نئی تعلیمی پالیسی، بلّی تھیلے سے باہر آگئی

بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اِک قطرہء خوں نہ نکلا
تعلیمی پالیسی ۲۰۰۹ منظرِ عام پر آگئی۔ گویا یوں کہیے کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی۔ سوچ رہے تھے کہ کوئی یکساں نظامِ تعلیم کا فارمولا سامنے آئے گا مگریہ سوچ اندھیرے میں روشنی کی کوئی مدھم سی لکیر کی طرح تھی جو بعض اوقات خیالات و تصورات کا ایک وہم ہوتا ہے۔ وہی ہوا کہ یہ مدھم سی لکیر شاید تصور ہی کا وہم تھا جسے امید کی کرن سمجھنے کی غلطی ہوگئی۔ بہت کوشش کی کہ اس پالیسی کے مندرجات سے خوش امیدی کا کوئی سندیسہ اخذ کیا جائے مگر ایسا کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس میں ہوسکتا ہے کہ ہماری کوتاہ فہمی کا ہی قصور ہو مگر ہم اہلِ علم و دانش، خِرد کی گتھیاں سلجھانے والوں اور بحرِ علم و فن کے شناوروں سے درخواست کریں گے کہ وہ ہی اس تھیلے سے بلّی کے علاوہ کچھ اور نکال کر دکھا دیں۔ چلیں دل کے خوش رکھنے کو کوئی اچھا خیال تو دل و دماغ کے کسی خانے میں موجود ہو جس سے کبھی کبھی اس کمبخت کے بہلانے کا کوئی سامان میسّر آ سکے۔ اگر اہلِ علم و دانش ایسا کرنے میں ناکام رہے تو جہاں اور بہت سے اندھیرے ہیں وہاں ہماری مایوسیوں کے قومی اندھیروں میں ایک کا اضافہ اور سہی۔

اب ذرا دیکھتے ہیں کہ اس تھیلے سے جو بلّی نکلی وہ کس نسل کی ہے؟ اس کے خدوخال اور حدود اربعہ کیا ہے؟ یہ بلی جنگل کی ہے یا شہر کی؟ دراصل اس تھیلے سے کئی بلّیاں نکلیں۔ ایک تو وہی بلّی ہے جو اس سے پہلے اعلان شدہ پالیسی کے تھیلے سے نکلی تھی۔ وہی بلّی اب نکلی ہے مگر اس بار یہ بہت صحت مند نظر آرہی ہے۔ لگتا ہے وزارتِ تعلیم میں اس کی صحت، خوراک اور ورزش پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ تمام الائشوں اور کثافتوں سے پاک خالص اور غیر ملکی دودھ اسے مذکورہ وزارت نے خوب پلایا ہے۔ کیونکہ یہی بلّی ہے جو اسلام آباد کے کرتوں دھرتوں کی خوشحالی اور حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ قارئین اسے کہیں سانپ کو دودھ پلانے کے مترادف نہ سمجھ لیں۔ بلی کو دودھ پلانا اور بات ہے سانپ کو دودھ پلانا ایک دوسری بات۔ تو یہ ہے جناب انگریزی لازمی کی بلّی۔ یاد آگیا ہوگا آپ کو۔ جس کا اعلان وزیروں اور مشیروں کی ایک فوجِ ظفر موج کی موجودگی میں وطنِ عزیز کے سابق وزیرِ اعظم اور حالیہ عدالت کو مطلوب شخص جناب شوکت عزیز نے ٹی وی پر کیا تھا۔ ہمارے ذہن میں یہ سوال اپنی عقل و فکر کے گھوڑے دوڑانے کے باوجود گردش کر رہا ہے کہ سابقہ پالیسی کے موقع پر کیے گیے اس اعلان اور موجودہ پالیسی کے موقع پر کیے گئے اس یکساں اعلان میں کیا فرق ہے؟ کیا بلی کی صحت اور ڈیل ڈول کا فرق ہے یا اس کے علاوہ کچھ اور؟ اہلِ حل و عقد اور اہلِ علم و دانش سے دست بستہ گزارش ہے کہ ان دونوں اعلانات میں ضرور خطِ امتیاز کھینچ کر ہمیں کچھ سمجھائیں۔ ورنہ بقولِ غالب ہم یہ سوچ سوچ کر خواہ مخواہ حیران ہوتے رہیں گے کہ
وائے دیوانگی شوق، کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا
اب ذرا اس بلی کے حدود اربعہ اور دائرہ کار کی بات کرتے ہیں۔ قومی تعلیمی پالیسی جیسا کہ نام سے ظاہر ہے پوری قوم کے لیے ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک طبقہ کے لیے پالیسی کچھ اور ہو اور دوسرے طبقہ کے لیے کچھ اور۔ سوال یہ ہے کہ کیا قوم کے اندر اس ملک کا طبقہ اشرافیہ شامل نہیں ہے؟ اس سوال کا صاف، سیدھا اور کھرا جواب یہ ہے کہ "نہیں" کیونکہ اگر یہ پالیسی قوم کے لیے ہوتی اور یہ طبقہ (جو حکمران ہے) اپنے آپ کو قوم میں شمار کرتا تو ایچی سن، بیکن ہاؤس، دی ایجوکیٹرز، برٹش و امریکن سکول سسٹم اور اس قبیل کے تمام تعلیمی اداروں میں انگریزی کے علاوہ باقی تمام مضامین اردو میں پڑھانے لازمی قرار پاتے۔ اگر حکمران طبقہ اپنے آپ کو قوم میں شمار کرتا ہے تو فی الفور چاروں صوبوں میں اپنی ہی اس اعلان کردہ پالیسی کے مطابق تمام سرکاری اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں اسے نافذ العمل ہو جانا چاہیے۔ اگر سرکار ایسا نہیں کرتی تو سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لے کر اسے چاروں صوبوں میں نافذ کرنے کا حکم جاری کرنا چاہیے۔ اس طرح چاروں صوبوں میں یکساں نظامِ تعلیم بھی رائج ہو جائے گا۔ رہی انگریزی لازمی کی بات تو یہ بھی ماہرینِ تعلیم کی وسیع تر مشاورت سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ تمام نفیساتی، تعلیمی، تدریسی اور ابلاغی اصول انگریزی پہلی جماعت سے لازمی قرار دینے کے مخالف ہیں۔ تمام ماہرینِ تعلیم بھی اس کے مخالف ہیں۔ یاد رہے کہ ہر پی ایچ ڈی اور ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والا ماہرِ تعلیم نہیں ہے۔ اس طرح پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ وزارتِ تعلیم کے پالیسی ساز افراد سے بس اتنا سوال پوچھ لے کہ کیا وہ قوم کا حصہ ہیں؟ اگر جواب نہ میں ہو تو انہیں قوم پر حقِ حکمرانی نہیں رہتا۔ اگر جواب ہاں میں ہو تو یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ صوبائی حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق یکساں نظامِ تعلیم کے نفاذ کو یقینی بنائیں۔ کیا حکمران طبقہ یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوگا کہ جو وہ قوم کے لیے چاہتے ہیں وہ اپنے لیے بھی چاہیں۔ ہرگز نہیں۔ اس اعلان کے تحت حکومتِ پنجاب کا حالیہ ظالمانہ فیصلہ بھی باطل قرار پاتا ہے جس میں اس نے بغیر زمین تیار کیے بیج بونے جیسا احمقانہ قدم اٹھایا ہے کہ پنجاب کے دس فیصد زنانہ اور پانچ فیصد مردانہ سکولوں میں پہلی دوسری اور چھٹی جماعت سے سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھانے کا اقدام کیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ قدم پالیسی بننے اور اس کا اعلان کرنے سے پہلے ہی اٹھا لینا اپنی ہی قومی تعلیمی پالیسی کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے۔ یہ ماورائے مشاورت، ماورائے آئین اور تمام تر اخلاقی و قانونی حدود کو پھلانگنے کے مترادف ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب حکومت کا دانش سکول سسٹم جو مکمل انگلش میڈیم ہے بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ اسے کسی پالیسی بننے سے پہلے روبہ عمل لانا یقیناً نیت کے فتور سے کم نہیں ہے۔ اب جبکہ نئی تعلیمی پالیسی آ گئی ہے اس کا وجود خود بخود بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر یہ چلے گا تو جھوٹ پر مبنی اشتہار بازی اور آئین و قانون کی خلاف ورزی اور جبر کے تمام ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر چلے گا۔ باون ارب روپے کا یہ منصوبہ فقط پیسے کے لالچ میں آکر شروع کیا گیا ہے۔ اس کا قومی دھارے کے تعلیمی نظام سے کوئی تعلق نہیں ورنہ اتنی خطیر رقم سے پہلے سے موجود سکولوں کی حالت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ہزاروں سکولوں میں پینے کا پانی اور بیٹھنے کے لیے کمرہ نہیں اور دوسری طرف اس طرح کے بنگلے نما سکول جو کہا جاتا ہے کہ غریبوں کے لیے ہوں گے۔ کیا حکومت ہر غریب کو اس طرح بنگلہ نما سکول دے سکے گی۔ جو آٹا اور چینی نہیں دے سکتے ان کے اس طرح کے دعوے کسی مجذوب اور دیوانے کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ یہ غیر ملکی امداد کا نشہ ہے جب ختم ہوگئی تو یہ بھی اتر جائے گا اور ساتھ ہی رہی سہی اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی جاتی رہے گی۔ ایسے ہی تو منصوبے ہیں جن کی نگرانی کے لیے امریکیوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دیے ہیں۔ ان سب منصوبوں کو چلانے والے دفاتر ایسٹ انڈیا کمپنیاں نہیں ہونگی تو اور کیا ہوگا؟ پھر قوم کو ایک دوسری جنگِ آزادی، ایک دوسرا غدر، ایک دوسری ہجرت کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔ اب تو ہم اس ہجرت کے قابل بھی نہیں ہوں گے۔ ایک طرف انڈیا مارے گا اور دوسری طرف افغانستان۔ پھر گاندھی کا وہی خواب سچا ہو جائے گا کہ جو متحدہ ہندوستان کا تھا ۔ دو قومی نظریہ کہیں گہری قبر میں دفن ہو جائے گا۔ اس لیے ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ پہلے پسینہ بہا لینا چاہیے تاکہ خون بہانے کی نوبت نہ آئے۔ ابھی سے سامراجی پنجوں کو جمنے سے روک دیں گے تو پوری قوم ایک بہت بڑی تباہی سے بچ جائے گی جو ان کو بعد میں نکالتے ہوئے ہو گی۔ اس لیے عزت، وقار، ترقی، خوشحالی۔ خود انحصاری، قوت، ملی وحدت صرف اور صرف اپنی قومی زبان کو ہی ذریعہ تعلیم بنانے، تمام علوم و فنون کے نصابات اسی کے سانچے میں ڈھالنے اور عملاً نافذ کرنے میں ہی مضمر ہے۔ یہ ایک آفاقی، بدیہی اور فطری حقیقت ہے۔ جوں جوں اس حقیقت سے رو گردانی کریں گے فطرت سے اپنا سر ٹکرا کر زخم زخم ہوتے چلے جائیں گے۔

تعلیمی پالیسی کے تھیلے سے نکلنے والی دوسری بلی کی ظاہری اور اندرونی شکل و صورت کو ہم جلدی سمجھ گئے گو کہ بہت سے لوگوں کو اس نے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہوگا۔ وہ یہ کہ تین سے پانچ سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم کا خصوصی بندوبست ہوگا۔ بات یہ ہے کہ پانچ سال کے اوپر والے بچے تو ماشاء اللہ سارے پڑھ لکھ گئے ہیں ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بڑے چھوٹے شہروں میں بڑے بڑے اور دیوہیکل بورڈ لگے ہوئے ہیں اور ان پر pre school لکھا ہوتا ہے۔ ایک غریب کی پوری زندگی کی آمدنی شاید ایک بورڈ کی قیمت کے برابر ہو۔ آپ نے پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے وزیرِ تعلیم کا یہ جملہ سنا ہوگا کہ اس سلسلے میں امداد دینے والے اداروں کو "آن بورڈ" لیا جائے گا۔ اسی جملے کو اگر میں اس طرح کہوں کہ " ان کو ہماری تعلیمی پالیسیوں میں مداخلت کی اجازت ہو گی" تو بات ایک ہی ہے۔ تو جناب ان سکولوں میں بچوں کو ہاتھی کی بجائے ، elephant ، منہ کی بجائے mouth اور انگلی کی بجائے finger بولنا سکھایا جائے گا۔ ان میں نوخیز بچوں کو یہ سکھایا جائے گا کہ اپنی زبان بولنا ذلیل، گھٹیا اور قبیح فعل ہے اور انگریزی بولنا عزت و وقار کا اور اعلیٰ و ارفعیٰ عمل ہے۔ کیونکہ اس عمر کے بچوں کو دی جانے والی یہ تربیت ہی بالاآخر ان کے کام آئے گی۔ لارڈ میکالے کا فلسفہ یہی تو تھا۔ اسی فلسفے کی پیروی کرتے ہوئے پنجاب کے شہر لاہور میں ڈائیریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ کے نام سے ادارہ ہے جو اساتذہ کو مختلف قسم کی تربیت دیتا ہے، نے ای ڈی اوز اور سربراہانِ اداروں کو ہدایات دی ہے کہ وہ اپنے سکولوں کے بورڈ بھی انگریزی میں لکھیں اور آپس میں اور طلباء و طالبات کے ساتھ انگریزی بولیں۔ مجھے بتائیے کہ ہماری قومی زبان کا ٹھکانہ کہاں ہے؟ پاکستان سے بے دخل کر کے اسے کہاں بھیجنا ہے؟ اب تو اس بلی کے اندرونی اور بیرونی خدوخال کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ کام ان کی چارپائی کے نیچے ہو رہا ہے جو نظریہ پاکستان کا زبانی کلامی پرچار کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہی اس یلغار کا سب سے بڑا ہدف نظر آتا ہے۔ کم از اس کے بارے میں اب کسی کو کسی قسم کی غلط فہمی یا شک میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ اس کا نظامِ تعلیم اس کے اپنے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔

اب آئیے تیسری بلی جو تعلیمی پالیسی کے اس تھیلے سے برآمد ہوئی کہ تمام پرائمری سکولوں کو مڈل اور ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری کا درجہ دے دیا جائے گا۔ اس میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ کالجوں میں انٹر کی کلاسوں کو ختم کر کے ہائر سیکنڈری سکولوں میں ہی بھیجا جائے گا۔ جب ہائر سیکنڈری سکیم شروع ہوئی تھی تو اس وقت بھی یہی منصوبہ تھا کہ انٹر سطح تک کی تعلیم صرف سکولوں میں ہی دی جائے گی مگر بیس سال کا عرصہ گزرنے کو ہے، ہائر سیکنڈری سکولوں اور کالجوں دونوں میں ہی انٹر سطح کی کلاسیں ہو رہی ہیں۔ اس دوہرے نظام کا یہ نتیجہ نکلا کہ کالجوں میں جانے کا رجحان بڑھا کیونکہ سکولوں کی نسبت وہاں آزادی زیادہ ہوتی ہے اور بہت سے سکول انٹر سطح کی کم تعداد کی وجہ سے ناکام ہوگئے۔ کئی ہائر سیکنڈری سکول بناتے ہوئے اس امر کو قطعاً نظر انداز کر دیا گیا کہ یہاں اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ ایک ہائر سیکنڈری سکول چار کلومیٹر کے فاصلے پر پہلے سے موجود ہے وہاں ایک دوسرا ہائر سیکنڈری سکول سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر قائم کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان میں سے ایک بری طرح ناکام ہوا۔ جیسے ٹبہ سلطان پور گرلز ہائر سیکنڈری سکول اور چار کلومیٹر پر واقع 261/WB میں بعد میں قائم شدہ گرلز ہائر سیکنڈری سکول (تحصیل میلسی ضلع وہاڑی پنجاب)۔ کچھ جگہوں پر تو ہائر سیکنڈری سکول اور انٹر کالج ایک ساتھ ایک ہی جگہ پر ملحقہ عمارتوں میں قائم ہیں۔ جیسے شجاع آباد میں۔ معلوم نہیں مستقبل میں ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا یا حسبِ سابق سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کی نذر ہو جائے گا۔ پالیسی کے اس حصے میں یہ خدشہ پوری شدّت کے ساتھ محسوس کیا جاتا ہے کہ پرائمری سکول تو مڈل بن گئے اور ہائی سکولوں کو ہائر سیکنڈری کا درجہ دے دیا گیا۔ نئے پرائمری یا مڈل سکول تعمیر کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ نئے سکول کھولنے اور چلانے کا کام "آن بورڈ" ایجنسیوں کو سونپ دیا جائے گا۔ وزیرِ تعلیم کو اس بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے کہ کیا ان کا ارادہ کہیں قومی دھارے کے نظامِ تعلیم کو مکمل طور پر جڑ سے کاٹ ڈالنے کا تو نہیں ہے؟

اس کے علاوہ تعلیمِ بالغاں کے پرانے پروگرامات اور غیر رسمی سکول کھولنے کا بھی ذکر کیا گیا جو یقیناً "آن بورڈ" ایجنسیوں کے تعاون سے ہی چلیں گے اور ان کی نگرانی کے لیے امریکہ اپنے عملے میں تین گنا تک اضافہ کرنا چاہتا ہے اور تمام تر انتظامات کے لیے سرتوڑ کوشش کررہا ہے۔ بس اتنا سا فسانہ ہے میرے وطن کی تعلیمی پالیسی کا۔
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.