بے رخی

بوٹا رام پور کا مشہور ڈولچی تھا جسے چوہدری ولی محمد کے ڈیرے میں نوکری کرتے ہوئے تقریباً دس سال ہوگئے تھے۔ بوٹے کا باپ بھی چوہدری ولی محمد کا ملازم تھا جس کا کام چوہدری صاحب کے لیے صبح سویرے حقہ بنانا، مہمانوں کی خاطر داری کرنا، اور گھر سودا پہنچانا تھا۔ بوٹے کے باپ کی موت کے بعد اب یہ ذمہ داری چوہدری صاحب کی طرف سے بوٹے پر آن پڑی تھی۔ وہ صبح سویرے حویلی جاتا، چوہدری کے لیے حقہ بناتا، گھر سامان دیتا، مہمانوں کی خاطر داری کرتا اور شام کو چوہدری کی اجازت سے گھر واپس آ جاتا۔ ہر اتوار چوہدری صاحب بوٹے سے ڈھول کی تھاپ پے ٹپے سنتے اور اسے انعامات سے نوازتے تھے۔ بوٹے کی بوڑھی ماں اور ایک بہن سارا دن گھر میں بے کار پڑی رہتیں اور اس کے آنے کا انتظار کرتی رہتیں۔ چوہدری صاحب کا ایک جوان بیٹا سلطان اور ایک بیٹی رانی تھی۔ دونوں اپنے والد کے لاڈلے تھے۔ رانی کی شادی 4 ماہ قبل ایک شہری بابو سے ہوگئی تھی اور وہ اپنے گھر خوش باش تھی۔ وہ مہینے میں ایک آدھ بار باپ سے ملنے اپنے گاؤں آتی تھی، وہ جب تک گاؤں رہتی تھی چوہدری اپنی بیٹی کی خوب خاطر مدارت کرتا تھا۔ نوکرانیاں اس کے آگے پیچھے ہوتیں۔ سلطان چوہدری صاحب کا لاڈلا اور اکلوتا بیٹا تھا۔ چوہدریوں کے بیٹے عام طور پر اکھڑ مزاج ہوتے ہیں اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتے مگر سلطان نوکروں سے بھی خوشی سے ملتا اور ان کو زیادہ کام کرنے سے روکتا۔ گاؤں کی اکثر لڑکیاں سلطان کو چاہتی تھیں اور اس سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر چوہدری صاحب سلطان کی شادی گاؤں کی غریب لڑکی کی بجائے امیروں میں کرنا چاہتے تھے۔ ایک دن چوہدری صاحب اپنے بیٹے کے ہمراہ شہر جانے لگے تو جانے سے پہلے انہوں نے بوٹے کو اپنے پاس بلوایا اور کہا:
’’بوٹے میں سلطان کو لے کر شہر جا رہا ہوں۔ رات ہوسکتی ہے، تم پیچھے سے سارا نظام دیکھتے رہنا اور میرے واپس آنے تک ادھر ہی رہنا۔‘‘
بوٹا بولا: ’’جو حکم چوہدری صاحب‘‘۔

بوٹا ایک ذمہ دار اور قابل بھروسہ ملازم تھا۔ سو وہ چوہدری کے آنے تک تمام کام خوش اسلوبی سے سرانجام دیتا رہا۔

چوہدری اور اس کا بیٹا شہر کے ایک مشہور بازار میں خرید و فروخت میں مگن تھے کہ اچانک سلطان کی نظر سامنے سے آنے والی ایک لڑکی پر پڑی۔ لڑکی نے سرخ رنگ کی قمیض اور نیچے سفید پاجاما زیب تن کیا ہوا تھا۔ سر پے دوپٹہ تھا جو اس کے سر پر ٹکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ دوپٹہ گرتا تو وہ اسے جلدی سے دوبارہ اپنے سر پر کر لیتی، مگر تھوڑی دیر بعد پھر دوپٹہ گر جاتا۔ چوہدری صاحب اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے جوتوں والی ایک دُکان کے اندر داخل ہوگئے اور جوتے پسند کرنے میں مگن ہوگئے۔ سلطان باہر اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔ لڑکی سلطان کو دیکھ کر مسکرائی اور اسے کاٹتے ہوئے آگے نکل گئی۔ سلطان کو اس کی مسکراہٹ بہت پیاری لگی، وہ واپس مڑا اور اس لڑکی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اب لڑکی یہ جان چکی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی ہے اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔ سلطان نے بھی اپنی رفتار بڑھا دی۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی نے اپنی رفتاردھیمی کی اور وہ رک گئی۔ سلطان کی رفتار ویسے ہی تھی۔ ایک دم سلطان نے اس کی طرف دیکھا اور رک گیا۔ لڑکی اس کی طرف دیکھ کر دوبارہ مسکرائی اور پاس لگی جیولری کی دُکان پر کھڑی ہوگئی۔ اب سلطان کو اس کی پرکشش مسکراہٹ نے پریشان کر دیا تھا۔ وہ جلدی سے واپس مڑا اور اس دکان میں داخل ہوگیا جہاں اس کا باپ جوتے خریدنے میں مصروف تھا۔ سلطان اندر گیا اور بولا:
’’جی کوئی پسند آیا آپ کو؟‘‘
چوہدری بولا : ’’ہاں یہ دو جوڑے پسند ہیں‘‘ ساتھ ہی چوہدری نے کہا ’’تم کہاں تھے؟‘‘
سلطان بولا : ’’وہ میں باہر جرسیوں والی دُکان میں تھا۔‘‘
’’تو کتنی لیں تم نے؟‘‘
وہ بولا : ’’ابھی تو نہیں لی۔‘‘

باپ بیٹا انہیں باتوں میں مگن تھے کہ وہ لڑکی جو سلطان کو دیکھ کر کئی بار خوبصورت انداز میں مسکرائی تھی اسی دُکان میں د اخل ہوگئی جہاں چوہدری اور اس کا بیٹا جوتے دیکھ رہے تھے۔ سلطان جوتوں کو دیکھ رہا تھا جوں ہی اس نے اپنی نظریں اوپر ڈالیں تو سامنے لگے شیشہ میں اس نے اُسی لڑکی کو جوتے پسند کرتے ہوئے دیکھا۔ سلطان حیران ہوگیا، اُس کا دل اس لڑکی پر آ چکا تھا۔ کبھی وہ جوتوں کو دیکھتا، تو کبھی اس لڑکی کی طرف دیکھنے لگتا۔ وہ لڑکی بھی یہی عمل بار بار دھراتی رہی۔ آخر سلطان نے اپنے باپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے دبایا۔ پہلے تو چوہدری صاحب نے کوئی توجہ نہ دی۔ پھر سلطان نے باپ کا ہاتھ دوبارہ زور سے دبایا تو چوہدری صاحب سلطان کی طرف دیکھ کر بولے :
’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘
سلطان بولا: ’’وہ ابا جی کچھ نہیں‘‘۔
’’نہیں کوئی تو بات ہے؟‘‘ سلطان نے ڈرتے ہوئے اپنے باپ کو اس لڑکی کی طرف دیکھنے کو کہا۔ چوہدری نے لڑکی کی جانب نظریں دوڑائیں اور بولے: ’’بہت پیاری ہے‘‘۔ اس دوران لڑکی نے چوہدری کی طرف دیکھا اور جلدی سے نظریں نیچے کر لیں۔ چوہدری نے سلطان کو کہا: ’’تو باہر تم اسے دیکھ رہے تھے؟‘‘ سلطان مسکرا کر بولا :’’جی ہاں‘‘ ۔
چوہدری ہنسا اور بولا ’’بیٹا جوتے پسند کرو۔ لڑکی پیاری ہے مگر پتا نہیں کون ہے کون نہیں‘‘۔

سلطان بولا :’’ابا کون ہے کون نہیں سے ہمیں کیا لینا دینا۔ لڑکی ہے تو خوبصورت؟‘‘ چوہدری نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
سلطان نے کہا: ’’پھر میں اسی سے شادی کروں گا۔‘‘
چوہدری یہ سنتے ہی کھانسنے لگا اور حیران ہو کر بولا : ’’تم پاگل تو نہیں ہوگئے سلطان؟‘‘ بازار میں گھومتی لڑکی سے شادی کرو گے؟‘‘
وہ بولا: ’’تو کیا لڑکیاں بازار میں نہیں گھومتیں؟‘‘ میں اسی سے شادی کروں گا بس‘‘ وہ ابھی باتیں کر رہے تھے کہ لڑکی نے کچھ جوتے خریدے ان کے روپے ادا کیے اور دکان سے باہر چلی گئی۔

سلطان نے فوراً اپنے ابا سے کہا ’’ابا اُس کے پیچھے چلتے ہیں‘‘۔ اس کے ابا بولے ’’نہیں نہیں اپنا کام کرو، ہم نے واپس بھی جانا ہے‘‘ سلطان نے اپنے باپ کی بات کو اہمیت نہ دی اور اس لڑکی کے پیچھے چلا گیا۔ چوہدری نے جوتے وہاں چھوڑے اور جلدی سے سلطان کے پیچھے چل پڑا۔ چوہدری نے اسے آواز دی مگر سلطان کافی آگے جا چکا تھا۔ اس لڑکی نے پیچھے دیکھا تو سلطان اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ لڑکی نے اپنی رفتار کم کر دی۔ دراصل وہ بھی سلطان پر مرنے لگی تھی۔ اسی لیے تو جیولری والی دُکان سے جوتوں والی دُکان پر سلطان کا پیچھا کرتے ہوئے پہنچ گئی تھی۔ سلطان نے بھی بریک پر پاؤں رکھا اور اپنی سپیڈ کم کر دی۔ اتنے میں چوہدری سلطان کے پاس پہنچ گیا اور بولا ’’سلطان پتر رک جا‘‘ رک میری بات سن‘‘ وہ رُک گیا، اس کے باپ نے اسے کہا:

’’بیٹا میں نے بچپن سے لے کر آج تک تیری ہر بات مانی ہے۔‘‘ توں نے تو سوچ بھی کیسے لیا کہ آج تجھے ناراض کر دوں گا؟‘‘ ساتھ ہی چوہدری نے کہا: ’’چل بتا کہاں ہے وہ؟‘‘ سلطان ہنسا اور باپ کو اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ’’ابا وہ دیکھو آگے ہے۔‘‘ چلو اس کے پیچھے۔ ‘‘ اب چوہدری صاحب بھی مست و مست سلطان کے ہمراہ اُس مہیلا کے پیچھے چلنے لگے۔ لڑکی نے پانچویں بار پھر مڑ کر دیکھا۔ اس بار سلطان اور اس کے باپ دونوں نے اسے دیکھا۔ سلطان کے باپ نے اسے رکنے کا اشارہ کیا تو وہ فوراً رک گئی۔ سلطان یک دم ڈر سا گیا اور اپنے باپ کو بولا: ’’آپ نے اسے روکا کیوں؟‘‘ وہ بولے تو ٹھیک ہے جانے دوں؟‘‘ جس پر سلطان نے جلدی سے کہا:
’’نہیں‘‘ دونوں باپ بیٹا اس پراسرار لڑکی کے پاس پہنچ گئے۔ چوہدری صاحب بولے:
’’بیٹا تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے مختصر سے وقفہ کے بعد کہا: ’’میں کیوں بتاؤں آپ کو اپنا نام؟‘‘ ساتھ ہی سلطان بولا: ’’میرا نام سلطان ہے‘‘ اور اب آپ اپنا نام بتائیں؟‘‘ سلطان کی آواز اسے بھلی محسوس ہوئی اور وہ بولی:
’’میں نمرہ ہوں‘‘ اور مسکرانے لگ پڑی۔ چوہدری صاحب دوبارہ بولے ’’بیٹا وہ بات دراصل یہ ہے کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے، جو اس وقت تمہارے سامنے کھڑا ہے اور میں اسے بہت پیار کرتا ہوں۔‘‘ لڑکی بولی ’’تو؟‘‘ چوہدری نے کہا: ’’تو بیٹا آج اس نے پہلی بار مجھے کسی لڑکی کے پیچھے جانے کو کہا ہے۔‘‘ اتنے میں سلطان بولا: ’’میں آپ کی آنکھوں کا دل دادا ہوگیا ہوں۔‘‘ وہ پھر مسکرائی اور بولی ’’ادھر بھی یہی حالت ہے۔‘‘ تینوں مسکرائے اور بازار میں کھڑے باتیں کرتے رہے۔ پھر لڑکی نے چوہدری کو بتایا کہ اس کی والدہ کا انتقال ہوچکا ہے اور وہ اپنے باپ کے ساتھ گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ اس لڑکی نے انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ بھی کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھی جو شہر سے دور گاؤں میں سکون کی زندگی بسر کر رہا ہو۔ لڑکی کے اصرار پر چوہدری صاحب کو اور سلطان کو اس کے گھر جانا پڑا ور اس کے باپ سے ان دونوں کے اچانک عشق کے متعلق بتانا پڑا۔ لڑکی کا باپ ایک صوفی انسان تھا۔ اس نے اپنی بیٹی کی خوشی کو مقدم جانا اور ہاں کر دی۔ رشتہ منٹوں میں طے پا گیا۔ سلطان اور اس کا باپ جب حویلی واپس آئے تو بہت خوش تھے۔

اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو اتوار کے دن شادی کا سامان حویلی آنے لگا۔ پورے رام پور کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ برقی قمقمے ہر جگہ نظر آنے لگے۔ شامیانے لگنے لگے اور تیاریاں عروج پر پہنچ گئیں۔ بوٹا دل ہی دل میں بہت خوش تھا اس کی خوشی کی وجہ سلطان کی شادی نہیں بلکہ اتوار کے دن حسب معمول ڈھول بجانا تھا۔ اس اتوار تو اس نے ڈھول کے گرد ہار لگائے ہوئے تھے۔ بوٹے نے سوچ رکھا تھا کہ اسے سلطان کی بارات پے ڈھول بجانا ہے اور بارات کے ساتھ شہر تک جانا ہے۔ مگر شادی کے روز چوہدری کا ایک ملازم بوٹے کے گھر آ ٹپکا۔ اس نے بوٹے کو یہ بتایا کہ سلطان کی بارات کے ساتھ بوٹا ڈھول نہیں بجائے گا بلکہ بارات کے ساتھ شہر سے آیا ہوا ایک مشہور بینڈ ساتھ جائے گا۔ بوٹے کو یہ سن کر انتہائی صدمہ ہوا۔ وہ بوٹا جو پچھلے کئی سال سے ڈھول بجاتا تھا اور ہر تقریب میں آگے آگے ہوتا تھا، اب اسے بَھلا دیا گیا تھا۔ بوٹے کی ماں نے اُس سے اصرار کیا کہ وہ حویلی چلا جائے اور اس بات کو بھول جائے، مگر بوٹا حویلی نہ گیا۔ وہ اپنی حیثیت جان چکا تھا۔ وہ اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ اس نے کیوں اتنے عرصے چوہدری کی غلامی کی۔ بعد میں اس کی ماں نے بوٹے کو بتایا کہ انہیں چوہدری کی طرف سے شادی کا کارڈ بھی نہیں آیا۔ جس پر اسے شدید صدمہ ہو اور وہ بولا:
’’ہم غلام تھے اور غلام ہی رہیں گے۔‘‘

سلطان کی شادی دھوم دھام سے ہوگئی اور شام کو بارات گھر واپس لوٹ آئی۔ کسی نے بارات پے بوٹے کو مس تک نہ کیا۔ گھر آتے ہی چوہدری نے اپنے ملازم سے پوچھا ’’بوٹا کہاں ہے؟‘‘ آج میرا حقہ کیوں ٹھنڈا ہے؟‘‘ جس پر ملازم نے انہیں بتایا کہ وہ نہیں آیا۔ چوہدری کو اپنے حقے ٹھنڈے ہونے کی فکر ستائے ہوئے تھی اور دوسری طرف بوٹے کو اپنی حیثیت معلوم ہونے کا غم۔ بوٹا چند دنوں بعد فالج کے اٹیک سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ جب چوہدری کو بوٹے کی حالت کے بارے معلوم ہوا تو چوہدری بوٹے کے گھر نہ گیا کیوں کہ اسے اپنے حقہ ٹھنڈا ہونے کا غصہ ابھی باقی تھا۔

Uzair Altaf
About the Author: Uzair Altaf Read More Articles by Uzair Altaf: 26 Articles with 25794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.