گجرات ماڈل ترقی کا پیش خیمہ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ؟

ہندوستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ۔یہاں کی اکثریت غربت اور پس ماندگی کی شکار ہے ۔ گاؤں سے لے کر شہروں تک میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنہیں دووقت کا کھانا میسر نہیں ہوپاتا ہے۔یہ وہ شرمناک حقیقت ہے جس حقیقت کا اعتراف سبھی کو ہے اور ہندوستان کے تمام لیڈران اس کے لئے ذمہ دار ہیں ۔

2014 کے لوک سبھا الیکشن میں ہر پارٹی کے مینی فیسٹو میں یہ بات مشترک طور پر موجود ہے کہ وہ آنے والے پانچ سالوں میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیں گے جو کانگریس سے ساٹھ سالوں میں نہیں ہوسکا۔ نریندر مودی نے برق رفتاری کے ساتھ ہندوستان کو ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے گجرات ماڈل کے نفاذ کا خاکہ پیش کیا ہے۔ جس کی بنیاد پر ہندوستان کا نقشہ بدل جائے گا اور یورپ کی صفوں میں یہ بھی شامل ہو جائے گا۔ ان کے اس دعوی کا مطلب یہ ہے کہ گجرات ترقی یافتہ ہے جبکہ ہندوستان زوال پذیر ہے ۔ ملک پسماندہ ہے اور اس کا ایک حصہ ترقی پذیر ہے ۔کیا ایسا ممکن ہے؟ ملک کی ترقی کے بغیر صوبے کی ترقی کا تصور کیا جاسکتاہے؟ فرض کر لیجئے! گجرات ترقی یافتہ ہے تو کس چیز میں؟؟؟ تعلیم میں گجرات سب سے پیچھے ہے ۔اعلی تعلیم کا وہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ وہاں کے اسکولوں میں داخل نصاب کتابیں اغلاط سے بھری پڑی ہیں۔ملک کی مشہور یونیورسیٹیوں میں سے ایک بھی یونیورسٹی گجرات میں واقع نہیں ہے۔ سہولیات میں بھی گجرات کا بہت برا حال ہے ۔چار ہزار سے زائد بستیوں میں پینے کاصاف پانی میسر نہیں ہے۔ کئی ایک بستیاں بجلی سے محروم ہے۔ تجارت کی بات کی جائے تو اس میں کوئی خاص ترقی یا فتہ نہیں ہے۔ وہاں کی بہت بڑی تعداد ان لوگو ں کی ہے جودوسرے شہروں میں کام کرتے ہیں۔ گجرات کے لوگ ممبئی میں ملازمت اور تجارت کرتے ہیں وہاں کے بہت سے لوگ لندن اور دیگرممالک میں قیام پذیر ہیں۔ اگر گجرات ترقی یافتہ ہیتو پھر وہاں کی عوام اپنے شہر میں رہنے اور یہاں ملازمت اختیار کرنے کے بجائے دوسرے شہروں میں کیوں در درکی ٹھوکریں کھارہی ہیں؟

مودی کو یا تو یہ معلوم نہیں ہے کہ تر قی کیا ہوتی ہے؟ کن چیزوں کی فراہمی ملک کو ترقی یافتہ بناتی ہے؟ یا پھر وہ کھنڈرات کو محل تصور کرکے اسی کوکل کائنات سمجھ رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی ترقی کی حقیقت سے ناواقف ہیں کیوں کہ ان کا بچپن اسٹیشن پر چائے بیچنے میں گذرا ہے اور جب بڑے ہوئے ہیں تو سنگھی منصوبوں کو بروئے کارلانے میں الجھ کر رہ گئے ۔ انہیں کب موقع ملا ہے کسی ترقی یافتہ ملک کے سفر کرنے کا؟ وہاں کے حالات کا جائزہ لینے کا؟

جہاں تک بات ہے گجرات میں قائم چند بڑی کمپنیوں کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ساحل سمندر پر واقع ہے جس کی وجہ سے نقل و حمل کی آسانی ہوتی ہے اور یہ چیزیں گجرات میں شروع سے ہیں، نریندر مودی کا اس میں کوئی رول نہیں۔ پھر کیوں چاہتے ہیں وہ پورے ملک میں گجرات ماڈل کانفاذ ؟ کیا نوعیت ہے اس کی؟ کیا سازش ہے اس کے پس پردہ؟

نریندر مودی اول دن سے یہ شور مچارہے ہیں کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ گجرات ہے ۔ہندوستان کی ترقی کے لئے اس سے زیادہ کوئی بہتر نمونہ نہیں مل سکتا ہے ۔این ڈی اے کی حکومت بنی تو ملک کو ترقی کے بام عروج پر پہونچانے کے لئے یہی گجرات ہمارے لئے ماڈل ہو گا اور نمونہ ہوگا۔آخر کس چیز میں گجرات نمونہ بنے گا؟ اور کیا مطلب ہے ان کے یہ کہنے کا ؟کہ گجرات جبکہ تمام رپورٹیں یہ کہتی ہیں کہ گجرات ترقی فتہ صوبوں کی فہرست سے خارج ہے ۔پھر کیوں مودی پورے ملک میں گجرات ماڈل کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔نریندر مودی کے اس جملے کا اس کے علاوہ کوئی اور مطلب نہیں ہے کہ وہ پورے ملک میں ۲۰۰۲کی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں ۔ جس طرح وزیر اعلی بننے کے فورا بعد انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ صوبہ میں مسلم نسل کشی کا سیاہ کارنامہ انجام دیا ۔دس ہزار سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ہزاروں خواتین کی عفت و عصمت لوٹی گئی ۔ہر طرح ان پر ظلم وستم کا ننگا ناچ کیا گیا۔جبر و قہر کی وہ تاریخ رقم کی گئی کے وہاں کے مسلمان خوف و دہشت میں مبتلا ہوگئے ۔گجرات کا مسلمان مسلسل کرب و اذیت کی چکی میں پس رہا ہے ۔ ان کے ساتھ دوئم درجے کا شہر ی جیسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔یہی صورت حال وہ پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔گجرات کے مسلمان آزادانہ زندگی بسرکرنے سے محروم ہیں ۔میڈیاکے سامنے وہ بات کہنے میں ڈر اور خوف محسوس کرتے ہیں۔جس کی اہم مثال ملک کے مشہور کرکٹر عرفان پٹھان اور یوسف پٹھان کے والد کا بی بی سے بات کرنے سے انکارکردینا ہے ۔بات صاف ہے کہ ان کے سامنے دو آپشن تھا یا مودی کی تعریف کرنا یا پھر حق گوئی سے کام لیتے ہوئے وہا ں کی صحیح صورت کو ذکرکرنا۔اگروہ مودی حکومت کی صحیح صورت حال ذکرکرتے تو یقینی طورپر وہ ان کے عتاب سے بچ نہیں سکتے تھے۔یہ تنہا ان کی مثال نہیں ہے بلکہ پورے گجرات کی یہی صورت حال ہے وہاں کا ہر کوئی سیاست پہ بات کرنے سے گھبراتا ہے ،خوف و ڈر محسوس کرتا ہے ۔میڈیا میں آنے والی رپورٹیں بھی یہی بتاتی ہیں کہ عام مسلمان سیاست پہ بات کرنے سے احتراز کرتے ہیں ۔

یہ گجرات ماڈل کی حقیقت جسے نریندر مودی پورے ملک میں نافذ کرنا چاہتے ہیں تاکہ جس طرح گجرات میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری مانے جاتے ہیں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیاجاتا ہے، انہیں ڈرا دھمکا کر اوقات میں رکھا جاتا ہے اسی طرح اب وہ پورے ملک کے مسلمانوں کو دوسرے درجے کاشہری بنانا چاہتے ہیں۔انہیں اپنی اوقات میں رکھنا چاہتے ہیں۔جو لوگ نریند مودی کی حمایت کررہے ہیں ان کا بھی یہی مقصد ہے کہ صرف گجرات نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ یہی رویہ اپنایا جائے اور فرقہ پرستی کو پروان چڑھانے کے لئے یہ لوگ نریندر مودی کی حکومت چاہتے ہیں۔ملکی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود ان کے منصوبے میں نہ کل تھا اور نہ ہی آج ہے۔
Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 163867 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More