پسماندہ علاقوں کی حالت زار اور میرٹ

وادی ء کالام میں مجموعی طور پر اوشو مٹلتان بشمول اتروڑ تین ہائی سکولز اور ایک ہائیر سیکنڈری سکول ہے۔اس کے علاوہ تین سے چار مڈل سکولز اور گنتی کے چند پرائمری سکولز ہیں۔ جس طرح وادی کالام کے طلباء کو حصول علم میں مشکلات در پیش ہیں وہ مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے ،کہ میں نے بھی زندگی کے چند قیمتی سال ان بھوت عمارتوں کا طواف کرتے گزارے ہیں۔دور دراز کے طلبہ صبح سویرے نماز فجر کے وقت اپنا بستہ اٹھا کر تین تین ، چار چار گھنٹے پیدل سفر کر کہ جب سکول پہنچتے ہیں، تو دروازوں کو موٹے موٹے تالے لگے زنگ الود ہورہے ہوتے ہیں۔بھوت بلڈنگ کے چکر کاٹ کر جب یہ طلبہ واپس اپنے گھروں کو پہنچتے ہیں تو چار سے پانچ بج جاتے ہیں، یوں ہی دن تمام کر کہ یہ لوگ شام کو نامراد لوٹ جاتے ہیں۔معصوم آنکھوں میں شاندار مسقبل کے سہانے خواب سجائے طالب علموں کے خوابوں کو ایک عرصہ ہوگیااپنی آنکھوں سے چور چور ہوتے دیکھ رہا ہوں۔

آپ اندازہ کر لیں، آپ کسی سکول کے طالب علم ہیں۔ پورا سال آپ نے کبھی سکول کا دروازہ کھلا نہیں پایا، آپ اپنے سکول میں متعین کسی استاد کو جانتے تک نہیں اور نہ ہی آپ کے استاد آپ کو جانتے ہیں۔پورا سال یوں ہی گزر جانے کے بعد یکدم اعلان ہو جاتا ہے کہ فلاں تاریخ کو امتحان شروع ہوگا۔پھر طلبہ کو بلایا جاتا ہے، سٹاف پہنچ جاتا ہے، طالب علموں سے پیسے اکھٹے کر کہ پارٹیوں کے مزے اڑائے جاتے ہوں، دعوتوں کے کا اہتمام کیا جاتا ہو ۔پھر آپ کو امتحانی حال میں بٹھا کر لمبا چوڑا پرچہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا جائے، آئن انسٹائن ، نیوٹن، مارکونی، الرازی، ابن الہیشم ، جابر بن حیان سے لیکر ارسطو، سقراط ، بقراط اور افلاطون تک کے نظریات کا ذکر ہو تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا۔؟ آپ اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کہ چپ چاپ خالی پرچہ واپس تھما کر خاموشی سے امتحانی حال سے باہر جائیں، دور کسی دیوار کے پیچھے جا کر اپنا سر دیوار پہ دے ماریں۔

یہ کوئی افسانوی باتیں نہیں سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ چار سال کالام ہایئر سیکنڈری سکول میں گزارے، ان چار سالوں میں امتحان کے دنوں کے علاوہ کبھی گیٹ کھلا نہیں دیکھا۔ امتحان کے دنوں میں جب گیٹ کھول کر اندر جاتے تو مرے ہوئے کتے اور بلیاں پڑی ہوتیں، تعفن کی وجہ سے الٹیاں آنے لگ جاتی، فرنیچر و دیگر آلات پر گرد و غبار کی موٹی تہہ جمی ہوتی۔دیواروں کی سفیدی تک سیاہی میں تبدیل ہو جاتی،ایسا محسوس ہوتا جیسے کچرا کنڈی میں گھس آئے ہیں۔یہ کالام کے مرکزی سکول کا حال ہے، جو کہ کالام بازار میں واقع ہے،۔ دور دراز کے دیگر سکولوں کا تو یہ حال ہے کہ وہاں لوگ اپنی بھیڑ بکریاں،گائیں اور بھینس وغیرہ باندھ کہ رکھتے ہیں۔اسطرح یہ سکول بیک وقت اصطبل، بھاڑہ اور گودام کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔جہاں لوگ اپنے گھر کے فالتو اور ناکارہ اشیاء لاکر رکھ دیتے ہیں۔جس کی تفصیل گزشتہ دنوں اخباروں میں تصاویر کے ساتھ میرے محترم دوست نے شایع کروائی تھی۔

ساری صورت حال پر نظر ڈالنے کے بعداگر ہم اس کے وجوہات اور پس منظر میں جھانکنے کی کوشش کریں، تو کئی باتیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، سب سے پہلے یہ کہ منتخب نمائندوں نے کبھی وادی کالام پر خصوصی کے بجائے عمومی توجہ دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔اس کے علاوہ مقامی عمائدین کی مجرمانہ خاموشی مسائل کو دگرگوں بنانے کا باعث بنی ہوئی ہے۔لیکن سب سے بڑا عنصر جو اس سارے مسئلے کی جڑ ہے وہ یہ ہے کہ ٹیچنگ اسٹاف میں مقامی افرادکو نظرانداز کر کہ زیادہ تر سوات کے دیگر علاقوں سے تعینات کیا جاتا ہے۔ جو کہ دور ہونے کا بہانہ بنا کراپنے فرائض منصبی سر انجام دینے میں غفلت برتتے ہیں۔دیکھا گیا کہ ایماندار اساتذہ جو اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی سے سرانجام دینا چاہتے ہیں، وہ لے دے کر واپس اپنے گھر کے آس پاس کہیں اپنا ٹرانسفر کروا لیتے ہیں۔ اس کے بر عکس دوسرا طبقہ یعنی وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ تنخواہ بھی ملے اور ڈیوٹی بھی نہ کرنی پڑے۔ وہ کالام کے سکولوں کو ہی ترجیح دیتے ہیں،کہ کون ہے پوچھنے والا۔آرام سے گھر بیٹھو تنخواہ تو ویسے بھی ملتی رہتی ہے۔ایسے کئی اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو کہ ہمارے وقت میں کالام ہایئرسیکنڈری سکول میں تعینات تھے، انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں پرائیویٹ سکولز اور اکیڈمیاں کھول رکھیں تھیں۔ان میں سے آج بھی شاید چند ایک کالام میں ہی تعینات ہیں، لیکن ڈیوٹی وہ اپنے پرائیویٹ سکولوں میں ہی سر انجام دیتے ہیں۔

آپ کو بتاتا چلوں کہ سیکنڈ ایئر کے امتحان کی تیاری کے سلسلے میں منگورہ شہر کے ایک مشہور کوچنگ اکیڈمی میں چلا گیا۔پہلے ہی دن تعارفی کلاس میں جب میں نے کہا کہ کالام سے تعلق ہے اور کالام ہایئر سیکنڈری سکول کا طالب علم ہوں تو ٹیچر نے کہا میں بھی ایک سال سے کالام میں تعینات ہوں۔، میں نے کہا سر ہم نے تو آپ کو کالام میں کبھی دیکھا ہی نہیں۔تو ان کا جواب کیا تھا یہ ہمارے پورے نظام کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ تھا۔ کہنے لگے کون پوچھنے والا ہے یار! گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی ہے تو مجھے کیا پاگل کتے نے کا ٹاہے کہ جاکر کالام میں ڈیوٹی کروں۔یہ سن کر میرا سر شرم سے جھک گیا کہ ایک فرد پورے نظام کا کیسے مذاق اڑارہا ہے، معصوموں کی زندگیوں سے کھیل کر کس درجہ فاخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے کو طاقتور اور نظام کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔(جاری ہے)

Noor Ul Huda Shaheen
About the Author: Noor Ul Huda Shaheen Read More Articles by Noor Ul Huda Shaheen: 6 Articles with 4381 views Meri Zindagi Ka Maqsad Tery Deen ki Sarfarazi
Mai Isi Leye Mujahid Mai Leye Namazi
.. View More