وزیر اعظم نریندرمودی کا سفر چائے فروشی سے ملک گیری تک

آؤ مل کر ایک مضبوط ، ترقی یافتہ اور ہمہ جہت ہندوستان کا خواب دیکھیں۔ایک ایسے مضبوط ترقی یافتہ اور ہمہ جہت ہندوستان کی تعمیر میں مدد کریں جو عالمی امن اور ترقی کے کاز کو تقویت بخشنے میں اقوام عالم کے ساتھ سرگرم طور پر مل کر کام کرسکے۔ ہندوستان کی ترقی کے سفر کو نئی اونچائیوں سے ہمکنار کرنے میں عوام کی سرگرم تائید اور شراکت کی ضرورت ہے۔ ہم سب مل کر ہندوستان کے تابناک مستقبل کا نظم کرسکتے ہیں۔ا اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر ایک مضبوط ترقی یافتہ اور ہمہ جہت ملک کا خواب دیکھیں جو عالمی امن و ترقی کے کاز کو آگے بڑھانیکے لئے عالمی برادری کے ساتھ سرگرم طور پر کام کرسکے۔بی جے پی کی انتخابی کامیابی ترقی ، اچھی حکمرانی اور استحکام کے حق میں عوامی رائے دہی کا نتیجہ ہے۔ان چکنی چپڑی باتوں کے ساتھ نریندر مودی نے آج راشٹر پتی بھون میں تقریبا ۳۰۰۰ ہزار سے زائد سے شرکاء کی موجودگی میں وزیر اعظم عہدے کا حلف لے لیا ہے ۔ان کے ساتھ ان کی کابیینہ میں شامل ۴۶وزارء نے بھی حلف لے لیا ہے ۔جن میں ۲۳ کابینی درجہ کے وزیر ہیں اور بقیہ وزیر مملکت اور ریاستی وزیر کے درجہ کے ہیں ۔وزراء کی ان فہر ست میں سرفہر ست راج ناتھ سنگھ ہیں جنہیں وزیر داخلہ کاقلمدان ملا ہے۔ارون جیٹلی جنہیں وزیر خزانہ بنایاگیا ہے ۔ لوک سبھا میں سابق اپوزیش لیڈر ششما سوراج امور خارجہ کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔کرناٹک کے سابق وزیر اعلی سدا نند گورا کو ریلوے منسٹری کا اہم عہد ہ ملا ہے جبکہ دفاع کاقلمدان مودی نے خود اپنے پاس رکھا ہے ۔ مودی کے گرو ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جیسے سیئیر لیڈروں کوحکومت سے بالکل دور رکھا گیا ہے۔۴۶ وزراء کی طویل فہرست میں صرف ایک مسلم چہرہ مجاہد آزادی اور کانگریس کے سابق صدر مولانا ابو الکلام آزادکی پڑپوتی نجمہ ہبت اﷲ کاشامل ہے اور بس ۔بی جے پی کے چہیتے اور قد آور مسلم لیڈر سیدشہنواز حسین کوبھی اس مرتبہ کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے جو واجپئی حکومت میں ہوائی جہاز رانی کے وزیرتھے۔

۔ہندوستان کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب کسی نے وزیر اعظم کا حلف اس شان وشوکت اور نئی آن وبان کے ساتھ لیا ہے ۔اس تقریب میں جنوبی ایشائی علاقائی تعاون کی تنظیم کے تقریبا تمام سربراہان مملکت موجود تھے جن میں سرفہرست پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف۔سری لنکا کے صدر مہندرراج پکشے ۔افغانستان کے صدر حامد کرزئی ،نیپال کے وزیر اعظم سشیل کوئرالا ،بھوٹان کے وزیر اعظم تشورن توبگے ،مالدیپ کے صدر عبد اﷲ یامین گیوم ہیں ۔بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ اس دنوں جاپان کے دورہ پر تھی اس لئے ان کی جانب سے پارلیمنٹ اسپیکر شیرین چودھری نے نمائند گی کی ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم کی شرکت دونوں ممالک کے عوام کے درمیان موضوع بحث بن گئی ہے ۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی شرکت ہند وپاک کے درمیان تعلقات میں بہتر ی لائے گی تو دوسرے لوگ مودی کی حلف برداری تقریب میں نواز شریف کی شرکت کو ہندوستانی مسلمانوں کے زخموں پہ نمک چھڑکنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اس تقریب میں ان غیر ملکی مہمانوں کے علاوہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ ،کانگریس صدر سونیا گاندھی ،راہل گاندھی ۔مختلف ریاستوں کے وزاراء اعلی سمیت فلمی اسٹار کرکٹر اور دیگر کئی معزز ہندستانی موجود تھے ۔ہاں اس تقریب کوئی نمایا مسلم چہرہ دیکھنے کو نہیں ملا۔مودی کے مخالفت کرنے والے کرنے کی عدم موجودگی کوئی حیران کن نہیں ہے تعجب خیز امر یہ ہے کہ ۳۰۰۰ ہزار شرکاء پر مشتمل اس تاریخ ساز تقریب میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب صدر مولانا کلب صادق صاحب ۔اورمعروف شیعہ عالم دین مولانا کلب جواد صاحب جیسے مودی نواز اور ان کے قدم سے قدم ملانے یہ مسلم قائدین مدعونہیں کئے گئے تھے۔ ساتھ ہی بنگال کی وزیراعلی دیدی ممتا بنرجی۔تمل ناڈ کی وزیر اعلی جے للتا اور اڑیسہ کے وزیراعلی نوین پنٹائک بھی شریک نہیں ہوئے۔
راشٹرپتی بھون کو بہت سجایا گیا تھا سیکورٹی کاسخت انتظام تھا ۔یوم جمہوریہ کے موقع پر جس طرح کی سیکورٹی کا نظم کیا جاتا ہے آج بھی اسی طرح کا نظم کیا گیا تھا۔آس پاس کے تمام راستے اور دفاتر کو ۴ گھنٹہ پہلے بند کردیاگیا تھا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب اس شان شوکت سے سجائی گئی ہے۔

۲۶ مئی کی تاریخ ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم با ب بن گئی ہے ۔راشٹر پتی بھون کی زمین اورر اس کے اوپر کی فضا قاتل اعظم کے سرپہ وزیر اعظم کا تاج پہنانے کے لئے ہمیشہ یا د رکھی جائے گی ۔صدر جمہوریہ پرنب مکھر جی کو تاریخ اس خصوصیت کے ساتھ یاد کرے گی کہ ان کے حق میں جس شخص کو وزیر اعظم کا حلف دلانے کے لئے تقریب سجائی گئی تھی کہ وہ متنازع شخصیت کے حامل اور مسلم نشل کشی کے مجرم تھے۔منموہن سنگھ کی بھی تاریخ کچھ اس طرح لکھی جائے گی کہ ان کا جانشیں وزیراعظم فرقہ پرست اور آرایس آرا یس کاتربیت یافتہ تھا۔اس تقریب میں وہ تمام تین ہزار شرکا ء بھی ان بے گنا ہوں کے تڑپتی روح کے سامنے جوابدہ ہوں گے جن کے قاتل کے اورمجرم کی انہوں تاج پوشی کی ہے۔ہندوستان کی ان عوام کو بھی تاریخ فراموش نہیں کرے گی جنہوں فرقہ پرستوں کاساتھ دے کر ایک مجرم شخص کو وزارت عظمی کے منصب تک پہچایا ہے۔

آج سے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندرمودی ہیں ۔گجرات کے ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے والے ہمارے ملک سربراہ ہیں ۔جس وزارت عظمی کا خواب انہوں نے آج سے ایک سال قبل دیکھا تھا ۔اپنی تگ ودو اور جہد مسلسل کے ذ ر یعے آج وہ شرمندۂ تعبیر ہوگیاہے۔

نریند رمودی ایک ارب تیس کروڑ ہندوستانیوں کے لیڈر ہیں ۔دنیا کے سب بڑے جمہوری ملک کے وہ سربراہ ہیں ۔۸۱ کروڑ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرکے انہیں اپنا وزیر اعظم منتخب کیا ہے ۔ جمہوری ملک میں جمہوری فیصلے کا احترام ہمارافریضہ ۔ بحیثت وزیر اعظم ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔یہ امید اور توقعات وابستہ رکھتے ہیں کہ وہ جمہوری اصولوں پر گامزن ہوکر حکومت کی باگ دوڑ سنبھالیں گے۔ تعصب اورمذہب سے اوپر اٹھ کر حکمرانی کا فریضہ انجام دیں گے ۔

آج سے پانچ سالوں تک بغیر کسی چوں چرا کہ وہ ہمارے وزیر اعظم ہیں ۔اس دوران ہم اپنے حق لینے کااختیار رکھتے ہیں ۔مسلم تنظموں اور قائدین کا ان کے یہاں جانا ان سے ملنا اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کا سلسلہ جاری رہنا چاہئے جس طر ح گزشتہ وزیر اعظم کے دور میں ہو رہا تھا یہ ہمارا حق ہے اور ہم اسے مانگیں گے خواہ کوئی بھی اس منصب پر آئے۔

نریندر مودی کو زرات عظمی کی کرسی ملی ہے گجرات فساد کے الزام سے کلین چٹ نہیں ۔ان کا ہاتھ دس ہزار مسلمانوں کے خون سے رنگین ہے۔خواتین کے آبر وریزی اور عفت وعصمت تار تار کرنے کا الزام ان کے سر ہے ۔وہ مسلم نسل کشی کے مجرم ہیں اس لئے وہ کل بھی عوام کی عدالت میں مجرم تھے آج بھی ہیں اور تاقیامت رہیں گے ۔تاریخ انہیں کبھی بھی معاف نہیں کرے گی ۔انصاف پرور قلم کار کبھی بھی انہیں اس ظلم اور جرم بری قرار نہیں دے گا۔

برسبیل تذکرہ نریندر مودی کی ذات زند گی پہ اک نگاہ ڈال لیجئے

نریندر مودی کی پیدائش ۱۷ ستمبر۱۹۹۵ء کو واڈ نگر کی ایک گجراتی فیملی میں ہوئی۔ ان کے والد دامودر داس مودی ایک چائے کی اسٹال چلاتے تھے جہاں انھوں نے اپنے والد کے ساتھ چائے فروخت کی۔یہ ان کی ابتدائی زندگی تھی مگر جلد ہی وہ آر ایس ایس سے بال سویم سیوک کے طور پر جڑ گئے۔

۱۹۶۰ء میں جب وہ آرا یس ایس سے جڑے تو ان کی عمر صرف دس سال تھی اور وہ اسکول کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انھوں نے سنگھ کی جو پہلی مٹینگ اٹینڈ کی اس میں لکشمن راؤ انعامدار (وکیل صاحب) نے خطاب کیا تھا اور یہی مودی کے رہنما بن گئے۔ مودی کے مستقبل کے پروگرام کو طے کرنے میں بھی انھوں نے بہت مدد کی تھی اور مودی ان سے بہت متاثر ہوئے ۔

۱۹۶۷میں نریندر مودی نے اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور گھر چھوڑ کر شمالی ہند کو دیکھنے کی غرض سے نکل پڑے۔ وہ پورے ملک کی سیاحت کر کے اسے دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے اور یہ اس ملک کو سمجھنے کی شروعات تھی۔

۱۹۷۰ء میں مودی نے دوبارہ وکیل صاحب سے اپنے تعلقات کی تجدید کی تب وہ آر ایس ایس کے احمد آباد واقع ہیڈ کوارٹر ہیڈ گیوار بھون میں تھے۔

ء۱۹۷۲ میں مودی باقاعدہ طور پر آرایس ایس میں شامل ہوگئے اور ایک پرچارک کے طور پر کام کرنے لگے۔ انھیں وکیل صاحب نے ہی شامل کرایا تھا اور انھوں نے ہی رہنمائی کی تھی۔

۱۹۷۵ء میں جب ایمرجنسی کا نفاذ ہوا اور آر یس ایس کے لوگوں کی دھڑ پکڑ شروع ہوئی تو سنگھ کے لوگوں کو چھپنا پڑا۔ زمین دوز ہونے والوں میں مودی بھی شامل تھے۔ مودی نے خود کو حکومت سے بچانے کے لئے سکھ کا گیٹ اپ لے لیا۔ انھوں نے داڑھی بڑھالی اور سر پر سرداروں والی پگڑی پہننے لگے اور وہ گرفتاری سے بچ گئے۔

۱۹۸۰ء میں نریندر مودی ایک سمبھاگ پرچارک بن گئے اور یہ آر ایس ایس کے اندر ان کی ترقی تھی۔ ء میں مودی کو قلبی غم ہوا جب ان کے رہنما وکیل صاحب کی موت ہوگئی۔ وہ کینسر جیسے جان لیوا مرض میں مبتلا تھے۔

۱۹۸۵ء مودی کے لئے یادگار سال تھا جب ان کی خدمات اور سنگھ کے تئیں خود سپردگی سے خوش ہوکر سنگھ نے انھیں بی جے پی کے اندر بھیج دیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے سیاسی کریئر کی شروعات کی۔ حالانکہ تب تک بی جے پی بس برائے نام پارٹی تھی۔ اس کا وجود صرف دوسیٹوں تک محدود تھا اور ملک میں اس کی کوئی پہچان نہ بنی تھی۔اس کے بعد بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی تحریک شروع ہوئی جس نے اسے ملک میں ایک بڑی سیاسی پارٹی کے طور پر پہچان بنانے میں مددکی۔۱۹۹۱ ء میں مودی کا سیاسی قد اونچا ہونے لگا جب مرلی منوہر جوشی نے کنیا کماری سے سری نگر تک رتھ یاترا نکالی اور اس کے اہتمام کی ذمہ داری مودی کو دی گئی۔ان دنوں شنکر سنگھ واگھیلا نے مودی کو حاشیئے پر ڈال رکھا تھا۔ ء میں مودی پارٹی کے قومی سکریٹری بنے اور راجدھانی دلی میں پارٹی ہیڈ کوارٹرمنتقل ہوگئے۔ جب کہ اکتوبر ۲۰۰۱ء میں وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ بن گئے اور۲۶ مئی ء کو ایک نئی تاریخ رقم کی جب انہوں نے ملک کے پندرہویں وزیر اعظم کے طورپر حلف لیا۔

جس وقت سے میں یہ کالم لکھ رہا ہوں میرے ذہن میں مسلسل یہ خبر گر دش کررہی ہے جسے اخیر کی ان سطروں میں میں سپرد قرطاس کرہی دیتا ہوں ۔آج جس وقت پورا ہندوستان نئے کھیون ہار کا استقبال کررہا تھا ۔راشٹر پتی بھون میں نریند مودی کی تاج پوشی ہورہی تھی ۔اسی وقت گجرات کا احمد آباد فرقہ پرستی آگ میں جل رہا تھا ۲۰۰۲ کی تصویر وہاں نظر آرہی تھی ۔اکثریتی اور اقلیتی فرقہ کے درمیان ایک چھوٹا سا معاملہ بھیانک فساد کی شکل اختیارکرچکا تھا ۔فساد پہ قابو پانے کے لئے پولس کو آنسو گیس تک کا استعما ل کرنا پڑا ۔اب تک کی اطلاع کے مطابق ۴ مسلمان شہد ہو چکے ہیں کئی ایک زخمی ہیں ۔دسیوں مسلم دکانوں کو اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے واولوں نے نذر آتش کردیا ہے ۔ وہاں کے مسلمان خوف وہر اس میں مبتلا ہیں ۔مودی کی تاج پوشی کے ساتھ فساد کی شروعات نے انہیں یہ سوچنے پہ مجبور کردیا ہے کہ کیا آنے والا پانچ سال غیر محفوظ رہے گا ۲۰۰۲ کی تاریخ یہا ں پھر دہرائی جائے گی۔ یہ ہے مودی حکومت کا آغاز انجام خدا جانے کیا ہوگا ۔
ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا ۔
آگے آگے دیکھ ہوتا ہے کیا۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163845 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More