ملکی نظام تعلیم کو درپیش چیلنجز اور حکومت کی ذمہ داریاں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کرۂ ارض پرقائم وہ واحدمملکت ہے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آئی۔ 1857؁ کی جنگِ آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان تک تقریباً نوّے برس میں کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرا جب برصغیر پاک و ہند کے مسلمان رہنماؤں نے ایک ایسے جدا خطّۂ ارضی کے بارے میں نہ سوچا ہو جہاں مسلمان اپنی نشاۃِثانیہ کو جلا بخشنے کی کوشش کریں ہمارے اکابرین اور رہنماؤں کی اسی جان کا ہی نتیجہ نکلا اور 14اگست 1947 ؁ کو دنیا کے نقشے پر ایک عالمِ اسلام کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی ریاست پاکستان کے نام سے اُبھری۔ پاکستان ایک خاص نظریئےکی بنیاد پر بنایا گیا وہ نظریہ علامہ اقبال ؔ کے الفاظ میں یہ تھا کہ :
؎ اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحطاط
قوتِ مذہب سےمستحکم ہےجمعیت تیری

پاکستان حاصل کرنے کی جدوجہد کے پیچھے جو نعرہ کارفرما تھا وہ دنیا کی سب اقوام سے مختلف تھا یعنی پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الّا اللہ ……… گویا مسلمانانِ برصغیرایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی افکار اور نظریات کا اطلاق کیاجائے اور دنیا کے پردے پر موجود ہر قوم کو بتا دیا جائے کہ:
؎قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم جو نہیں محفلِ انجم بھی نہیں

دینی اقدار کے فروغ اور شرعی قوانین کے نفاذ کے لئےقائم کی جانے والی ریاست میں سب سے پہلی ضرورت ایک تحریری دستور کی تھی جس کی روشنی میں مملکت کا نظام چلایا جائے۔ 1949 ؁ میں قراردادِ مقاصد کی منظوری اس منزل کی طرف اُٹھنے والا پہلا قدم تھا۔ اس قرارداد میں واضح کردیا گیا تھا کہ طاقت اور اقتدار کا سر چشمہ اللہ تعالٰی ہے اور مملکت کے تمام قوانین اللہ کے نازل کردہ احکامات کی روشنی میں بنائے جائیں گے۔ حالات کا جبر، سیاسی عدمِ استحکام اور ایک خاص طبقے کی ذہنیت کی وجہ سے پاکستان 1956 ؁ تک سرزمین بےدستور رہا۔ اسی عرصہ میں تعلیمی نظام کی ترتیب کے لئے جو خاکے بنائے گئے ان مین لارڈمیکالے کا نظریہ کارفرما تھا یعنی نظامِ تعلیم ہر سطح پر طبقاتی رنگ لئے ہوئے تھا۔ یہ وہ بنیادی اینٹ تھی جس نے پاکستان میں قصرِتعلیم کی تعمیر کی ہر کوشش کو نظریۂ پاکستان اور بعد ازاں استحکامِ پاکستان سے ناکام بنا دیا۔ آج پاکستانی معاشرہ بکھر چکا ہے اور نوعِ انسانی ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی ہے اس کی صرف ایک وجہ ہے یعنی تعلیم کی اصل رُوح سے اغماض ………

تعلیم آزادی کا درس دیتی ہے انسان کو انسان کی غلامی سے نجات دلاتی ہے لیکن پاکستانی سماج میں حکومت کی زیرِنگرانی تعلیم کے نظام کی جُو درگت بن رہی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے اکابرین نے پاکستان میں نظام تعلیم کے لئے جو خاکہ سوچا تھا اس میں تعلیم کا نصب العین سب کے لئے اس طرح کیا گیا تھا کہ فلسفہ پاکستانی قوم کے دائیں ہاتھ پر اور نیچرل سائنس بائیں ہاتھ پر ہوگی اور سر پر کلمہ لا الٰہ الّا اللہ کا تاج ہوگا ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے اور ہر مرد و زن زیورِ علم سے آراستہ و پیراستہ ہوگا مگر 62 سال گزرجانے کے بعد ملکی نظامِ تعلیم مسائل اور مشکلات کے ہشت پا میں پھنس چُکا ، غریب اور امیر کا فرق تعلیمی خلیج کو وسیع تر کر رہاہے۔ بنیادی تعلیم دینا اور پرائمری سطح پر ہر بچے کو علم سے بہرہ مند کرنا حکومت کی ذمہ داری ہےمگر ایسا نہیں ہو رہاحکومت چلانے والے زیادہ تر افراد یا تو جاگیر دار طبقے سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر سرمایہ دارانہ طبقہ سے جڑے ہوئے ہیں وہ اس بنیادی ذمہ داری سے جان بوجھ کر پہلو تہی کر رہے ہیں کہ پرائمری سطح تک مفت تعلیم فراہم کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرکے اور کردار سازی کے عمل سے گزرکر انسان ذی شعور ہو جاتا ہےاور حکمرانوں کے قول و فعل پر گرفت کرتا ہےچونکہ ہمارے حکمرانوں کو با شعور اور ہوشمند شہریوں کی جگہ خچر اور کٹھ پتلیاں چاہیئے اس لئے طبقۂ اشرافیہ جو حکومت میں تسلّط جما چکا ہے عوام الناس تک بنیادی تعلیم نہیں پہنچا رہا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ براہِ راست اپنی نگرانی میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی حالت بہتر بنائے اور پرائمری کی سطح تک تعلیم کو مفت فراہم کرے اس کیلئے اخلاص اور دیانتداری پہلی شرط ہے۔

پاکستانی تعلیمی نظام میں دوسرا بڑا چیلنج یہ ہے کہ ایک طبقہ تعلیم کو نام نہاد لبرل ازم اور روشن خیالی کے زعم میں یکسر سیکولر بنانے میں جُتا ہوا ہےاور دُوسرا طبقہ اس کی مزاحمت میں انتہاپسندی کی بلندیوں تک پہنچ گیا ہے آئے دن دونوں مکتبۂ فکر کے درمیان تصادم پیدا ہورہا ہے اس کی وجہ سے ہمارا تعلیمی نظام درہم برہم ہو گیا ہےحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان مکتبۂ فکر کے درمیان توازن اور اعتدال پیدا کرے تاکہ علم کا نور پھیلے اور فضا آتش و آہن سے پاک ہو سکے۔

ملکی تعلیمی نظام میں تیسرا بڑا چیلنج بچّوں کا ترکِ مدرسہ کرنا ہے پاکستان مین اسکول چھوڑ دینے والے بچّوں کی شرح فیصد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس خطرناک رجحان کی وجہ یہ ہے کہ ماں باپ کی معاشی حالت ہر گزرتے دن دگرگوں ہو رہی ہے وہ بچّوں کے بنیادی کھانے پینے علاج معالجے کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتےاسی لئے وہ اپنے معصوم بچّوں کو اسکول سے اُٹھواکر روزمرّہ کام پر لگادیتے ہیںحکومت کا فرض ہے کہ وہ کم از کم پانچویں جماعت تک ہر بچّے کو مفت اور لازم تعلیم فراہم کرے اور مستحق بچّوں کو یونیفارم اور یومیہ جیب خرچ بھی دے۔

پاکستان میں تعلیم دینے کا بیڑا نجی شعبے نے بھی اٹھا یا ہے تاہم اس نے مجموعی طورپر تعلیم کو ایک صنعت اور ایک غیر معمولی منافع حاصل کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لُوٹ کھسُوٹ کرنے والے تعلیمی ادارے بند کرائے یا انہیں پابند کرے کہ وہ اندھادھند منافع خوری کی روش نہ اپنائیں۔

ملکی موجودہ نظامِ تعلیم تیزی سے طبقاتی تقسیم کو فروغ دے رہا ہے سرکاری، نجی اور پوش درجے کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف فاصلے بڑھ رہے ہیں بلکہ ان میں رائج نصاب سے قوم کا شیرازہ بکھر رہا ہے اعلیٰ معیار حاصل کرنے میں طبقۂ اشرافیہ کے تعلیمی ادارے میں ایسا غیر معمولی نصاب متعارف کرایاگیا ہے جو نہ صرف حددرجہ مہنگا ہے بلکہ عوام میں نظریاتی دُوریاں بھی پیدا کر رہا ہے جب تک حکومت پورے پاکستان میں یکساں نصابِ تعلیم رائج نہیں کرے گی قوم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوگی۔ اس قسم کے نصاب سے ثقافتی اور مذہبی اشکالات جنم لیتے ہیں اور عوام میں بُعد پیدا ہوتا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں پورے پاکستان اور بیرون ملک چلنے والے پاکستانی تعلیمی اداروں کے لئے یکساں اور عالمی معیار کا نصاب متعارف کرائے حکومت کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں اساتذہ کی تربیت کا بندوبست کرے جو اس نصاب کی تدریس کا فریضہ سر انجام دیں۔

پاکستان میں تعلیمی نظام میں ایک بڑی خرابی یہ بھی ہے کہ اس میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم کو وہ مقام نہیں دیا جارہا جو دنیا کی ضرورت بن چکا ہےاسی لئے پاکستان میں نہ تو سائنسدان پیدا ہورہے ہیں اور نہ ہی سائنسی تحقیق پر کام ہو رہا ہے اگر کوئی قابل یا ذہین طالبِعلم ریسرچ کرتا بھی ہے تو اس کی کما حقّہٗ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ چُن چُن کر سائنسی رجحانات کے حامل طلبہ پر کام کرے انہیں بھاری اسکالرشپ عطاکرکے عمدہ تربیت دے اور انہیں بڑے منصوبوں پر کام کرنے کے موقع فراہم کرے۔

پاکستان میں تعلیمی نظام کو ایک بھیانک چیلنج درپیش ہے اور وہ کردارسازی کا فقدان ……………ماضی میں تعلیم کا مقصد محض کتابیں رٹوادینا یا صرف و نحو کے قواعد ازبر کرادینا نہیں تھا بلکہ طالبِعلم کے اخلاق ، معاملات اور حُسن معاشرت کی اقدار کو بھی مہمیز کرنا تھا ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم ایسے افراد پیدا کررہاہے جو کمپیوٹر اورجدید مواصلات سے تو آگاہ ہیں مگر طرزتکلّم اور نشست وبرخاست کی بنیادی اخلاقی اقدار سے محروم ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی اور سرکاری ہردوسطح پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اوصافِ حمیدہ کی تعلیم اور تدریس کو اہمیت نہیں دیتا۔ حکومت کرنے والے خود ایسے ایسے اخلاقِ رذیلہ میں گرفتار ہیں کہ قلم اسکا احاطہ نہیں کرسکتا۔ جب تک حکومت اور نجی شعبہ دونوں باہم مل کر اخلاقی اقدار کو فروغ نہیں دیں گے موجودہ نظام کے آوے سے خمیدہ اور کجی کے مارےہوئے شہری ہی نکلیں گے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا پرقدغن لگائے کہ وہ اخلاق سوزمواد پیش نہ کرے اور نہ شائع کرے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کا بھی اوّلین فرض ہے کہ وہ طلبہ کیلئے رول ماڈل کےطورپر اچھے اخلاق و اطوار اپنائیں تاکہ نئی نسل بااخلاق اور اعلیٰ اقدار کی حامل ہو۔

ما حصل:
تعلیم ایک ارتقائی عمل ہےاس کے فوائد و ثمرات سمیٹنے کے لئے جگر سوزی کرنی پڑتی ہے ہمارا نظامِ تعلیم مادّیت کی اساس پر کھڑا ہے اسی لئے نجی سطح پر اور سرکاری سطح پر بھی شعبۂ تعلیم کو صرف پیسے بنانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان بزرگوں کی محنت اور بے شمار قربانیوں کا پھل ہے اگر اسے قائم و دائم رکھنا ہےتو اس کے تعلیمی نظام کو ہوسِ زر کی نحوست سے بچانا ہوگا۔اس وقت حکومت کی ترجیحات میں تعلیم کا چھٹا نمبر ہے اگر پاکستان میں تعلیم کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے تو اس کےترجیحی نمبر کواُوپر لانا ہوگااس کےلئے حکومت کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی پڑےگی اُسے شاہانہ اخراجات اور اسراف کا رجحان ترک کرنا پڑےگا بصُورتِ دیگرپاکستان مین تعلیم کا نظام مزید زوال اور انحطاط کا شکار ہو تارہےگا۔

Muneeb Ur Rehman
About the Author: Muneeb Ur Rehman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.