وزیراعظم نواز شریف کا دورہ بھارت .... کون کیا کہتا ہے!

بھارت کے حالیہ انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کر نے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے نومنتخب وزیر اعظم نریندر مودی کی پیر کے روز نئی دہلی میں تقریب حلف برداری کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے بھی شرکت کی۔ تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے نریندر مودی نے جہاں عالمی رہنماﺅں کو دعوت دی، وہیں پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم کے بھارتی وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت نے ملکی و عالمی میڈیا میں کافی پذیرائی پائی اور یہ دورہ عوام و خواص، مذہبی و سیاسی رہنماﺅں اور سرمایہ کار حلقوں کے لیے موضوع بحث بنا رہا۔ میاں نواز شریف کے دورہ بھارت کو اتنی پذیرائی اس لیے ملی، کیونکہ دونوں ملکوں کی 67 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم نے دوسرے ملک کے وزیر اعظم کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی ہے۔ گزشتہ سال اسلام آباد کی طرف سے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ایسی ہی دعوت دی گئی تھی، مگر انھوں نے شرکت سے معذرت کر لی تھی۔ نواز شریف کا بطور وزیراعظم نئی دہلی کا یہ پہلا دورہ ہے۔ 2008ءکے ممبئی حملوں کے بعد سے دونوں ہمسایہ ممالک میں جامع امن مذاکرات تاحال مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکے ہیں۔ اب نریندر مودی کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم کو دعوت دینے کے اس اقدام کی ستائش کی گئی اور پوری دنیا میں اسے مودی حکومت کے ایک مثبت آغاز کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ بھارت کو امید ہے کہ گزشتہ کئی برسوں کے ضیاع کے بعد ٹوٹی ہوئی کڑیوں کو اس ملاقات سے ایک بار پھر جوڑنے کا موقع مل سکے گا۔ 10 برس قبل سابق وزیراعطم منموہن سنگھ سے جب پوچھا گیا تھا کہ وزیراعظم کے طور پر وہ کون سے اہم کام ہیں جو وہ کرنا چاہیں گے، تو ان کا جواب تھا کہ اگر وہ اپنے دور اقتدار میں صرف بھارت اور پاکستان کے رشتوں کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ سمجھیں گے کہ انھوں نے اپنے اقتدار کا مقصد حاصل کر لیا۔ منموہن سنگھ اپنے دور اقتدار میں بی جے پی کی مخالفت کے خوف سے پاکستان کا دورہ کرنے تک کی ہمت نہ کر سکے۔ اب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے یہ ہمت کی ہے اور اس دورہ بھارت سے قبل اتوار کو پاکستان نے خیرسگالی کی بنیاد پر اپنے ہاں قید 151 بھارتی ماہی گیروں کو رہا کیا۔ یہ بھارتی ماہی گیر پاکستان کی سمندری حدود کی خلاف ورزی پر جیل میں تھے۔

میاں نواز شریف کا دورہ بھارت بھارتی میڈیا میں مختلف انداز میں چھا یا رہا اور بھارتی میڈیا کی رپورٹس میں وزیراعظم نوازشریف کے دورہ بھارت کی خصوصی طور پر تشہیر کی گئی۔ بھارتی ٹی وی چینل پر پاکستان بھارت تعلقات پر سیاستدان، سول سوسائٹی کے ارکان اور تجزیہ کار طویل گفتگو کرتے رہے۔ بعض بھارتی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ وسیع تر مفاد میں تعلقات کو فروغ ملنا چاہیے، باہمی مفاد کے حوالے سے یہ بہترین موقع ہے۔ بھارتی ٹی وی چینلز اور اخبارات کے تبصروں، حالات حاضرہ کے پروگراموں، اداریوں اور کالموں میں پاکستان بھارت تعلقات کے خصوصی طور پر تذکرے کیے گئے ہیں۔ نواز شریف کے بھارت جانے کے حوالے سے مثبت رسپانس ملا۔ ہندوستان ٹائمز کے ہندی ایڈیشن کے سینئیر مدیر پرتاپ سبھوانشی نے پاکستانی وزیراعظم کے دورہ کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملاقات کے بعد دونوں ملکوں میں تجارت اور کاروباری شعبے میں کچھ پیش رفت ممکن ہے۔ اگر نواز شریف صاحب نہ آتے ان (نریندر مودی) پر دباؤ پڑتا کہ پاکستان کے حوالے سے اپنی حکمت عملی واضح کریں، تو انھوں نے سیاسی (طور پر) چالاکی سے اسے مثبت موڈ میں تبدیل کر دیا۔ اگر کل کچھ ہوا تو یہ کہیں گے کہ دیکھا ہم نے تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا، مگر انھوں نے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھارتی سیاست دانوں نے وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دورہ بھارت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں میں تمام معاملات پر بات چیت ہونی چاہیے۔ سابق بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے وزیر اعظم نواز شریف کے دورہ بھارت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سب سے بڑا پڑوسی ہے، دونوں ملک تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ بھارت کے سابق سفیر و سیاسی تجزیہ کار جی پارتھا سارتھی نے بھی نوازشریف کے دورہ بھارت اور نریندر مودی کی جانب سے انہیں بھارت آنے کی دعوت کو سراہتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی نے نوازشریف کو بھارت آنے کی دعوت دے کر ایک ڈپلومیٹک سکسر(چھکا) مارا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی پڑوسی ملکوں میں تعلقات کو مضبوط دیکھنے کی خواہاں ہے۔ بی جے پی کا موقف ہے کہ میاں نواز شریف نے دعوت قبول کرکے پاک بھارت دوستی کے نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ جبکہ انتخابات میں ناکامی پر دل برداشتہ کانگریس نے نئی حکومت کو مشورہ دیا کہ نواز شریف سے سبھی معاملات پر بات کرنی چاہیے۔ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق صدر ڈپٹی وزیراعظم و مرکزی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف نے نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں آنے کا اچھا فیصلہ کیا ہے، میں اسے اچھے پیرائے میں دیکھتا ہوں، گو کہ ہمارے ہاں انہیں بلانے پر اختلاف تھے، لیکن مجموعی طور سے بی جے پی نے فیصلہ کیا کہ سارک کے تمام ممالک کے سربراہان کو بلایا جائے، میں نواز شریف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں، ہمیں امید ہے کہ وہ اپنے دورے کے دوران دونوں ملکوں کے باہمی رابطوں کے بارے میں اپنی رائے ضرور دیں گے۔ جبکہ بھارتی اخبار ”انڈین ایکسپریس“ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عاید کرنے والی ہندو انتہا پسند جماعت شیو سینا کے رہنماﺅں سے جب نواز شریف کے دورہ بھارت سے متعلق پوچھا گیا تو اس پر شیو سینا کے رہنماﺅں نے کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ ادھر جموں کشمیر ڈیموکریٹک فورم کے سربراہ پنڈت بھوشن بزاز نے نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں میاں نوازشریف کی شرکت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اب دونوں ملکوں کے درمیان نئے دور کا آغاز ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی میاں نواز شریف کے دورہ بھارت کو خوش آیند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ دونوں ممالک تعلقات کے نئے دور کے آغاز کے لیے پر عزم ہیں اور ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر میں پی ڈی پی کے سرپرست اعلیٰ نے نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں وزیر اعظم میاں نوازشریف کی شرکت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو اپنے مسائل بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہیے، تاکہ خطے میں امن و امان کو بحال کیا جا سکے۔ پاکستانی وزیر اعظم کے بھارت کا دورہ کرنے سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مثبت سمت ملے گی۔ جموںکشمیر کی اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی نے بھی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی شرکت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مثبت سمت ملے گی۔ سبھی کی نگاہیں پاکستانی وزیر اعظم کے ردِ عمل پر مرکوز تھیں۔ یہ جموں کشمیر کے عوام کے لیے نو منتخب وزیر اعظم کا سب سے بڑا تحفہ ہوگا اور ان کی حکومت کی طرف سے اعتماد سازی کا سب سے بڑا قدم ثابت ہوگا۔ دوسری جانب بھارت میں عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کے سیاسی ادارے اور سویلین حکومت پہلے روز سے ہی دہلی کے دورے کے حق میں تھی اور اسے وہ ایک مثبت آغاز تصور کرتی ہے، لیکن ان کے خیال میں پاکستان کی فوج دہلی کے دورے کے حق میں نہیں تھی۔ بلکہ بھارتی تجزیہ نگار جمعے کو ہرات میں بھارت کے قونصل خانے پر حملے کو بھی پاکستانی فوج کے حمایت یافتہ حملے سے ”منسوب“ کر رہے ہیں اور اسے مودی کی دعوت کا پاکستان کی فوج کا ”جواب“ قرار دیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ملک کی 4 بڑی سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور عوامی نیشنل پارٹی نے وزیراعظم نواز شریف کے نامزد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے فیصلے کی مکمل حمایت کرتے ہوئے اسے ملکی مفاد میں قرار دیا ہے۔ جماعت اسلامی، جماعة الدعوہ اور شیخ رشید نے بھارتی دورے کے حوالے سے وزیراعظم پر تنقید کی ہے اور سابق صدر زرداری نے فیصلے کو دانشمندانہ قرار دیتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے۔ جبکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پاکستانی اور بھارتی قائدین کی حلف برداری کی تقریب میں اکٹھا ہونا دونوں مخالف ملکوں کے لیے ایک تاریخی موقع ہوگا۔ دی نیویارک ٹائمز کی دہلی سے فائل شدہ خبر میں کہا گیا کہ نئی دہلی کی خیرسگالی د عوت اور اسلام آباد کی جانب سے مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوگا، جو2013ءکے ابتدا سے جمود کا شکار ہیں، ہندو انتہاپسند رہنما نریندرمودی نے آسیان کے تمام رکن ممالک سے اعلیٰ عہدیداروں کو دعوت دے کرایک نئی تاریخ رقم کی ہے، کیونکہ بھارت میں روایتی طور پر حلف برداری کی تقریب میں کسی غیرملکی رہنما کوشریک نہیں کیا جاتا۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان اور بھارت کی سیاسی جماعتوں کے علاوہ دنیا بھر کے سرمایہ کار حلقے اورصنعتی گروپوں نے وزیر اعظم نوا زشریف کے بھارت جانے کے فیصلے کو اچھا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں قیام امن میں مدد ملے گی، بھارتی ویب سائٹ آﺅٹ لک انڈیا کے مطابق لندن سے تعلق رکھنے والے صنعتی این آر آئی کپارو گروپ کے بھارت نژاد چیئرمین لارڈ سوراج پال نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا نامزد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کا فیصلہ خوش آیند ہے، اس سے دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے اور برصغیر میں قیام امن میں مدد ملے گی۔ تمام بھارتی پاکستانی اور خیر سگالی کے جذبات رکھنے والے اس بات پر خوش ہیں کہ نواز شریف خوشی کے اس موقع پر پاکستان کی نمایندگی کریں گے۔ مودی نے نواز شریف کو دعوت دے کر دلیرانہ اقدام اٹھایا، جس کا جواب بھی شاندار طریقے سے ملا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں رہنما اپنی ساکھ کو مزید بہتر کریں گے، جس سے دوطرفہ تنازعات کے حل میں مدد ملے گی۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 634644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.