ہائے ہمارے امتحانی ہال

دنیا میں عام طور پر دو قسم کی تعلیم رائج ہیں،ایک بطور فن ہے ا ور دوسرا بطور علم ۔بطور فن وہ تعلیم ہے جس کی ترویج میں ہمارے عصری ادارے مصروف عمل ہیں اور یہ وہ ادارے ہیں جو طلباء کو معلومات فراہم کر کے صرف بطور فن ماہر بناتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اس زمانے کے عصری اداروں کے امتحانی ہالوں پر ،کہ وہاں نقل کرنے کا شرع بہت زیادہ ہو گیا ہے کیونکہ ابھی ابھی انٹرمیڈیٹ کے امتحانات گزر گئے تو آئیں اس پر ایک سرسری نظر دھوڑاتے ہیں ۔ایک عصری ادارے کے انٹر میڈیٹ کے طالب علم سے ملاقات ہوئی تو فوراً ہی میں نے امتحان کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے پیپرزکیسے جارہے ہیں توجوجواب ملاوہ قابل غورتھااس طورپرکہ اس نے کہاکہ ویسے بھی میں نے گائیڈسے مائیکروفوٹوسٹیٹ نکالے ہیں کیونکہ تیاری کی تو مجھے عادت ہی نہیں ہے کیونکہ سارا ہال نقل ہی نقل سے جوم رہا ہوتا ہے تو ایسے میں ذہین و قابل طلباء بھی نقل کے جال میں آجاتے ہیں، اور محنت کو چھوڑ جاتے ہیں ۔ ایک اور طالب علم سے ملاقات ہونے پر میں نے اس سے پوچھا کہ جب آپ امتحانی ہال سے نکلتے ہے تو ایک دوسرے سے کیا پوچھتے ہیں تو جواب ملا کہ جب ہم نکلتے ہیں تو پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے پاس فلاں فلاں سوال کے مائکرو فوٹوسٹیٹ تھے ۔ دیکھیے یہی ہمار ے عصری اداروں کا حال ہے پھر بات سے بات نکلنے لگی یہاں تک کہ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نقل کرنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا کہ اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہا ں دو قسم کے ادارے ہیں ایک سرکاری ادارے ہیں اور دوسرے پرائیوٹ،اور دونوں قسم کے اداریں اپنے طلباء کے اوقات کو ضائع کررہے ہیں کیونکہ پہلے تو صرف اتوار کی چھٹی تھی اب ہفتہ کی چھٹی پر بات ہوہی گئی اسکے علاوہ جلسے جلوسوں میں مصروف عمل ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ پرائیوٹ ادارہ میں تنخواہ کی کمی کی وجہ سے اساتذہ محنت نہیں کرتے اور سرکاری سکو لوں میں تنخواہ بھی زیادہ ہوتی ہے اور مراعات بھی حاصل ہوتے ہیں مگر وہاں پر جو اساتذہ ہوتے ہیں وہ کماحقہ اپنے فن میں اسی طرح ماہر نہیں ہوتے بلکہ وہ تو اپنے بچوں کو پرائیوٹ سکولوں میں داخل کراتے ہیں اساتذہ کے ماہر نہ ہونے کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ جب کسی کنڈیڈیٹ کو ووٹ دیتے ہیں تو اسی وقت سے اس کے ساتھ عہد و پیمان کر گزرتے ہیں کہ اگر میں کامیاب ہو گیا تو آپ کو فلا ں فلاں عہدے پر فائز کروں گا حالانکہ وہ اس عہدے کا اہل نہیں ہوتا لیکن اس کے ساتھ عہد ہوا ہوتا ہے تو اسی عہد کے وفاکی بنا پر اس کو اس عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے تو وہ وہاں پر طلباء کے وقت کو برف کی طرح پگھلا دیتا ہے اسی ہی طرح کاایک اور واقعہ مجھے یا د ہے کہ ہمارے استاد محترم نے فرمایا تھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک آدمی تھاکہ جو سرے سے سکو ل کے پیچھے بھی نہیں گزرا تھا اس کو بھی اسی طرح کنڈیڈیٹ نے عہد کی وفا کے بناء پر سکو ل میں استاد کردیا تو اس کاطریقہ کار یہ تھا کہ پہلے تو اس نے طلباء پر اپنا رعب جمایا جب اس کا رعب شیر کی طرح پورے سکول پر جم گیا تو پھر اس کے درس کا طریقہ یہ رہا کہ وہ کہا کرتا تھا کہ اس صفحے کو اچھی طرح یا د کرلو میں کل سنوں گا،پھر جب وہ کل کلاس میں آتا تھا تو طلباء تو پہلے ہی سے اس سے ڈرتے تھے تو خوب یاد کرتے تھے پھر اسی طر ح ایک ایک صفحہ کرکے دیتے تھے ،اس کے علاوہ تعلیمی نقصان کی ایک وجہ والدین بھی ہے کہ پہلے جب بچے کو سکول میں داخل کیا جاتا تھا تو اساتذہ سے کہا جاتاتھا کہ بس یہ آپ کے بچے ہیں آپ جانیں اور یہ ،آپ سے کوئی بھی اس کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ نہیں کرسکتا، لیکن آج کل جب اساتذہ بچے پر سکول میں آنکھ نکالتے ہیں تو والدین شکایتیں شروع کردیتے ہیں ، بہر حال ان تمام خرابیوں کی وجہ سے ہمارے عصری اداروں کے امتحانی ہالوں کا یہ حال ہوتا ہے کہ نقل کا عام چرچہ ہوتا ہے کیونکہ بعض ادارے تواپنے لیے امتحانی ہال خریدتے ہیں تو کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہوتا ،ہمارے تعلیمی اداروں کی تصحیح کے لیے پشاوری کے ذہن میں ایک یہ ترکیب ہے کہ پہلے تو ملک بھر کی امتحانات ایک ہوجائیں بجائے اس کے کہ ہر ہر ضلع میں الگ الگ بورڈ قائم ہو یا اگر ملک بھرمیں نہیں تو کم ازکم صوبہ بھر میں ایک بورڈ قائم کی جائے اور اس کے تحت پورے ملک یا صوبہ بھر کے عصری ادارے امتحانات دیتے رہیں اس طور پر کہ پورے ملک یا صوبہ بھر میں ایک ہی دن ایک ہی پرچہ ہوا کرے تو اس میں پرچوں کے آوٹنگ اور پرچے نکالنے کے خطرات بھی نہیں آئے گے ۔دوسرانظام تعلیم دینی ادارے یعنی مدارس عربیہ ہیں چونکہ مدارس میں جو علم دین کے حصول کے لیے آتا ہے تو وہ اخلاص وﷲیت کا جذبہ لیکر مدارس میں داخل ہوتے ہیں اور علم کے حصول وشغف میں دن رات ایک کرکے اپنی دینی پیا س بجھا تے ہیں تو جب امتحانات کا مرحلہ آتا ہے تو یہ طالب علم نقل کی بجائے اپنی محنت پر بھروسہ رکھتا ہے اور نقل کرنا اپنے خدا کے ساتھ غدر تصور کرتا ہے اس وجہ سے دینی مدارس میں نقل کا رجحان بہت کم ہوتاہے چونکہ مدارس کا تعلیمی بورڈ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا تعلیمی نصاب اور امتحانا ت کا ایک منظم ومرتب نظام موجود ہے جس کے تحت ملک بھر کے مد ارس امتحانات دیتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ ملک بھر کے وہ مدارس جو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں تو پورے ملک میں ایک ہی دن پر ایک ہی پرچہ ہوا کرتا ہے ،وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت چند کمیٹی ہو اکرتی ہیں اس میں سے ایک امتحانی کمیٹی ہوتی ہے جو امتحانا ت کے منظم ہونے کے لیے بروقت میٹنگز وغیرہ کرتے رہتے ہیں اس کے علاوہ جب امتحان کا وقت نزدیک آجا تا ہے تو پھر ہر سنٹر کے نگران اعلیٰ کو جمع کرکے ان کو سخت سے سخت ہدایا ت دی جاتیں ہیں جن کی بناء پر وہ اپنے عملہ کو کنٹرول رکھتے ہیں اس کے علاوہ صوبہ خیبر پختو نخواہ کے ایک ناظم امتحانات (مولانا حسین احمد صاحب ،جامعہ عثمانیہ پشاور ) مقرر ہیں جو کہ صوبہ بھر کے امتحانی سنٹر کے دورے کرتے ہیں ۔اس کے علاوہ مدارس میں نقل کا شرع اس وجہ سے بھی کم ہوتا ہے کہ مدارس میں شروع دن سے طلبہ کی ذہن سازی کی جاتی ہے کہ کل تم معاشرے کی دینی ضروریات پورے کرو گے اور تم کو معاشرہ سنوارنے کے لیے علم کی پختگی سے لابدی ہوگی لہٰذا طالب علم روز اول سے علم کے شوق وشغف میں ایڑی چوٹی کا زورلگاتا ہے اور حتی الوسع اپنے اسباق یا د کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کا براہ راست اثر امتحانا ت پر پڑجا تا ہے اور طلبہ نقل کرنے سے باز رہتے ہیں اگر اسی طرح کا جذبہ عصری اداروں میں بھی پیدا ہوگیا تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے عصری اداروں سے ایک مکمل تعلیم یافتہ اور با شخصیت افراد نکلے گے نقل جیسی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ایک مفید تجویز یہ بھی ہے کہ اساتذہ طلبہ کے ساتھ خوب محنت ولگن کے ساتھ سال کے دوران اسباق پڑھائے اور طلبہ کو محنت ومشقت کے ساتھ عادی بنائیں تاکہ امتحان کے دوران طلبہ کا پھر نقل کی طرف ذہن بھی نہ جائے کیونکہ یہ طلبہ مستقبل کے معمار ہیں اگر یہ آج امتحانی ہا لوں میں نقل کرنے کے ساتھ عادی ہو گئے تو کل یہ ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردا ر ادا نہیں کر سکتے ۔ ویسے بھی ملک کو بام عروج تک پہنچانے کے لیے نئی نسل کے کردار سے انکار ممکن نہیں ہمیشہ ملک کی خوشحالی میں نوجوانوں کا کردار رہا ہے ۔ تحریک پاکستان سے لے کر آج تک ملک کی تعمیر وترقی میں نوجوانوں کا فعال رول کسی ذی شعور انسان سے مخفی نہیں اگر آج ہم نئی نسل کو نقل جیسی لعنت سے چھٹکارہ نہ دے سکے تو کل اس وبال میں ہم برابر کے شریک ہوں گے ۔اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو ۔

Rizwan Peshawari
About the Author: Rizwan Peshawari Read More Articles by Rizwan Peshawari: 162 Articles with 190693 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.