْعَت نَفْل پڑھے، ہر رَکْعَت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد ایک بار اٰیۃ الکرسی، اور تین بار سورۃ الاخلاص پڑھے اور اس نَماز کا ثواب صاحبِ قَبْرکو پہنچائے، اللہ تعالیٰ اُس فوت شدہ بندے کی قَبْر میں نور پیدا کریگا اور اِس(ثوا ب پہنچانے والے) شخص کو بَہُت زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔(فتاوی عالمگیری، ج۵،ص۳۵۰)

[3]:مزارشریف یا قَبْر کی زیارت کیلئے جاتے ہوئے راستے میں فُضُول باتوں میں مشغول نہ ہو۔(ایضاً)

[4]:قبرِستان میں اس عام راستے سے جائے،جہاں ماضی میں کبھی بھی مسلمانوں کی قبریں نہ تھیں، جوراستہ نیابناہواہو اُس پرنہ چلے۔ ''رَدُّالْمُحتار''میں ہے:(قبرِستان میں قبریں پاٹ کر)جونیاراستہ نکالا گیاہو اُس پرچلنا حرام ہے ۔ (رَدُّالْمُحتار،ج۱،ص۶۱۲) بلکہ نئے راستے کا صِرف گمانِ غالب ہو تب بھی اُس پر چلنا ناجائز وگناہ ہے۔ (دُرِّمُختار،ج۳،ص۱۸۳)

[5]:کئی مزاراتِ اولیاء پر دیکھا گیا ہے کہ زائرین کی سہولت کی خاطر مسلمانوں کی قبریں مسمار(یعنی توڑ پھوڑ )کر کے فرش بنادیاجاتا ہے،ایسے فرش پر لیٹنا، چلنا،کھڑا ہونا ، تِلاوت اور ذِکرو اَذکار کیلئے بیٹھناوغیرہ حرام ہے،دُور ہی سے فاتِحہ پڑھ لیجئے ۔

[6]: زیارتِ قبر میّت کے مُوَاجَہَہ میں (یعنی چِہرے کے سامنے)کھڑے ہو کر ہو اور اس( یعنی قبر والے)کی پائِنتی(پا۔اِن۔تِی یعنی قدموں)کی طرف سے جائے کہ اس کی نگاہ کے سامنے ہو، سرہانے سے نہ آئے کہ اُسے سر اُٹھا کر دیکھناپڑے۔ (فتاوٰی رضویہ مخرّجہ، ج ۹،ص۵۳۲)

[7]:قبرستان میں ا ِس طرح کھڑے ہوں کہ قبلے کی طرف پیٹھ اورقبر والوں کے چِہروں کی طرف منہ ہو اس کے بعد کہے :اَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ لَـنَا سَلَفٌ وَّنَحْنُ بِالْاَثَر. ترجمہ:اےقَبْر والو! تم پر سلام ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں۔(فتاوٰی عا لمگیری ج ۵ ص ۳۵۰)

[8]:جو قبرستان میں داخل ہو کر یہ کہے:اَللّٰہُمَّ رَبَّ الاْجْسَادِ الْبَالِیَۃِ وَالْعِظَامِ النَّخِرَۃِ الَّتِیْ خَرَجَتْ مِنَ الدُّنْیَا وَہِیَ بِکَ مُؤْمِنَۃٌ اَدْخِلْ عَلَیْہَا رَوْحًا مِّنْ عِنْدِکَ وَسَلاَمًا مِّنِّیْ۔ ترجمہ: اے اللہ عَزَّوَجَل!(اے) گل جانے والے جِسموں اور بوسیدہ ہڈّیوں کے رب!جو دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوئے تو ان پر اپنی رحمت اور میرا سلام پہنچا دے۔ توحضرتِ سیِّدُنا آدم عَلَیہ السّلام سے لے کر اس وقت تک جتنے مومن فوت ہوئے سب اُس (یعنی دُعا پڑھنے والے)کے لیے دعائے مغفِرت کریں گے۔(مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ،ج۱۰،ص۱۵)

[9]:شفیعِ مُجرِمان صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ شَفاعت نشان ہے:جو شخص قبرِستان میں داخِل ہُوا پھر اُس نے ،سورۃ الفاتحہ ،سورۃ التکاثراورسورۃ الاخلاص پڑھی پھر یہ دُعا مانگی: یااللہ عزوجل ! میں نے جو کچھ قراٰن پڑھا اُس کا ثواب اِس قبرِستان کے مومِن مَرد وں اور مومِن عورَتوں کو پہنچا ۔ تو وہ تمام مومِن قِیامت کے روز اس(یعنی ایصالِ ثواب کرنے والے )کے سِفارشی ہونگے۔ (شَرْحُ الصُّدُور،ص۳۱۱) حدیثِ پاک میں ہے :جو گیارہ بار سورۃ الاخلاص یعنی قل ھواللہ احد(مکمَّل سورۃ)پڑھ کر اس کا ثواب مُردوں کو پہنچائے،تو مُردوں کی گنتی کے برابر اسے(یعنی ایصالِ ثواب کرنے والے کو) ثواب ملے گا۔(دُرِّمُختارج۳ ص ۱۸۳)

[10]: قَبْر کے اوپر اگر بتّی نہ جلائی جائے اس میں سُوئے ادب(یعنی بے ادبی)اور بد فالی ہے(اور اس سے میِّت کو تکلیف ہوتی ہے)ہاں اگر(حاضِرین کو)خوشبو (پہنچانے)کے لیے(لگانا چاہیں تو) قَبْر کے پاس خالی جگہ ہو وہاں لگائیں کہ خوشبو پہنچانا مَحبوب (یعنی پسندیدہ)ہے۔(مُلَخَّصاً فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ، ج ۹،ص ۴۸۲، ۵۲۵) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:''صحیح مسلم شریف''میں حضرت عَمْرْوبِن عاصرضی اللہ تعالی عنہ سے مروی، انھوں نے دمِ مرگ (یعنی بوقتِ وفات)اپنے فرزند سے فرمایا:جب میں مرجاؤں تو میرے ساتھ نہ کوئی نَوحہ کرنے والی جائے نہ آگ جائے۔(صَحیح مُسلِم، ص۷۵،الحدیث۱۹۲)
Nasir Memon
About the Author: Nasir Memon Read More Articles by Nasir Memon: 103 Articles with 182720 views I am working in IT Department of DawateIslami, Faizan-e-Madina, Babul Madinah, Karachi in the capacity of Project Lead... View More