رَواں دَواں ہے قافلہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔رُکا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔بکا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی سے لے کر 14،اگست 1947ءتک علماءو مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال قربانیوں کا ثمر پاکستان دنیا کے نقشے پر دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر وجود میں آیا،اِس دوران اکابرین اہلسنّت نے،جماعت رضائے مصطفی، تحریک خلافت،تحریک ترک موالات،آل انڈیا سنی کانفرنس اور قیام پاکستان کی تحریک میں ہراوَل دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے اِس جدوجہد میں آل انڈیا مسلم لیگ کے شانہ بشانہ کام کیا، دیانت دار مورّخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک پاکستان کے سفر میں کوئی ایسا موڑ نہیں آیا،جہاں پر یہ حضرات علماءو مشائخ رہبری و رہنمائی کرنے کیلئے موجود نہ رے ہوں۔

قیام پاکستان کے بعد علما ءاہلسنّت نے پاکستان کو دو قومی نظریئے کے سانچے میں ڈھالنے کی توقعات پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ سے وابستہ رکھیں،انہیں یہ امید تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت تحریک پاکستان کے دوران کئے گئے اپنے وعدے کے مطابق نوزائیدہ مملکت میں اسلامی نظام نافذ کرے گی،لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے انتقال اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعداقتدار کی غلام گردشوں میں کھیلے جانے والے کھیل نے پاکستان کو اُس کے حقیقی نصب العین سے دور کردیا اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت اپنے وعدے سے منحرف ہوگئی،اِس دوران ایک ایساطبقہ بھی ا بھر کر سامنے آگیا،جس کے وابستگان نے تحریک پاکستان میں کہیں بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی تھی،بلکہ علی الاعلان تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں چھوڑا،لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ لوگ اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔

چنانچہ سنّی علماءنے مسلم لیگ اور جمعیت علماءاسلام کے درمیان بڑھتے ہوئے قریبی تعلق کو اِس وقت شدت سے محسوس کیا،جب جمعیت علماءاسلام کے صدر مولانا شبیر احمد عثمانی کو سی،اے ،پی Constituent Assembly of Pakistan کا ممبر منتخب کیاگیا،جو مسلم لیگ کے حلقے میں شیخ الاسلام کے نام سے جانے جاتے تھے،سرکاری توثیق کے بغیر اُن کی تقرری کو علماءاہلسنّت کیلئے نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا،اِس عمل نے سنّی علماءکو نئے سیاسی سیٹ اپ میں اپنے مقام کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے پر مائل کیااور 4،مارچ 1948ءکو مولانا سیّد احمد سعید کاظمی نے مولانا ابوالحسنات سیّد محمد احمد قادری کی توجہ ایک خط کے ذریعے دوسرے فرقوں کے اتحاد اورپاکستان میں اہلسنّت کی تقسیم کی طرف مبذول کراتے ہوئے لکھا،کہ”دنیا کے گوشے گوشے میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے،مگر ہم خواب غفلت میں مدہوش ہیں،اِس کے برعکس اغیار نے ہمیشہ موقع شناسی سے کام لیا،حالات کا گہری نظر سے جائزہ لیااور جو قدم اٹھایا بر محل اور مقتضائے حال کے مطابق اٹھایا،چنانچہ ِان کی مشہور شخصیتیں اور جماعتیں جو اب سے قریباً دو سال تک نظریہ پاکستان اور اِس کے قیام کی شدید ترین مخالفت کرتی رہیں۔ ۔ ۔ ۔جب انہیں قیام پاکستان کا یقین ہوچلاتو انہوں نے حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرلی اور کچھ ایسا رسوخ پیدا کیا کہ اُن کا ایک فرد ایک ہی جست میں منصب دستور سازی پر فائز ہوکر پاکستان کی اسمبلی پر چھا گیا۔

دوسری جانب یہ حقیقت ہے کہ ہم نے ہمیشہ مسلم لیگ کی حمایت کی اُس کا ساتھ دیااور قیام پاکستان کے سلسلہ میں اپنی تمام کوششیں صرف کردیں،جانی و مالی قربانی میں کوئی دریغ نہیں کیا اوراللہ کے کرم سے اپنے اور بیگانوں کی شدید مخالفتوں کے باوجود پاکستان قائم ہوگیا،مگر ہماری عدم تنظیم نے ہمیں یہ وقت دکھایاکہ آج اِس حکومت پاکستان میں جس کا قیام ہماری قربانیوں کا نتیجہ ہے،ہمیں کوئی امتیاز و وقار حاصل نہیں،نہ ہماری خدمات کا کوئی نتیجہ ہے،ہمارا مستقبل شدید خطرات میں گھرا ہے،مستقبل قریب میں جو طوفانی انقلاب رونما ہوتا نظر آرہا ہے،اُس کی تہہ میں ہمارے مخالفین کی طاغوتی طاقتیں ہمیں کچلنے اور حرف غلط کی طرح مٹادینے کے درپے نظر آتی ہیں،ہم اِس طرح غیر،منظم و منتشر رہے تو اِس کا انجام ظاہر ہے۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم عزت و وقار کے ساتھ رہنے اور اپنے صحیح مذہب و مسلک کی بقاء کے خواہش مند ہیں تو ہمیں فی الفور ایک مرکز پر ایسی وسیع اور مستحکم تنظیم کے ساتھ منظم ہونا پڑے گاکہ ہمارا ایک فرد بھی ہم سے جدا نہ رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ہم تو اہلسنّت کی تسبیح کے بکھرے ہوئے دانوں کو وسیع تنظیم کے مضبوط رشتے میں پرونا اور ایک امیر اہلسنّت کی قیادت میں منظم اور مجتمع کرکے یہ چاہتے ہیں کہ مملکت خداداد پاکستان کی ایسی صحیح دینی اور ملی خدمت کریں کہ وہ آئین شریعت کے مکمل نفاذ کے ساتھ صحیح معنوں میں اسلامی سلطنت بن جائے۔“

علامہ کاظمی کا مطمع نظر سنّی عوام کا اتحاد اور ایک امیر اہلسنّت کی قیادت میں پاکستان کو اسلامی مملکت بنانا تھا،انہوں نے علماءاہلسنّت کو وقت کے تقاضوں کا احساس دلایا تاکہ اِس نوزائیدہ مملکت کو اُس کی حقیقی منزل تک پہنچایا جاسکے،چنانچہ آپ کے تحرک پر27،28،اور29،مارچ 1948ء کو ملتان میں اہلسنّت و جماعت کی نمائندہ تنظیم” جمعیت علماء پاکستان“ کی بنیاد رکھی گئی،جس کے سب سے پہلے صدر غازی_¿ کشمیر علامہ ابو الحسنات سیّد محمد احمد قادری،ناظم اعلیٰ علامہ سیّد احمد سعید کاظمی،نائب ناظم اعلیٰ مولاناغلام محمدترنم اور ناظم اطلاعات مولانا محمد بخش مسلم قرا ر پائے،قیام پاکستان کے بعد ملک میں”جمعیت علماءپاکستان“ پہلی مذہبی سیاسی جماعت تھی جو قائم کی گئی،جمعیت کے ابتدائی منشور میں ”پاکستان کو اسلامی مملکت بنانے،معاشرے کو تمام معاشرتی و سماجی برائیوں سے پاک کرنے، مسلمانوں کے درمیان اسلامی طریقہ کارکو پھیلانے،انہیں عملی مسلمان بنانے،اُن کے درمیان روح جہاد بیدار کرنے،اُن کی توجہ مغربی تہذیب کے بجائے اسلامی تہذیب کی جانب مبذول کرانے،حکومت کی رہنمائی کیلئے سنّی علماءکو صوبائی اور قومی اسمبلی میں حق نمائندگی دینے،مساجد اور خانقاہوں کی اعانت،تعلیمی اداروں کی نصابی کتابوں کی نظر ثانی اور طلباءکیلئے تفسیر،حدیث،فقہ اور اسلامی تاریخ کو لازمی قرار دینے،مسلح افواج کو منظم کرکے اُن میں روح جہاد بیدار کرنے،پاکستان کی استحکام اور سلامتی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے،پاکستان اور مسلم امُہ اور اسلام کی سربلندی اور امن کے قیام کیلئے کام کرنے ،پاکستان بھر میں جمعیت علماءپاکستان کی شاخوں کا قیام اور سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب،وغیرہ شامل تھے،اُس وقت جمعیت علماءپاکستان کی رکنیت صرف سنّی علماء،خطیب اور مذہبی ذہن رکھنے والے افراد کیلئے مخصوص تھی۔

جمعیت علماءپاکستان نے مذہبی جماعت کی حیثیت سے ملک میں نظام مصطفٰی کے نفاذ اور مقام مصطفٰی کے تحفظ کیلئے اپنی جدوجہد کی ابتداءکی،جمعیت کے قیام سے قبل مہاجرین کی آباد کاری ایک بہت بڑا مسئلہ تھا،جمعیت علماء پاکستان نے آباد کاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اصل مقصد کو کبھی بھی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیا،یہ اعزاز بھی جمعیت کو جاتا ہے کہ اُس نے سب سے پہلے ملک میں نظام مصطفیاکے نفاذ کا مطالبہ کیا اور 7،مئی 1948ء کو یوم شریعت کے عنوان سے پورے ملک میں تحریک شروع کی،1948ء میں جمعیت علماءپاکستان نے جہاد کشمیر میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے مجاہدین کیلئے عملی تعاون اور مالی امداد فراہم کی،جمعیت علماء پاکستان نے 1949ء میں قرارداد مقاصد کی منظوری،1951ء میں علامہ عبد الحامد بدایونی کی قیادت میں مختلف مکاتب فکر کے علماءکرام کے ساتھ مل کربائیس(22)نکات کی تیاری ، 1953ءکی تحریک ختم نبوت اور 1956ء میں پاکستان کے آئین کی تدوین اور فقہ حنفی کو پبلک لاء بنانے کیلئے تاریخ ساز خدمات انجام دیں اوراِس جدوجہد کے دوران جمعیت علماءپاکستان کے رہنماؤں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرکے دارورسن کی روایت کو بھی رکھا۔

جمعیت کے پہلے صدرعلامہ ابوالحسنات سید محمداحمد قادری کے انتقال کے بعد جمعیت کئی نشیب و فراز سے گزری،بعض علماءو مشائخ نے عملی میدان میں کام کرنے کے بجائے اپنے خانقاہی نظام میں مصروف رہنا بہتر خیال کیا،جبکہ کچھ نے اپنے اپنے علیحدہ گروپ بنالیے،جن میں صاحبزادہ فیض الحسن،علامہ عبدالغفور ہزاروی،مولانا خلیل احمد قادری،مولانا سید محمود شاہ گجراتی اورعلامہ محمود احمد رضوی گروپ قابل ذکر ہیں،لیکن اِس مشکل دور میں بھی جمعیت علامہ عبدالحامد بدایونی کی قیادت میں انتخابی سیاست سے دور مذہبی و سماجی میدانوں میں مصروف عمل رہی،جمعیت کے اکابرین کا خیال تھا کہ بطور پاکستان کی خالق جماعت ہونے کے،مسلم لیگ کو ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کاکا م کرنا چاہیے،اس لیے انہوں نے سیاسی سطح پر کئی بار مسلم لیگ کے ہاتھ مضبوط کئے،لیکن ہرباراقتدار کی غلام گردشوں اور بھول بھلیوں میں کھو جانے والے حکمرانوں نے نفاذ اسلام کے خواب کو جب شرمندہ تعبیر نہ ہونے دیا،اس صورتحال میں جمعیت علماءپاکستان کا سیاسی میدان اترتا ایک منطقی عمل تھا،لیکن اس کیلئے ضرورت اِس امر کی تھی کہ پہلے تمام گروپوں کو متحد ومنظم کرکے ایک لڑی میں پرویا جائے،چنانچہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ ابوالبرکات سیّدمحمداحمد قادری جو اہلسنّت کو متحد و منظم دیکھنے کے خواہاں تھے،نے 4، اپریل 1970ءدارالعلوم حزب الاحناف لاہور میں تمام گروپوں کے رہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا۔

اس اجلاس میں تما م گروپوں کے رہنماؤں نے شرکت کی،جبکہ علامہ عبد الحامد بدایونی اپنی نجی مصروفیات کی وجہ سے اِس اہم اجلاس میں شریک نہ ہوسکے،مگر آپ نے حضرت مفتی اعظم پاکستان کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا اورساتھ ہی آپ نے اِس اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کو بھی تسلیم کرنے اظہار بھی کیا تھا،حضرت مفتی اعظم پاکستان کے حکم پر اِس اجلاس کی صدارت قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی نے کی، جید علماءو مشائخ کی موجودگی میں آپ نے اِس اہم و تاریخی اجلاس کی صدارت کی اور اِس حسن ِ خوبی سے اجلاس کی کاروائی چلائی کہ آپس میں ہزاروں اختلافات رکھنے والے رہنماؤں نے آپ کی ذات پر اظہار اعتماد کرتے ہوئے جمعیت علماءپاکستان کے تما م گروپوں کو توڑنے اور باہم مدغم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنی اپنی صدارت سے استعفیٰ دے کر ملک میں لادینیت اور کمیونسٹ نظام کے علمبرداروں کا راستہ روکنے کیلئے ایک مربوط و منظم حکمت عملی کا اعلان کیا۔

یوں جمعیت علماء پاکستان میں 13، جون 1970ء کو ہونے والے نئے انتخابات جس میں شیخ الاسلام حضرت خواجہ قمرالدین سیالوی صدر،علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی سینئر نائب صدر،پیرکرم شاہ صاحب الازھری نائب صدر اورعلامہ محمود احمد رضوی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اپنے دور نو کا آغاز کیا،جمعیت ایک نئے اور انقلابی روپ میں عوام کے سامنے آئی اور اُس نے دسمبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بھر پور حصہ لینے کا اعلان کرکے اِس عہد کا بھی اعادہ کیا کہ وہ اب ملک کی نظریاتی اساس کو تحفظ دینے کیلئے قومی سیاست میں براہ راست اپنا کردار ادا کرے گی۔مولانا شاہ احمد نورانی جمعیت علماءپاکستان کو عوامی اور جمہوری جدوجہد کی راہ پر ڈال دیا،خواجہ قمرالاسلام سیالوی صاحب کی تائیدوحمایت سے جمعیت کے نائب صدرمولانا نورانی نے جمعیت کو نئے خطوط پر منظم کرنا شروع کیااور جلد ہی آپ کی حکمت عملی اور پالیسیوں کی بدولت سیاسی میدان میں نووارد جمعیت علماء پاکستان دسمبر 1970ء کے عام انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کرکے ایک ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے بن کر سیاسی افق پر نمودار ہوئی۔

اس تاریخ ساز کامیابی کے کچھ عرصے بعد دسمبر 1972ء کو شیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی صاحب اپنی پیرانہ سالی اور علالت کی وجہ سے جمعیت کی صدارت سے مستعفی ہوگئے اور مئی 1973ء میں صدرات کا تاج مولانا نورانی کے سر پر سجادیا گیا، 1970ء کے الیکشن کے بعد جمعیت جو مولانا نورانی کی قیادت میں پنجاب(دیہی)اور سندھ(شہری) کی مدد سے یہ ایک اہم سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی،نے قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی میں آئین سازی کیلئے نہ صرف اہم خدمات انجام دیں بلکہ پاکستان کے دستور کو اسلامی بنانے میں بھی مرکزی کردار ادا کیا،جمعیت نے آئین میں مسلمان کی تعریف سے لے کر قادیانیوں کی غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہ چھوڑا،مولانا نورانی کی قیادت میں جمعیت نے ملکی سیاست میں” حصول اقتدار کے بغیر سیاست“ کی ایک نئی اور منفرد روش متعارف کروائی،آپ اصولوں کی خاطر وقت کے ہر جابر سلطان کے سامنے ڈٹ گئے اور علماءومشائخ کو مساجد وخانقاہوں سے نکال کر میدان عمل میں لاکھڑا کیا۔

لیکن ضیائی مارشل لاء نے جمعیت کو اُس وقت اندرونی اختلاف اور خلفشار سے دوچار کردیا جب جمعیت سے وابستہ کچھ علماءومشائخ (علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری،محمود احمد رضوی ،مفتی محمد حسین قادری،سید شاہ شاہ تراب الحق وغیرہ )اور تیسرے درجے کی قیادت( ظہور الحسن بھوپالی،حاجی حنیف طیب،حافظ تقی،عثمان خان نوری وغیرہ) مارشل لاءکی گود میں جابیٹھی،انتشاروافتراق کا یہ لمحہ جمعیت کیلئے بہت مشکل اور کٹھن تھا،لیکن مولانا عبدالستار خان نیازی،پروفیسر سید شاہ فرید الحق اور دیگر اکابرین نے جمعیت کو سرکاری تسخیری سے بچاتے ہوئے مولانا نورانی کا ساتھ دےکر اصولی سیاست کا سفر جاری رکھا۔
1990ءمیں یہ سفر اُس وقت ایک بار پھر باہمی اختلاف کا شکار ہوا،جب حلقہ 99کے ضمنی الیکشن کے موقع پر کچھ ناعاقبت اندیش لوگوں کی سازشوں نے جمعیت کے جنرل سیکرٹری مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی اور قائد جمعیت مولانا شاہ احمد نورانی کے درمیان دوریاں پیدا کردیں،مولانا نورانی کے بعد مجاہد ملت جمعیت کی سب سے جرا_ت مند،بااصول اور با وقار قیادت میں شامل تھے،اُن کی علیحدگی جمعیت علماءپاکستان کیلئے کسی دھچکے سے کم نہ تھی،مگران حالات میں بھی جمعیت نے اپنا سفر پوری استقامت کے ساتھ جاری رکھا اور یہی کوشش کی کہ مجاہد ملت جمعیت میں واپس میں آجائیں۔

بالآخر دس سال بعد اکتوبر 2000ءمیں یہ کوششیں اُس وقت بار آور ثابت ہوئیں جب مجاہد ملت جمعیت میں واپس آئے اور نئے سیٹ اپ میں جمعیت علماء پاکستان کے صدر بنے،اِس نئے سیٹ اپ میں سید امیر شاہ گیلانی سینئر نائب صدر،پروفیسر شاہ فرید الحق جنرل سیکرٹری جبکہ مولانا شاہ احمد نورانی چیئرمین سپریم کونسل تھے،مجاہد ملت کی واپسی کے بعد جمعیت ایک بار پھر نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنے مشن پر رواں دواں ہوگئی۔مگر2002ءمیں مجاہد ملت کی رحلت اور 2003ءمیں مولانا شاہ احمد نورانی کی جدائی سے قیادت کا بار گراں کچھ عرصے کیلئے پروفیسر سید شاہ فرید الحق صاحب کے بوڑھے کاندھوں پر منتقل ہوگیا،بعد میں یہ ذمہ داری صاحبزادہ شاہ انس نورانی صاحب کے حصے میں آئی،مگر2008ءکے الیکشن میں ناکامی کے بعد صاحبزادہ انس نورانی نے جمعیت کی صدارت سے استعفیٰ دیدیا،جس کے بعد ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیرفکر نورانی کے محافظ و امین بن کر سامنے آئے،اُن کی قائد ملت اسلامیہ کے ساتھ 30 سالہ رفاقت رہی اور اُن کا شمار مولاناشاہ احمد نورانی کے بااعتماد،جانثار اور وفادار ساتھیوں میں ہوتا ہے،صاحبزادہ زبیر نے اپنے دور صدارت میں جمعیت علماءپاکستان کو مولانا ابوالحسنات، علامہ کاظمی اور مولانا نورانی کے متعین کردہ خطوط پر گامزن کیا،متحرک وفعال رکھا اور عروج پر پہنچایا ۔

ابھی یہ سفر جاری ہی تھا کہ7، دسمبر 2013 ء کو کچھ احباب نے پیر اعجاز ہاشمی چیئرمین سپریم کونسل کی صدرات کی میں مجلس شوریٰ و عاملہ کا ایک ایسا غیر آئینی اور غیر دستوری اجلاس بلایا،جس کی صدرات جمعیت کے دستور کی روشنی میں صرف صدر جمعیت ہی کرسکتا ہے،یوں صدر جمعیت کو نظر انداز کرکے اس اجلاس کو منعقد کرنا اور اس میں مولانا نورانی کے وفادار ساتھیوں شبیر ابوطالب،قاضی احمد نورانی،سید عقیل انجم،مولانا بشیر القادری،یونس دانش اور طاہر رشید نتولی کو جمعیت سے خارج کرنے کا فیصلہ کرنا ایک بار پھر جمعیت علماء پاکستان میں نفاق کا سبب بنا،جمعیت کے صدر صاحبزادہ ابو الخیر محمد زبیر نے اس اجلاس اور اس میں کئے گئے فیصلوں کو غیر دستوری قرار دیا اور جمعیت کو متحد ومنظم رکھنے کی کوششیں جاری رکھیں،انہوں نے 22 دسمبرکو لاہور میں منعقدہ شوریٰ وعاملہ کے اجلاس میں ایک اعلیٰ مزاکراتی کمیٹی بھی تشکیل دی،جس کاکام قائدین سے ملاقات کرکے جماعتی امور پر اتفاق رائے پیدا کرنا تھا،مگر 7 دسمبر کے غیر دستوری اجلاس منعقد کرنے والوں نے صاحبزادہ صاحب کی اِن تمام کوششوں کو سبوثاژ کرتے ہوئے 28دسمبر کو لاہور میں ایک اور غیردستوری اجلاس منعقد کیا،جس میں جمعیت علماء پاکستان کی تمام صوبائی اور مرکزی تنظیموں کو توڑنے اور 16 فروری کو صوبائی جبکہ 2 مارچ کو مرکزی انتخابات کرانے کا نہ صرف غیرآئینی اعلان کیا ،بلکہ الیکڑونک اور پرنٹ میڈیا پر توہین آمیز بیانات بھی جاری کئے گئے۔

ظاہر ہے یہ صورتحال کسی طور بھی خوش آئند نہ تھی،مگراِس کے باوجود ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر نے مفاہمتی کوششیں جاری رکھی اور جمعیت کو انتشار سے بچانے کیلئے خود صاحبزادہ اویس نورانی سے ملنے اُن گھر تشریف لے گئے،اِس موقع پر پیر عبدالخالق بھرچونڈی شریف اور مفتی ابراہیم صاحب بھی موجود تھے،مگر صاحبزادہ زبیر کی یہ ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی اور باہمی مفاہمت کی تمام کوششیں ایک بار پھر ناکام ہو گئیں ہیں،چنانچہ 22 دسمبر کے شوریٰ وعاملہ کے اجلاس کے فیصلے کے مطابق جمعیت علماء پاکستان کے صوبائی اور مرکزی الیکشن منعقد ہوئے،جس میں ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر تیسری مرتبہ بلا مقابلہ جمعیت علماء پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے،اپنے انتخاب پر انہوں نے کہا کہ وہ مولانا شاہ احمد نورانی کی حیات میں اُن کے شانہ بشانہ رہے ہیں اور انہی سے سیاسی تربیت حاصل کی ہے،انہوں نے اِس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ وہ مشن نورانی سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور انہی کے نقش قدم پر چلیں گے۔

آج جمعیت علماءپاکستان ایک بار پھر اپنی نومنتخب قیادت کے زیر سرپرستی اکابرین اہلسنّت کے نقش قدم پر گامزن ہے،جبکہ دوسری جانب وہ لوگ ہیں جوجمعیت علماء پاکستان کو اپنی موروثی جاگیر سمجھتے ہیں اوراِس حقیقت کو بھول بیٹھے ہیں کہ جمعیت علماء پاکستان ایک ایسی سیاسی مذہبی جماعت ہے جس کی بنیاد علامہ سید احمد سعید کاظمی نے رکھی،جس کی آبیاری مولانا ابوالحسنات محمداحمد قادری،مولانا عبدالحامد بدایونی،خواجہ قمرالدین سیالوی،مولانا شاہ احمد نورانی،مجاہد ملت مولانا عبدالستار خان نیازی،مرد حق پروفیسر شاہ فرید الحق،حضرت علامہ مفتی جمیل احمد نعیمی اور دیگر علماءومشائخ اور اکابرین اہلسنّت نے کی،یہ ہمارے بزرگوں کا ایسا سرمایہ ہے،جس کے وارث صرف اور صرف عوام اہلسنّت ہیں۔قارئین محترم ! آج جمعیت علماء پاکستان اتحاد اہلسنّت کیلئے کوشاں ہے،اُس کی اِنہی کوششوں کا بدولت 6 مختلف الخیال دھڑے جمعیت علماء پاکستان میں شامل ہوچکے ہیں،2، مارچ کو جمعیت علماء پاکستان نے کراچی کے خالقدینا ھال میں فقیدالمثال نورانی ورکرز کنونشن کا انعقاد کرکے اپنے اُس سفر نو کا آغاز کردیا ہے،جس کی آخری منزل ملک میں نظام مصطفٰی کا نفاذ اور مقام مصطفٰی کا تحفظ ہوگی۔ (انشاءاللہ
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 310980 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More