قلم کی مار

وزیر اعظم نواز شریف سرگودھا کے جس حلقے سے انتخاب جیتے تھے وہاں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقاتی عمل چند گھنٹوں میں پورا ہوگیا۔اس حلقے کے پولنگ اسٹیشن 262 سے وزیر اعطم نواز شریف کو 779ووٹ ڈالے گئے تھے۔مگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ’’ ریٹرننگ افسر‘‘ جو ہماری روزمرہ کی عام زندگی میں’’ جج صاحب‘‘ کے نام گرامی سے پکارے جاتے ہیں۔اور انتخابات میں انتخابی ڈیوٹی سرانجام دینے پر انہیں ریٹرننگ افسر ‘‘ کہا جاتا ہے ۔

ان جج صاحبان نے اسلام آباد کے ایک سابق طاقتور ’’چیف صاحب‘‘ کے احکامات و ہدایات پر مسلم لیگ نواز کے سے پر تاج بادشاہت رکھنے کے لیے ’’قلم کی مار ‘‘ مارتے ہوئے ہر انتخابی حلقے کے مخصوص پولنگ اسٹیشنز پر بقول الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سکریٹری شیر افگن ’’ٹائپنگ کی غلطیاں‘‘ کی گئیں۔ پورے ملک سے ایسے کرشمے دکھانے کے لیے چالیس سے پچاس حلقوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔

گیارہ مئی انیس صد دو ہزار تیرہ کے انتخابی نتائج پراس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرادری نے کہا تھا کہ’’ آر او ز ‘‘ نے انتخاب کو چرایا ہے۔تو اس وقت بہت سارے حلقوں کی جانب سے آصف علی زرداری کے موقف کا تمسخر اڑایا تھا۔ لیکن آج خود الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سرکاری طور پر اعتراف اور انکشاف کیا جا رہا ہے کہ’’ قومی اسمبلی کے حلقہ …… کے پولنگ اسٹیشن 262 میں دھاندلی نہیں ہوئی بس ٹائپنگ کی غلطی سے محض آٹھ ہزار ووٹ نواز شریف کے کھاتے میں جمع ہوگے تھے…… الیکشن کمیشن آف پاکستان یہ تسلیم کرتا ہے کہ پرائیذ نگ افسر کے مرتب کردہ نتائج اور ریٹر ننگ افسر کے جاری کردہ نتائج میں فرق موجود ہے۔ریٹرننگ افسر نے 779 ووٹوں کو 8779 ووٹ بنا دیا-

مجھے حیرت ہوئی الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ذمہ دار افسر محترم شیر افگن کی معصومیت پر کہ وہ ایک کھلے فراڈ کو ٹائپنگ کی غلطی قرار دیکر اس فراڈ اور ڈاکے پر پردہ پوشی کی ناکام اور شعوری کوشش کر رہے ہیں۔مجھے یہاں اپنے آبائی علاقے شرقپور شریف کے ایک بلدیاتی الیکشن یاد آ گیا ہے۔اس الیکشن میں جنرل کونسلر کی ایک نشست پر میرے ایک محلے دار ’’ملک صاحب‘‘ امیدوار تھے۔ان کا تعلق آرائیں برادری تھا۔ اور بلدیاتی ادارے میں چند ایک ملازمین کا تعلق بھی آرائیں برادری سے تھا …… میرے محلے دار ’’ ملک صاحب ‘‘کوالیکشن میں ’’ شکست کا جھٹکا‘‘ لگنے کا سامنا تھا۔تو آرائیں برادری کے ملازمین نے ’’ملک صاحب ‘‘ کو شکست کے اس جھٹکے سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ کارنامہ سرانجام دیا کہ الیکشن کے نتائج مرتب کرتے وقت تحصیل فروز والا میں شامل ایک یونین کونسل کے پولنگ اسٹیشن کے نام سے ووٹ ’’ملک صاحب کے کھاتے میں ڈال دئیے گیے ۔اور اس فرضی پولنگ اسٹیشن کے علاوہ اضافی ووٹوں کا’’ ملک صاحب ‘‘ کھاتے میں ڈالاجانا الگ باب ہے۔ جیت کے اعلان کے بعد عمران خاں کی طرح مقامی امیدواروں نے شور غوغا کا ایک طوفان بدتمیزی سر پر اٹھا لیا۔بالاآخر ’’ملک صاحب‘‘ کو شکست کے ساتھ ساتھ فراڈ سے جیتنے کی ندامت و شرمندگی کا بھی الگ سامنا کرنا پڑا۔

یونین کونسل کے انتخاب کے نتائج چرانے والے ’’ ملک صاحب ‘‘ کے برادری بھائی سرکاری ملازم کچھ عرصہ تک ملازمت سے معطل رہے لیکن ملازمت پربحال ہونے کے باوجود ان کی نگاہیں آج تک احساس ندامت سے جھکی جھکی رہتی ہیں۔لیکن پتہ نہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اتنے بڑے فراڈ اور گھپلے کے ثابت ہو جانے کے بعد بھی ابھی تک اس ’’ نواز شریفی‘‘ ریٹرننگ افسر کو گھر بھیجنے کا ’’ بدوبست‘‘ کیوں نہیں کیا؟ اسی بات سے مجھے الیکشن کمیشن کی نیت میں فتور اور دال میں کچھ کالا کالا دکھائی دیتا ہے۔ورنہ ٹائیپنگ کی اتنی بڑی غلطی کرنے والا ریٹرننگ افسر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ’’جوائی ‘‘ لگتا ہے ۔کیونکر اس کے خلاف ایکشن لیا جا رہا ؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان جمع خاطر رکھے کہ لاہور کے چار حلقے جن سے کامیاب و کامران ہونے والے ’’ حاجی متقی اور پرہیزگار‘‘ مسلم لیگی امیدوار کب تک ہائی کورٹ اور دیگر پناہ گاہوں میں پناہ گزین رہیں گے۔جب بھی معاملہ اپنے ڈراپ سین کی طرف بڑھا تو سرگودھا کے پولنگ اسٹیشن 262 کو بھی مات دینے والے انکشافات سامنے آئیں گے۔اور پھر الیکشن کمیشن کے بھلے مانس نما کئی ’’ سرگودھا فیم‘‘ ریٹرننگ افسر اور’’ نجم سیٹھی کے لگائے پنکچرز ‘‘بے نقاب ہوں گے-

چلتے چلتے پاکستان کرکٹ بورڈ کے پر کشش چیرمین کے عہدے کے لیے جاری میوزیکل گیم کی بات بھی ہو جائے…… میں یہاں ذکاء اشرف کی یہاں بات نہیں کروں گا اسکی وجہ یہ ہے کہ بقول ہماری صحافتی اشرافیہ کے’’ وہ تو ہے ہی ’’ بدذات سیاست دان‘‘ اور سیاست دان تو اقتدار کے لالچی،دولت کے پجاری ہوتے ہیں۔اخلاقیات سے ان کا کیا تعلق؟ میں یہاں صحافت اور وہ بھی کرپشن سے پاک صحافت کرنے کے علمبردار ’’ کلین اینڈ نیٹ‘‘ نجم سیٹھی کی جانب سے پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیرمینی کے لیے اتنی بے صبر محبت کے ساتھ تڑپنے ،مچلنے پر بات کرنے کا آرزو مند ہوں-

نجم سیٹھی صاحب سے معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ جناب والا عہدوں کے لیے بے چین رہنا اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنا تو ہمارے اشرف ذکاء فیم سیاست دانوں کا وطیرہ اور شیوہ ہے۔مگر آپ تو کرپشن، بدعنوانی ، سے ایسے پاک ہیں جیسے دددھ سے نہائے ہوئے مغل شہزادیاں اور شہزادے ہوتے ہیں ۔پھر ایک حقیر سے کرکٹ بورڈ کی چیرمینی کے لیے اتنی بے صبری کیوں دکھا رہے ہیں۔ کورٹ نے ہٹا دیا ہے تو ٹھیک ہے ……میاں نواز شریف یا اپنے خادم اعلی سے کہہ کر کوئی اور پرکشش اور وسائل سے مالا مال عہدہ ہتھیا لیں…… آپ کے لیے تو یہ معمولی سا کام ہے۔ ایک صحافی کے لیے ایسا طرز عمل مناسب نہیں خیال کیا جاتا…… آگے آپ کی مرضی ہے نجم سیٹھی صاحب ویسے تو چمن کے بچے بچے کے علم میں یہ بات ہے کہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے انٹرا کورٹ اپیل کیوں واپس لی اور کس کی یقین دھانی پر سپریم کورٹ میں گے ہیں……اور کس طرح آپ نے ایک ہی دن سپریم کورٹ سے ’’ ریلیف ‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں……انشاء اﷲ اس پر پھر کبھی بات ہوگی فی الحال اتنا ہی کافی ہے…… نجم سیٹھی صاحب !جب اس عمر میں بھی آپکو ہی اپنی عزت بچانے کا خیال نہیں ہے ۔ تو کوئی اور کیا کرسکتا ہے۔یہ دولت تو آپ کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے،لیکن عزت بہت مشکل سے اور قسمت والے کے حصے میں آتی ہے
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144223 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.