میں ابھی اسلم ہی تھا

ہم کچھ دوست‘ ایک دربار پر بٹھے ہوئے تھے۔ پہت سے لوگ‘ آ اور جا رہے تھے۔۔ ان میں ہر کسی کی‘ منزل ایک نہ تھی۔ ہر کوئی‘ الگ سے اپنی حاجت اور آرزو رکھتا تھا۔ ایک جگہ جمع ہو کر بھی‘ وہ ایک دوسرے سے‘ فکری طور پر کوسوں دور تھے۔ یہ ہی نہیں‘ ایک ساتھ آنے والے‘ ایک ہی کنبہ کے لوگ‘ الگ نوعیتوں کی خواہشات‘ دل میں چھپا کر آئے تھے۔ ایک جوڑا‘ اپنے نومولود بچے کو لے کر‘ حاضر ہوا تھا۔ دربار کی سیڑھیوں کے قریب‘ آپس میں الجھا ہوا تھا۔ ایک ساتھ رہ کر اور ایک بچے کے مائی باپ ہو کر بھی‘ وہ ایک سی سوچیں؛ ایک سے نظریے اور ایک حاجات نہ رکھتے تھے۔ ان کےباطن میں‘ پنپنے والی آرزویں‘ ایک دوسرے کے قریب تر نہ تھیں۔ ہر کوئی‘ ذات کے حصار میں مقید تھا۔ اگر اس جوڑے میں‘ کسی بھی سطح پر‘ فکری اشتراک ہوتا تو یوں آپس میں الجھ نہ رہے ہوتے۔

جملہ آسمانی تعلیمات کے‘ دو ہی مقاصد رہے ہیں۔ انسان کا فکری اشتراک‘ دوسروں کی خدمت کرنا اور ان کی خیرخواہی چاہنا۔ اس صورت حال کے پیش نظر‘ انسان اپنی ذات سے‘ ادھر ادھر نہیں ہوتا۔ وہ تامرگ اپنے لیے جیتا ہے‘ اور اپنی آرزوں کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتا ہے اور اسے ہی‘ مقصد حیات گردانتا ہے۔

ہم چاروں دوست‘ اپنی اپی آرزوں کی پوٹلی اٹھا کر چلنے ہی کو تھے‘ کہ دربار سے باہر‘ پانوں سگرٹوں کی دکان پر‘ ریڈیو پر اختر شیرانی کی یہ غزل چھڑ گئی:
میں آرزو جاں لکھوں یا جان آرزو
تو ہی بتا دے ناز سے‘ ایمان آرزو

یہ غزل مجھے بڑی پسند تھی۔ میں نے دوستوں سے کہا: یار ذرا ٹھہر جاؤ۔ یہ غزل سن کر چلتے ہیں۔ ان کی مہربانی‘ کہ انہوں نے میری بات مان لی اور غزل ختم ہونے تک‘ رک گیے‘ ورنہ سارے رستے بوریت اور افسردگی‘ طاری رہتی۔ جب غزل کا یہ شعر
ایمان جان نثار تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو

آیا تو‘ ایک ملنگ بابا‘ جو کافی عمر رسیدہ تھا‘ وجد میں آ گیا‘ اور پھر اٹھ کر ناچنے لگا۔ ہم سب کی سوچیں‘ وہیں منجمد ہو گئیں۔ آخر شعر میں‘ وجد میں آنے‘ اور پھر ناچنے والی کون سی بات ہے۔ سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ ہم غزل سننے سے زیادہ‘ اس ملنگ بابا کو دیکھ رہے تھے۔ یوں لگتا تھا‘ جیسے اس کے اندر‘ کوئی بےچین روح‘ مچل گئی تھی۔ یہ فعل‘ اس کا اختیاری نہ تھا۔ کسی جذبے نے‘ اسے تھرکنے پر مجبور کر دیا تھا۔

غزل ختم ہوئی‘ تو ملنگ بابا‘ نڈھال ہو کر‘ گر پڑا۔ لگتا تھا‘ جیسے صدیوں کا سفر طے کرکے‘ اس مقام پر پہنچا ہو۔

نوید ہم میں سے‘ خوش طبع واقع ہوا ہے۔ بابے کی عمر دیکھو‘ اور کام دیکھو۔ رہتا کہاں ہے‘ اور سوچیں کسی حسینہ کی زلفوں میں‘ اٹکی ہیں۔ یقینا ناکام محبت‘ اسے اس مقام تک لے آئی ہے۔

شاہد بولا: چھوڑو یار‘ ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔غزل کی زبان تو دیکھو‘ کیا شگفتگی‘ شائستگی اور ہم صوت آوازوں کا اسستعمال ہوا ہے۔ مضمون بھی تو‘ اپنی نوعیت کا ہے۔ نغمیت تو دیکھو۔ زبیدہ خانم نے بھی تو‘ گائیکی میں حد کر دی ہے۔۔ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔ واہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار‘ کیا بات ہے۔

ساجد نے شاہد کو مزید بات نہ کرنے دی۔ بولا: اوئے چپ کر کیہ بھور رہا ایں۔ بات ملنگ کی ہو رہی ہے‘ تم غزل کی زبان اور گائیکی کو لے بیٹھے ہو۔

پھر تم ہی اپنی چھوڑو۔ شاہد نے بےزاری سے کہا۔

ملنگ جذب کی آخری حالت میں تھا۔ اسے سمجھنے کے لیے‘ اس کی حالت اور کیفیت میں جانا پڑے گا‘ ورنہ ملنگ سمجھ میں نہ آ سکے گا۔

اچھا تو تمہارا کہنا یہ ہے کہ ہم سب اٹھ کر ناچنا شروع کردیں۔

بھائی میرے‘ ناچنے سے کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا۔ اس سے کیا ہوتا ہے‘ عشق نچاتا ہے‘ اور ہوش چھین لیتا ہہے۔

میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا‘ ملنگ کو اس کے ماضی سے جڑی حسینہ کی یاد نے اسے نچایا تھا۔

پگلے‘ میں اس عشق کی بات نہیں کر رہا۔ میں تو ذات واحد سے‘ عشق کی بات کر رہا ہوں۔ ملنگ ناچتے وقت‘ ملنگ نہ تھا۔ بس وہ ملنگ دکھائی دیتا تھا۔ اگر وہ اپنی موجودہ حالت میں ہوتا‘ تو کبھی نہ ناچتا۔ وہ تو ٹھیک سے چلنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ یہ رقص‘ جو تم د یکھ رہے تھے‘ وہ تو بڑی دور کی بات ہے۔
تمہارا مطلب یہ ہے‘ کہ ملنگ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔
میں نے یہ کب کہا ہے‘ کہ وہ کوئی پہنچی ہوئی شے ہے۔

یہ معاملہ‘ بس چند لمحموں سے‘ تعلق رکھتا ہے۔ اس کیفیت پر اختیار نہیں۔ اس میں شخص اپنی نفی کے عمل میں داخل ہو چکا ہوتا ہے۔۔ اثبات میں آنے کے بعد‘ اسے کچھ یاد نہیں ہوتا‘ کہ کیا اور کیوں ہوا۔ دوسرا شخص‘ اگر ان لمحوں کو جان لے‘ تو پھٹ جائے۔ غالب نے خوب کہا ہے:

دیتے ہیں بادہ‘ ظرف قدح خوار دیکھ کر

یا ر ذرا اس شعر کو دیکھو‘ کہاں لے جا رہا ہے:
ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ہی ایماان آرزو
یہ شعر سن کر عشق مجازی والا ہو‘ یا عشق حقیقی والا‘ اپنے آپے میں رہ نہیں سکتا۔
یہ شعر سن کر‘ عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی‘ مبتلا اپنے آپے میں رہ نہیں سکتا۔ اگر آپے میں رہتا ہے‘ تو وہ عشق نہیں‘ سوداگری ہے یا پھر‘ ابھی راہ میں ہے۔
۔نوید بولا: یہ تم‘ اس میں تصوف کہاں سے لے آئے ہو۔ اس غزل کا‘ تصوف سے‘ دور کا بھی واسطہ نہیں۔
یہ تم اپنے حوالہ سے بات کر رہے ہو۔ میں ملنگ کی‘ بےخودی کے ییش نظر بات کر رہا ہوں۔ جس مقام پر‘ وہ ان لمحوں میں تھا تم کیا‘ کوئی بھی نہیں جانتا۔

ابوعمر حمادی صرف عالم فاضل ہی نہیں تھا‘ سرکاری قاضی بھی تھا۔ اس ٹھوس حقیقت کے باوجود‘ وہ منصور کی وجہ سے وجود پاتا ہے۔اس کے قتل کی بنیادی وجہ‘ تو منصور کی تحریریں تھیں۔ اس کے قلم کی زد میں‘ مذہبی اور اقتداری طبقے تھے۔ اگر فرد ان کو نہ چھیڑے‘ تو کچھ نہیں ہوتا۔ ان کو چھیڑنے کی صورت میں ہی‘ جان سے جاتا ۔ہے۔ شاہد نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔

حمادی اسی لیے زندہ ہے‘ کہ اس نے‘ منصور کے قتل کا فتوی دیا تھا‘ ورنہ سیکڑوں مولوی‘ مفتی اور قاضی ہو گزرے ہیں‘ انہیں کون جانتا ہے۔ وہ دکھنے والے منصور کو پہچانتا تھا‘ اگر وہ اناالحق کا نعرہ لگانے والے‘ قیدی منصور کو جانتا ہوتا‘ تو اس کے قتل کا کبھی فتوی نہ دیتا۔ وہ مدعی کا‘ اس کے دعوے کی سطح کا‘ امتحان کرتا‘ تو ہی دودھ کا دودھ‘ پانی کا پانی ہو یاتا۔

اس حوالہ سے‘ تو بات ہی نہیں ہو رہی اور ناہی ہماری گفتگو کا‘ یہ موضوع ہے۔ میں تو ملنگ کے بےخود ہو کر‘ ناچنے کے حوالہ سے بات کر رہا ہوں۔ جب آدمی آپے میں نہیں ہوتا‘ تو عموم اور معمول سے باہر نکل جاتا ہے۔

وہ دونوں اس موضوع پر بحث کرنے لگے۔ شاہد کا موقف تھا‘ کہ اناالحق کا نعرہ‘ اس کے قتل کی وجہ نہ تھا۔ وہ مذہبی اور مقتدر حلقوں پر‘ تنقید کرتا تھا۔ ابوعمر حمادی‘ اس کے علم وفضل سے آگاہ تھا۔۔ اس کے ہوتے‘ حمادی کے سکے کھوٹے رہتے۔ وہ دین کی‘ سرکاری تشریح کرتا تھا‘ جب کہ منصور اس کی حقیقی شرح کرتا تھا‘ تب ہی تو دس سال قید رہا۔ لوگ اس کے گرویدہ تھے۔ سرکار اس کی مقبولیت کو کیوں کر برداشت کر سکتی تھی۔ اسے بھیڑیے کا بہانہ اختیار کرنا پڑا۔

یار وہ دینی علم کے حوالے سے ہی نہیں‘ روحانی علم کے حوالے سے بھی بہت آگے تھا۔ حمادی سے لوگ‘ صدیوں میں بھی وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ اگر تم ملنگ بابے کی باڈی لنگوئج کا مطالعہ کرتے‘ تو شاید زیادہ سمجھ پاتے۔ وہ اوپر دیکھ رہا تھا۔ اس کی انگلی بھی اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ وہ دنیا سے متعلق ہی نہ رہا تھا۔

وہ اپنی گفتگو میں مصروف تھے‘ جب کہ میں سوچ رہا تھا‘ کہ ریحانہ میری زندگی میں‘ کیسے آ سکتی ہے۔ ریحانہ میری خالہ زاد تھی۔ ہمارا بچپن ایک ساتھ گزرا تھا۔ اگر میری ماں لالچی تھی‘ تو خالہ بھی‘ اس سے کسی طرح کم نہ تھی۔ خالہ چاہتی تھی‘ کہ اس کی بیٹی کوٹھی کاروں والے گھر جائے‘ جب کہ میری ماں کا خیال تھا‘ کہ اس کی بہو‘ کوٹھی کار جہییز میں لائے۔ آخر وہ‘ بیٹے کی ماں تھی۔ ہمارے ہاں کی ہر ماں‘ اسی طرح کے ہی خواب دیکھتی چلی آ رہی ہے۔ انہیں ہماری خوشیوں سے‘ کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔

یہاں ہمارے‘ اپنے بھی‘ ابنے نہیں‘ اور فکری مطابقت کی‘ کوئی صورت ہی نہیں۔ میں ریحانہ کو‘ دل و جان سے چاہتا تھا۔ میرا خیال تھا‘ کہ میں اس کے بغیر‘ زندہ نہیں رہوں گا۔ اسی کے حصول کی دعا لے کر‘ میں دربار پر حاضر ہوا تھا۔ باقی میرے تینوں دوست‘ دل میں کیا رکھتے تھے‘ میں نہیں جانتا۔ زندگی آرزوں کی گرفت میں ہے‘ تب ہی تو غیر آسودہ ہے۔ ملنگ بابا بھی‘ آرزو سے بالا نہ تھا۔ تکمیل کے فقط چند لمحے‘ دستیاب ہوئے تھے‘ لیکن غزل ختم ہو گئی‘ اور وہ زمین پر آ رہا تھا۔ اس شعر پر
ایمان جان نثار کروں تری اک نگاہ پر
تو جان آرزو ہے تو ہی ایمان آرزو

میرے اندر بھی‘ ارتعاش پیدا ہوا تھا‘ لیکن میں رقص نہ کر سکا‘ میں اپنے آپے میں تھا۔ میں ابھی اسلم ہی تھا‘ ریحانہ نہیں ہوا تھا ۔اگر ریحانہ ہو گیا ہوتا‘ تو دنیا کی پرواہ کیے بغیر‘ ملنگ بابے کے ساتھ رقص کر رہا ہوتا۔
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176957 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.