رٹہ، ٹیوشن بزنس اور تعلیمی پالیسیاں

رٹہ در اصل نفسِ مضمون کے فہم نہ حاصل ہونے پر لگایا جاتا ہے۔ جس عبارت کے الفاظ، فقرے اور ان میں چھپے ہوئے تصورات سمجھ نہ آئیں تو انہیں ذہن نشیں کرنے کے لیے طالب علم رٹے کے عذاب سے گزرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ رٹے کے ذریعے کوئی چیز محض وقتی طور پر ہی ذہن نشین ہوتی ہے۔ چند گھنٹے گزرنے کے بعد رٹے کے ذریعے یاد کی ہوئی چیز انسان کی یاد داشت سے محو ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ رٹہ طالب علم میں تعلیم سے بیزاری پیدا کرتا ہے۔ رٹہ لگاتے ہوئے انسان کے اعصاب تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کیفیت سے رٹے باز کو بار بار گزرنا پڑتا ہے کیونکہ رٹہ لگائی گئی چیز کو زیادہ دیر تک ذہن نشین کرنے کے لیے بار بار اس اعصاب شکن مرحلے سے واسطہ پڑتا ہے۔ مسلسل ذہنی تناؤ رٹے باز کو جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔ مزاج میں چڑ چڑا پن پیدا ہوتا ہے جو اس کی شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس طرح بیماریوں کو ان کی علامات کے ذریعے پہچانا جا سکتا ہے اسی طرح رٹے کی بیماری کی بھی مختلف علامات، وجوہات اور محرکات ہیں جن سے ہم اپنے معاشرے، تعلیمی ادارے اور گھر کی حالت کا درست نقشہ دیکھ سکتے ہیں۔ رٹے کی ہمارے ماحول میں بڑی واضح بلکہ اظہر من الشمس متعدد مثالیں بکھری پڑی ہیں۔ مثلاً گلی محلوں میں کھمبیوں کی طرح اگنے والی اکیڈمیاں اور ٹیوشن سنٹرز رٹے بازی اور مضامین کے عدم فہم کی منہ بولتی تصاویر پیش کرتے ہیں۔ یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ یہ کوئی فیشن نہیں بلکہ ضرورت ہے جو تعلیمی ادارے میں استاد کے پڑھانے کے باوجود شدّت سے محسوس کی جاتی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ٹیوشن پڑھ کر بھی یہ ضرورت پوری نہیں ہوتی۔ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ یہ وباء امریکہ، برطانیہ، چین، جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کیوں نہیں ہے؟ ہم ہی اس مہلک اور تباہ کن مرض کا کیوں شکار ہیں؟ اگر سطحی ذہن کے ساتھ بات کی جائے تو فوراً استاد کی شخصیت ہدفِ تنقید بنتی ہے۔ کئی لوگ جھٹ سے استاد کو موردِ الزام ٹھہرا کر اصل حقیقت سے پہلوتہی کر جاتے ہیں۔ ایسا کرنے والے بیشتر افراد سطحی اور عامیانہ طرزِ فکر کے مالک ہوتے ہیں۔ کسی بھی بیماری کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اس کے اسباب و عوامل کا درست تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ آئیے اس بیماری کی جڑیں تلاش کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اصل اسباب و عوامل کیا ہیں جن کی وجہ سے پوری قوم کو رٹے کی اعصاب شکن چکی میں پسنا پڑ رہا ہے۔ تجزیہ ایک سوال سے شروع کرتے ہیں کہ رٹہ کن مضامین میں زیادہ لگایا جاتا ہے؟ اس کا جواب بھی روزِ روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں رٹہ بحثیتِ مضمون اور وہ مضامین جو انگریزی میں پڑھائے جاتے ہیں، ان میں بطورِ خاص لگایا جاتا ہے۔ پہلی جماعت سے ایم اے ایم ایس سی تک طلباء و طالبات کے امتحانی نتائج کا جائزہ لے لیجئے۔ ہر سطح پر سب سے زیادہ فیل ہونے والوں کی تعداد انگریزی میں ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اردو میں طلباء و طالبات کم و بیش اٹھانوے فیصد تک پاس ہو جاتے ہیں۔ اردو میں ٹیوشن پڑھنے والے طلباء و طالبات خال خال ہی آپ کو ملیں گے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ عربی اور فارسی جیسے مضامین میں بھی طلباء و طالبات اسی تناسب سے کامیاب ہوتے ہیں اور بڑے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ یہاں پر اس سوال کا جواب بڑی آسانی سے مل جاتا ہے کہ ٹیوشن اس لیے پڑھنا پڑتی ہے یا رٹہ اس لیے لگایا جاتا ہے کہ ہمارا ذریعہ تعلیم ہماری اپنی قومی زبان کے بجائے انگریزی میں ہے۔ اردو کا مضمون کلاس میں سمجھ آ جاتا ہے، اسلامیات کا مضمون طلباء و طالبات کو خود بخود سمجھ آ جاتا ہے اور وہ مضامین جو اردو میں پڑھائے جاتے ہیں ان کی بھی کمرہ جماعت میں سمجھ آ جاتی ہے اور رٹے اور ٹیوشن کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اساتذہ دونوں ہی ذریعہ تعلیم کے ساتھ پڑھاتے ہیں مگر انگریزی ذریعہ تعلیم رکھنے والے مضامین فہمِ مضمون کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ ان میں زیادہ محنت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ذرا دماغ پر زور دے کر گہری نظر سے مسئلے کی سنگینی کا جائزہ لیجئے۔ اگر امریکہ میں پہلی جماعت سے اردو، عربی ، یا کوئی غیر ملکی زبان لازمی قرار دے دی جاتی تو وہاں بھی ٹیوشن بزنس، رٹے بازی اور دیگر امراض ہماری طرح پیدا ہو جاتیں مگر انہوں نے سب سے پہلا کام ہی یہی کیا کہ ہر سطح کے تمام مضامین کے نصابات اپنی ہی زبان میں وضع کیے اورانہیں اپنے تمام تر تعلیمی اداروں میں نافذالعمل کیا ۔ اس وقت امریلہ، برطانیہ، جاپان، چین، فرانس، روس الغرض دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک میں کسی طبقاتی تفریق کے بغیر ہر تعلیمی ادارے میں یکساں نظامِ تعلیم رائج ہے۔ اشرافیہ، جرنیلیہ، متوسط اور غریب طبقے کے لیے ایک جیسا ہی ذریعہ تعلیم ہے۔ تمام طبقات کے لیے یکساں نظامِ تعلیم ہے جس کا مرکز و محور ان ممالک کی اپنی قومیں زبانیں ہیں۔ اس لیے وہاں ٹیوشن بزنس ، رٹے بازی اور دیگر تعلیمی لعنتیں موجود نہیں ہیں۔ وہاں کے طلباء و طالبات آسانی سے اور فطری طریقوں سے مضامین کا فہم حاصل کرتے ہیں۔ کوئی منہ ٹیڑھا کر کے کسی دوسرے ملک کی زبان بولتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کلاس روم سے پارلیمنٹ تک کے تمام امور ان کی اپنی قومیں زبانوں میں نمٹائے جاتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں وہ شخص زبردستی پڑھا لکھا منوا لیتا ہے جو چند الفاظ انگریزی کے بول کر دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دراصل رٹے بازی اور ٹیوشن بزنس ہمارے فطرت گریز نظامِ تعلیم کی دین ہے۔ جس طرح کوئی شخص اگر غیر فطری طریقوں کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو بیمار پڑ جاتا ہے۔ خراب آب و ہوا، آلودہ پانی، غیر متوازن خوراک کھاتا ہے اور اپنی خواہشات کو غیر فطری طریقوں سے پورا کرتا ہے تو یقیناً اس کے فطرت گریز طرزِ زندگی کے منفی اثرات اسے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمارے غیر متوازن، غیر ہموار اور غیر فطری نظامِ تعلیم کے حاصلات میں سے سب سے بڑا حاصل رٹہ اور ٹیوشن بزنس ہے جس نے پورے ملک کے نظامِ تعلیم سے علوم و فنون کا فہم سلب کر رکھا ہے۔ طلباء و طالبات کمرہ جماعت میں ملنے والی خوشی اور اطمینان سے تہی دامن ہیں۔ وہ خوشی جو مضامین کے فہم سے حاصل ہوتی ہے وہ ہمارے دل و دماغ پر خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے۔ ہمارے انگریزی ذریعہ تعلیم نے پوری قوم سے یہ خوشی چھین رکھی ہے اور اسے بحثیتِ قوم ذہنی کرب اور خلیاتی تناؤ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ خوشی اور راحت رٹے بازی کی لاحاصل محنت، جاں گسل مشقّت اور اعصاب شکن تھکاوٹ میں کہیں کھو جاتی ہے اور ملک و قوم کا بہت بڑا سرمایہ ٹیوشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ غریب آدمی کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنے پیٹ میں گرہ دینا پڑتی ہے۔ چپڑی روٹی کی جگہ سوکھی روٹی نگلنا پڑتی ہے۔ اپنی روزمرّہ کی ضروریات کو اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات پر قربان کرنا پڑتا ہے۔ اپنی بیماری کا علاج کروانے کی بجائے اپنے بچوں کو ٹیوشن سنٹر یا اکیڈمی بھیجنا پڑتا ہے۔ راقم الحروف ایسے متعدد طلباء کو جانتا ہے جن کی مائیں چند متموّل لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں، محنت مزدوری اور برتن مانجھنے پر جو پیسے ملتے ہیں وہ اپنے بچوں کو ٹیوشن کے لیے دے دیتی ہیں۔ ایک ہزار روپیہ فی ماہ غریبوں میں تقسیم کر کے ان کو مستقل بھکاری بننے کی تربیت فراہم کرنے والے حکمران ان کے حصولِ تعلیم میں آسانی پیدا کرنے کی تراکیب نہیں سوچتے بلکہ ان کے مصائب کو مزید بڑھانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔

عجیب بات ہے کہ ہر سال مختلف وفود ملک و قوم کا کثیر سرمایہ خرچ کر کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے نظامِ تعلیم کا جائزہ لینے کے لیے بیرونِ ملک بھیجے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ بھی تو مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ تعلیم کی صورتِ حال دن بدن دگرگوں ہوتی چلی جاتی ہے۔ در حقیقت یہ تمام دورے شرکائے دورہ جات کو ذہنی غسل (brain wash) کے لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ سامراجی مقاصد پورا کرنے کے لیے بہت سے لوگ ان کو میسّر آ سکیں جو سامراجی وظیفہ خواری کے عوض ملک کے نظامِ تعلیم کو مزید انارکی کا شکار کر سکیں۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ تمام تر بیرونی امداد، قرضے اور بیساکھیوں کو خیر باد کہ کر خالصتاً اپنے وسائل بروئے کار لا کر ہمیں تعلیم و تحقیق کی پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے تعلیمی نظام کو تعلیم و تدریس کے فطری اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور نسلِ نو کے لیے قابلِ فہم بنایا جا سکے۔ پہلی جماعت سے ایم ایس سی تک فقط رٹہ ہی لگایا جاتا ہے۔ اتنا بڑا تعلیمی بحران ہے جو وطنِ عزیز کو درپیش ہے مگر عالمِ بے حسی ہے کہ اپنی حدوں کو چھو رہا ہے۔ اس بے حسی اور لاچارگی کے ماحول میں مستقبل کا تعلیمی منظر نامہ بڑا ہی بھیانک ہے اور اپنے نتائج کے اعتبار سے اتنا خطرناک ہے کہ ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگ رہی ہے۔ اگر اس نظامِ تعلیم کی جڑوں کو لگے ہوئے دیمک کا اب بھی درست علاج نہ کیا گیا تو فطرت ہمیں نشانِ عبرت بنائے بغیر نہیں چھوڑے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اسے ایسے حکمران عطا کرے جو ملک و قوم کے ساتھ مخلص ہوں اور اس کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر مقدّم رکھتے ہوں۔

جاتے جاتے آپ کی توجہ کے لیے عرض ہے کہ امسال بی۔اے، بی ایس سی کے امتحان میں بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ۳۷۰۰۰ طلباء و طالبات نے شرکت کی جن میں سے ۲۴۰۰۰ فیل ہوئے اور کم و بیش سب ہی انگریزی میں فیل ہوئے۔ بات چمکتے ہوئے سورج کی طرح واضح ہے کہ ہماری تعلیم میں سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی کی لازمی حیثیت ہے۔ اگر اسے اختیاری کر دیا جائے تو قوم بہت جلد پڑھ لکھ جائے اور کثیر سرمایہ جو فقط ایک مضمون کھائے جا رہا ہے وہ ملک کے بجٹ سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں غربت کا سب سے بڑا سبب اس کا غلط بنیادوں پر قائم نظامِ تعلیم ہے۔ اساتذہ، طلباء اور دوسروں شعبوں کے افراد کو مل کر انگریزی کی لازمی حیثیت کا دائرہ پھیلنے سے روکنا چاہیے اور اس کی جگہ قومی زبان کے احیاء اور فروغ کے لیے جہادی روح کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہیے
Ishtiaq Ahmed
About the Author: Ishtiaq Ahmed Read More Articles by Ishtiaq Ahmed: 52 Articles with 168548 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.