رودادِ زوالِ تعلیم

بسمِ اللہِ الرّحمٰنِ الرحیم

حقیقت یہ ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان کے اساتذہ، طلباء اور ان کے والدین حکومتِ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں سے سخت پریشان اور نالاں ہیں۔ گزشتہ عشرے میں رونما ہونے والی نظامِ تعلیم میں تبدیلیوں نے ملک و قوم کی تعلیمی، تہذیبی اور نظریاتی سرحدوں کو بُری طرح پامال کیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز انتہائی سُرعت کے ساتھ جاری ہے۔ نظامِ تعلیم کے پورے ڈھانچے میں بے چینی، بے یقینی اور گھٹن کی فضا ہے۔ ان ناکام، ناقابلِ عمل اور علم و تہذیب کی قاتل تعلیمی پالیسیوں کے خلاف ایک لاوا سا پکتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان خفیہ طریقے سے روبہ عمل لائی جانے والی اور بالائے مشاورت نافذ کی جانے والی تعلیمی پالیسیوں کو ختم کر کے اپنی تہذیب و ثقافت اور قومی زبان کی مرکزیت میں تعلیمی پالیسیاں وضع کرنے کی خواہش ہر دل میں ارمان بن کر مچل رہی ہے۔ ایسی پالیسیاں جو نسلِ نو کی اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ علوم و فنون کے بہترین فہم و ابلاغ کی بھی ضامن ہوں۔ جن کے ذریعے طبقہ اشرافیہ کی بجائے غریب اور متوسط افراد کے مفادات کا تحفظ ممکن ہو سکے۔ گزشتہ اور موجودہ ناکام اور علم و تہذیب کی بیخ کنی کرنے والی تعلیمی پالیسیوں کی فہرست درج ذیل ہے۔

1. نو فیل نو پاس والی ناکام پالیسی نےکئی سال تک اساتذہ، طلباء اور معاشرے کے ہر فرد کو بُری طرح متاثر کیا۔ یہ تعلیم کُش پالیسی کون نہیں جانتا کہ بُری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی۔ اس پالیسی کی ڈسی ہوئی نسل آج بھی مختلف اداروں میں داخلے کے لیے ڈگریاں تھامے دربدر خوار ہو رہی ہے۔ یہ ناکامی اس بات کی غماز تھی کہ اس کے خالقین کا تعلیم و تعلم سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ بجائے اس کے کہ ان افراد کو جنہوں نے ایک بہت بڑا تعلیمی بحران پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ وقت اور قومی دولت کا بھی ضیاع کیا، سزا دی جاتی، ہنوز تعلیمی نظام کے ساتھ کھلواڑ کی اجازت سرکاری چھتری کے نیچے ملی ہوئی ہے۔ حکومتِ پنجاب کی یہ پالیسی کروڑوں بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیل گئی۔ بات واضح ہے کہ پالیسی تشکیل دیتے وقت زمینی، جغرافیائی، تہذیبی اور معاشرتی حقائق کو پسِ پُشت ڈالا گیا۔

2. نصابِ تعلیم سے قرآنی آیات کا اخراج کیا گیا اور "قرآنی آیات کا سائنس سے کیا تعلّق" جیسی ہرزہ سرائیاں ملک کے سابق وزیرِ تعلیم کی طرف سے کی جاتی رہیں جنہیں عوام النّاس کے پر زور احتجاج پر دوبارہ شاملِ نصاب کیا گیا۔ غیروں کی ایماء پر ایسی حرکات کا ارتکاب کرنے والے آج بھی سرکاری مشینری کا حصہ ہیں۔

3. انگریزی پہلی جماعت سے شروع کر کے حصولِ تعلیم میں مشکل، ٹیوشن بزنس میں اضافہ(بچہ بچہ اکیڈمیوں اور ٹیوشن سنٹروں کے چکر لگا رہا ہے)، سکول سے بھاگنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ، رٹے بازی میں اضافہ، بچوں کی ذہنی سطح سے کہیں بلند انگریزی کا نصاب جو نہ بچے پڑھ سکیں اور نہ استاد پڑھا سکے، انگریزی لازمی کو جن ہنگامی بنیادوں پر نافذ العمل کیا گیا اس پر نصاب سازی اور تعلیم و تدریس کے تمام اصول شرم سے اپنا منہ چھپا رہے ہیں۔ ساٹھ فیصد سے زائد سکولوں میں انگریزی پڑھانے کا سرے سے ہی کوئی انتظام نہیں تھا وہاں بھی انگریزی فی الفور نافذ کر دی گئی۔ ظلم یہ کہ جو بچہ چہارم تک بغیر انگریزی کے پاس ہوا تھا اسے بھی پانچویں کا امتحان انگریزی کے ساتھ دینا پڑا اور جس نے پانچویں کا امتحان بغیر انگریزی کے پاس کیا تھا اسے براہِ راست چھٹی جماعت کی انگریزی پڑھنے کے لیے دے دی گئی۔ اس طرح ان کے فہم و ابلاغ کے آگے انگریزی لازمی کا وہ کوہِ گراں ڈال دیا گیا جو بچوں کی تمام تر توانائیاں چاٹ رہا ہے۔ ایک طرف انگریزی کا بوجھ اتنا ہے کہ باقی تمام مضامین مل کر بھی اس کے برابر نہیں بنتا۔ اگر انگریزی پہلی جماعت سے ختم کر کے تمام مضامین فطری ماحول میں قومی زبان اردو میں پڑھائے جائیں اور بڑی کلاسوں میں بھی انگریزی کو لازمی کی بجائے اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جائے تو ملک کا بچہ بچہ تعلیم یافتہ بن جائے گا۔ ملک کا ذریعہ تعلیم صرف قومی زبان اردو میں ہو تاکہ حصولِ تعلیم کا عمل آسان ہو اور ہر امیر غریب کی اس تک رسائی آسان ہو۔ آئینِ پاکستان کا بھی یہی تقاضا ہے۔

4. پہلی سے میٹرک تک کا سائنسی نصاب اس قدر غیر فطری، زبان و بیان کے ضابطوں سے آزاد، رٹے کو فروغ دینے والا، اتنا حماقت خیز کہ نہ استاد پڑھا سکے اور نہ طالب علم رٹے کے بغیر ذہن نشیں کر سکے اور نہ ہی اپنے الفاظ میں اپنا ما فی الضمیر بیان کر سکے۔ نظامِ ہضم کی جگہ انگریزی کا لفظ اردو رسمُ الخط میں ڈائیجیسٹو سسٹم، نظامِ اخراج کی جگہ ایکسکریٹری سسٹم ، نظامِ دورانِ خون کی جگہ سرکولیٹری سسٹم، آئینے کی جگہ مرر اور اس طرح ہزاروں آسان فہم اصطلاحات جو قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہمارے فہم و ابلاغ کا حصہ بن چکی تھیں، بیک جنبشِ قلم سائنسی نصاب سے نکال باہر کی گئیں۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ ارکانِ قومی اسمبلی اور چاروں صوبوں کے ارکانِ صوبائی اسمبلی ایک جگہ پر بٹھائے جائیں اور ان کو ان الفاظ کی املا لکھوائی جائے تو یہ لوگ ہرگز نہیں لکھ سکیں گے۔ یہ وہ نصاب ہے جسے پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی نہیں پڑھا سکتے۔ نصاب کی بنیادی شرط ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ماحول کے ساتھ مربوط ہوتا ہے۔ جو نصاب ماحول سے کٹا ہوا ہو اسے پڑھانا ناممکن ہوتا ہے۔ ایسی حرکتوں نے استاد، والدین اور بچہ تینوں کو نفسیاتی الجھنوں کا شکار کر دیا گیا ہے۔ ایسے اقدام ایسی نسل تشکیل دینے جا رہے ہیں جن کی نہ کوئی زبان ہو، نہ تہذیب اور نہ ثقافت۔ نسلِ نو کو ایک قوم بنانے کے لیے قومی شعائر کی توقیر اور نصاب کو قومی زبان کے اصول و ضوابط کے مطابق تیار کیا جائے اور جو الفاظ ہماری اردو لغات میں مستعمل ہیں انہیں نصاب میں استعمال کیا جائے اور یہ کام ان ماہرینِ تعلیم کے ذریعے رو بہ عمل لایا جائے جو واقعی زبان و بیان اور تعلیم کے اصولوں سے حقیقی شناسائی رکھتے ہوں۔ دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کا نصاب ان کی اپنی قومی زبانوں میں ہے۔ یہی عزت، ترقی اور وقار کا راستہ ہے جسے تمام تر ترجیحی بنیادوں پر اپنایا جائے۔

5. کبھی کیمیا اور حیاتیات کے مضامین نہم میں اور طبعیات اور ریاضی کو دہم میں پڑھانے کی حکمت گریز پالیسی اپنائی گئی جو دو سال کے بعد پھر رجوع پر منتج ہوئی اور ثابت کر گئی کہ نااہلوں اور تعلیم سے کھلواڑ کرنے والے ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے تباہی اور بربادی کا سبب بن سکتا ہو۔ ایسی ناکام پالیسی وضع کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی وطنِ عزیز کے نظامِ تعلیم سے نہ کھیل سکے۔

6. کون نہیں جانتا کہ تین سال میں تین دفعہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان کا طریقہ بدلا۔ پہلے نہم اور دہم، گیارہویں اور بارہویں کا امتحان الگ الگ کیا گیا۔ پھر ایک سال بعد اکٹھا کر دیا گیا اور ایک سال بعد پھر الگ الگ کر دیا گیا۔ اس قدر بوکھلاہٹ اور ہنگامی تبدیلیاں جہلائے مطلق اور ذہنی مریضوں کے ہاتھوں ہی ممکن ہو سکتی ہیں۔ مشاورت، مہارت اور ملکی و قومی مفادات سے عدم وابستگی کے حامل ان کارپردازانِ تعلیم سے جان چھڑانا اب ہر شہری کا فرضِ عین بن چکا ہے۔

7. مار نہیں پیار کی غیر اخلاقی مہم کے ذریعے استاد اور شاگرد کے مقدّس رشتے کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی اور اب بھی کی جارہی ہے۔ ہر سکول کے دروازے پر آویزاں کیا گیا " مار نہیں پیار " کا بورڈ اور اس پر لکھا ہوا انتباہ کہ "تمام سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں سزا پر پابندی ہے اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو درج ذیل فون نمبر پر اطلاع دیں" بچے کے سامنے یہ جملہ لکھا ہوا استاد کی عزت اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے اور بچے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ کیا اسلام میں اصلاح کا یہی طریقہ ہے۔ اس مقصد کے حصول کے کئی اور راستے تھے جیسا کہ اساتذہ کو الگ سے کتابی صورت میں ہدایات دینا یا سربراہِ ادارہ کے ذریعے تربیتی پروگرامات کا انعقاد وغیرہ۔ اصلاح کا عمل حکمت کا متقاضی ہوتا ہے نہ کہ کسی کی عزت اچھال کر اصلاح کی جاتی ہے۔ اسے اخلاق باختگی اور تعلیمی ادارے کے تقدّس کو پامال کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس بورڈ کو فوراً اتارا جائے اور ایسی حرکت کرنے والوں کو پوری قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔

8.خواتین اساتذہ کو مردانہ سکولوں میں تعینات کرنے کی پالیسی کی جتنی مذمّت کی جائے کم ہے۔ پہلے ہی معاشرے میں اخلاق باختگی اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہی ہے۔ ان حالات میں خواتین اساتذہ کی مردانہ سکولوں میں تعیناتی ایک غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر مہذب فعل ہے۔ اکثر سکولوں میں مرد اکثریت میں ہیں اور ان میں ایک دو خواتین ہیں جو آزادی کے ساتھ اپنے تعلیمی فرائض انجام نہیں دے سکتیں۔ مڈل سکولوں میں پڑھنے والے اکثر بچے سنِ بلوغت کو پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ الغرض بہت سے نفسیاتی اور اخلاقی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک کسی نے ایسی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کی مگر نہ جانے ہمارے حکمران کیوں تعلیمی اداروں کے ماحول کو مکدّر اور منتشر کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن جو اپنے تئیں نظریاتی ہونے کی دعوے دار ہے، وہ بھی سابق دورِ حکومت کی پالیسیوں پر من و عن بلکہ ان سے آگے بڑھ کر ان پر عمل پیرا ہے جس سے اس جماعت کا نظریاتی پہلو سامراجی امداد کے سحر انگیز لالچ میں غوطے کھاتا ہوا نظر آتا ہے۔

9. مذکورہ تمام تعلیم کُش پالیسیوں کی کڑوی گولی کو مفت کتابوں کی چالیس کروڑ سے زائد کی مہم میں لپٹ کر قوم کو دیا گیا تاکہ عوامُ النّاس کی اکثریت جو ان پڑھ ہے انہیں بے وقوف بنا کر سرکاری نظامِ تعلیم کو تباہ کیا جا سکے۔ کیا سرکاری سکول کا ہر بچہ کتاب نہیں خرید سکتا؟ جو والدین اپنے بچوں کو تین وقت کی روٹی کھلاتے ہیں، انہیں پہننے کے لیے کپڑے دیتے ہیں اور ان کی رہائشی اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں کیا وہ ایک سال میں سو دو سو روپے کی کتابیں خرید کر نہیں دے سکتے؟ یہ کتابیں بھی چار چار مہینے تاخیر سے دی جاتی رہیں جبکہ اس دوران سرکاری چہیتوں کے پرائیویٹ سکولوں میں نصف سے زائد نصاب ختم کر دیا جاتا تھا۔ یہ کسی کو کسی کے سامنے باندھ کر مارنے کی سازش تھی جو کئی سال سرکاری سرپرستی میں ہوتی رہی۔ شاید یہی مفت کتابوں کی تقسیم کا مقصد بھی تھا۔ سرکار نے ایسا کر کے کروڑوں بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ اس پوری مہم کے نقصانات کی تحقیقات کرائی جائیں اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ کتابیں مفت دینے کی بجائے ان کے مجموعی نصابِ تعلیم کو آسان کیا جائے تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے تمام مراحل آسانی سے طے کر سکیں نہ کہ ابتداء میں ہی ایک بڑی تعداد سکول چھوڑ کر بھاگ جائے۔

10. ناکامی کی ایک اور حماقت خیز داستان ہمارے کارپردازانِ تعلیم نے رقم کر رکھی ہے۔ وہ کئی سال تک چلچلاتی دھوپ میں طلباء و طالبات کے امتحان لینے کی تھی۔ کسی کے دماغ سے سوچنے والے لوگ ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔ اب اس پالیسی سے رجوع بھی اہلِ حل و عقد کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کو کٹہروں میں کھڑا کرنا اور ان کا احتساب کرنا پوری قوم کی خواہش ہے۔

11. اسی اثناء میں ملک میں سرکاری سرپرستی اور بیرونی امداد سے چلنے والے تعلیمی نظام کے کئی سلسلے شروع کر دیے گئے جن کا مقصد اردو میڈیم کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے سرکاری پالیسیوں میں دخل اندازی کے دانستہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ حالانکہ یہ ادارے کسی قسم کی سرکاری پالیسی کا حصہ نہیں ہیں۔ اب حکومت ان کو زبردستی نظامِ تعلیم کا حصہ بنا کر ان کی مرضی کے مطابق نصابِ تعلیم اور نظامِ تعلیم تشکیل دینا چاہتی ہے اور دے رہی ہے۔ یہ ادارے اور ان کو چلانے والی این جی اوز قومی زبان کے خلاف زبردست پراپیگنڈہ کر رہی ہیں۔ مثلاً کہ اردو سائنس کی زبان نہیں۔ اردو کی اپنی کوئی حیثیت نہیں وغیرہ ۔ان این جی اوز کو لگام دینا اور ان کے ہاتھوں نظریہء پاکستان کی بیخ کنی کا سختی سے نوٹس لینا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔

12. سرکاری سکولوں کی مانیٹرنگ کا بدنامِ زمانہ اور بُری طرح ناکام ہونے والا نظام ہے۔ ایک طرف تو لاکھوں پڑھے لکھے افراد کے ہوتے ہوئے اپنی ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات سے مستفید ہونے کے باوجود کم پڑھے لکھے اور ناتجربہ کار فوجی اہلکاروں کو تعینات کر کے صریحاً ملک کے تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ بے انصافی کی گئی اور دوسری طرف کم اہلیت کے افراد کے ذریعے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی مانیٹرنگ کا توہین آمیز کام سرکاری پالیسی کے ذریعے کیا گیا۔ تیسرا یہ کہ تعلیم کے پہلے سے موجود ڈھانچے کو بہتر اور مزید فعال بنانے کی بجائے مانیٹرنگ کا متوازی نظام قائم کرنا پورے ڈھانچے کو بے اثر بنانے کے مترادف ہے۔ یاد رہے کہ یہ نظام فقط پنجاب میں ہی نافذ العمل کیا گیا۔ تعلیم سے وابستہ ہر شخص کی خواہش ہے کہ بے انصافی اور توہین آمیز ی کے اس غیر فطری مانیٹرنگ کے نظام کو فی الفور ختم کیا جائے اور وطنِ عزیز کا خطیر سرمایہ اس کے ذریعے ضائع نہ کیا جائے۔

13. وزارتِ تعلیم، ٹیکسٹ بک بورڈ اور دیگر پالیسی ساز اداروں میں حقیقی ماہرینِ تعلیم کو کلیدی عہدوں پر فائز کیا جائے۔ ایسے افراد جن کا تحقیقی کام کتابی صورت میں یا کسی اور صورت میں مسلّمہ ہو۔ موجودہ پالیسی ساز افراد اہلیت و قابلیت اور قومی مفادات سے سچی اور حقیقی وابستگی سے عاری ہیں۔ نصاب سازی میں کسی بیرونی این جی او کو دخل اندازی کی اجازت نہ دی جائے اور نہ ہی نصاب میں تبدیلی کے عوض کوئی آئی ایم ایف، عالمی بنک یا دوسری امدادی ایجنسیوں سے معاہدے کیے جائیں۔ اساتذہ کی تربیت میں بھی کسی بیرونی امداد کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ اساتذہ کی تربیت کے موجودہ پروگرام تمام تر بیرونی ایجنسیوں کی امداد پر چل رہے ہیں۔ یہ ادارے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر کام کرتے ہیں اور ملک و قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔

14. حکومتِ پنجاب کا حالیہ فیصلہ کہ سیکریٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے ایک نوٹیفیکیشن نمبر167/PS/SSE/MISC/2009 مورخہ ۲۸ مارچ 2009 کے تحت صوبہ بھر کے تمام کمپری ہنسو، پائلٹ، سنٹرل ماڈل، جونئر ماڈل اور کمیونٹی ماڈل سکولوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ یکم اپریل ۲۰۰۹ سے اپنے اپنے سکول میں بننے والی اوّل، دوم اور ششم جماعتوں میں سائنس اور ریاضی کے مضامین لازماً انگریزی میں پڑھائیں گے تاہم معاشرتی علوم کا مضمون اردو یا انگریزی کسی ایک زبان میں پڑھایا جا سکتا ہے۔ جبکہ اردو، عربی، اسلامیات اور حصہ مڈل میں پڑھائے جانے والے اختیاری مضامین زراعت، ہوم اکنامکس وغیرہ حسبِ سابق پڑھائے جائیں گے۔مذکورہ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ کلاسیں سال بہ سال آگے چلتی جائیں گی اور اس طرح مرحلہ وارتمام کلاسیں انگلش میڈیم ہو جائیں گی۔ مذکورہ حکم کے تحت ہر ضلع سے بحثیتِ مجموعی بوائز سکولوں میں سے ۵ فیصد اور گرلز سکولوں میں سے ۱۰ فیصد انگلش میڈیم میں تعلیم دیں گے۔ ان سکولوں کی سلیکشن تعداد طلبہ کے لحاظ سے PMIU نے کی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی بھی سرکاری سکول انگریزی میڈیم کلاسز اپنی مرضی سے شروع کر سکے گا جس کے لیے علیحدہ سے کوئی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انگلش میڈیم سکولوں کے بچوں کی وردی بھی تبدیل کر کے سمارٹ یونیفارم کر دی گئی ہے اور سربراہانِ ادارہ کو اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ سکول کونسل کی مشاورت سے فروغِ تعلیم فنڈ میں اضافہ کر سکتے ہیں جو کہ 20 روپے تک ہو سکتا ہے۔ تاہم انگریزی میڈیم کلاسز کو پڑھانے کی ذمہ داری موجودہ سٹاف ہی کی ہوگی، کوئی علیحدہ سٹاف فراہم نہیں کیا جائے گا۔ یہ ہے اس ظلم نامے کا خلاصہ جسے تعلیمی، تدریسی، زمینی اور تہذیبی حالات سے عدم شناسائی کا سب سے بڑا حماقت خیز مظاہرہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ بچے جن کی لازمی انگریزی نے پہلے ہی کمر توڑ رکھی ہے۔ بچوں کی بھاری اکثریت چند سادہ انگریزی کے جملے پڑھنے اور لکھنے کے قابل نہیں ہے، انہیں انگریزی میں سائنس، ریاضی اور معاشرتی علوم جبراً پڑھنے کے لیے مجبور کرنا شاید کسی سفّاک سے سفّاک ریاست نے بھی نہیں کیا ہوگا۔ راقم الحروف سیکرٹری تعلیم اور پورے نام نہاد ماہرینِ تعلیم کو چیلنج کرتا ہے کہ بندہ ناچیز انہی کلاسوں کو اردو میں پڑھائے گا اور آپ اپنے نمائندوں کو انہی کلاسوں کو سائنس اور ریاضی انگریزی میں پڑھانے کے لیے منتخب کریں۔ پڑھانے کے بعد تین صلاحیتوں کا ٹیسٹ لیا جائے (۱) کس میڈیم کے ذریعے بچوں کو زیادہ سمجھ آئی؟ (۲) کس میڈیم کے ذریعے پڑھائے گئے تصورات کا فہم دیر تک بچوں کے دل و دماغ پر نقش رہا؟ بچے کس میڈیم کے ذریعے سمجھے گئے تصور کو بچے اپنے لفظوں میں بیان کرنے اور لکھنے کے قابل ہوئے؟ بندہ ناچیز چیلنج کرتا ہے کہ پی ٹی وی پر یہ تدریسی مقابلہ دکھایا جائے اور فیصلہ کرنے والے ناظرین ہوں تو ان کے انگلش میڈیم کے غبارے سے دیکھنا کیسے ہوا نکلتی ہے۔ ہے کوئی ٹیڑھا منہ کر کے انگریزی بولنے والا ماہرِ تعلیم جو اس مقابلے کی حامی بھرے۔؟ قوم جان لے گی کہ جس کو معیاری تعلیم کا نام دے کر پوری قوم کو دھوکہ دیا جا رہا ہے اسکی اصل حقیقت کیا ہے۔ مذکورہ حکم نامے کے آغاز میں سیکریٹری صاحب ارشاد فرماتے ہیں کہ چونکہ لوگوں کا رجحان انگلش میڈیم کی طرف زیادہ ہو رہا ہے اس لیے پرائیویٹ سیکٹر سے مقابلہ کرنے کے لیے سرکاری سکولوں میں بھی معیاری تعلیم شروع کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر برائی کا چلن عام ہوجائے اور تو سرکار کو اپنے اداروں اور وسائل کو اسے اور پھیلانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دینا چاہیے۔ کیا جنہوں نے یہ رجحان پھیلایا ہے وہ غریب طبقہ ہے یا طبقہ اشرافیہ؟ کس طبقے نے انگلش میڈیم کا فروغ کروڑوں روپے کے مسحور کُن بورڈ لگا کر کیا ہے؟ بیرونی امداد سے کتنے انگلش میڈیم سکول ہیں جو چل رہے ہیں؟سیکریٹری صاحب کے حکم نامے کے متن کا لفظ لفظ سرکاری اور اردو میڈیم نظامِ تعلیم کے خلاف اور انگلش میڈیم اور پرائیویٹ نظامِ تعلیم کے حق میں پھیلائی جانے والی مہم کا سب سے بدترین مظاہرہ ہے۔ یہی مہم ہے جس نے گورنمنٹ سکولوں کی پشت میں خنجر گھونپا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ آج سرکاری چھتری تلے غیر معیاری نصاب اور غیر معیاری تدریس کو ذرائع ابلاغ کی تشہیر کے ذریعے سادہ لوح عوام کو معیاری باور کروا رہے ہیں۔ چین کا نصاب انگریزی میں نہیں ہے تو وہ بھی غیر معیاری ٹھہرے گا؟ ایران، جاپان، روس، فرانس اور سینکڑوں ممالک کا نصاب ان کی اپنی زبانوں میں ہے تو کیا یہ سب غیر معیاری ہے؟ کیا سیکریٹری صاحب کے پاس ان سب باتوں کا جواب ہے؟ نہیں ہے اور نہ ہی قیامت تک ہو سکتا ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور ظلم یہ ڈھایا جا رہا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف ڈیویلپمنٹ جو اساتذہ کو تربیت دینے والا ادارہ ہے اس نے تمام اضلاع کے محکمہ تعلیم کے ای ڈی اوز اور متعلقہ سربراہانِ اداروں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے اساتذہ کو پابند کریں کہ وہ آپس میں اور بچوں کے ساتھ انگریزی میں بات کریں۔ ای ڈی اوز تو سکولوں میں بھی جاکر اساتذہ کے تربیتی کورسوں میں یہ نصیحت آگے پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے اور اب بھی دے رہے ہیں ۔یہ سب کچھ پاکستان کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہے۔ اس طرح قومی زبان کو سکولوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور ملی وحدت کی اس علامت کو انتہائی بے دردی سے سرکاری وسائل کے ساتھ کچلا جا رہا ہے ہمارا مطالبہ ہے انگلش میڈیم پورے ملک سے مکمل طور پر ختم کیا جائے اور قومی زبان میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے ۔ سامراجی ایماء پر چلنے والے بڑے بڑے انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کو بند کر کے ان کے بڑے بڑے بورڈ اتار پھینکے جائیں۔ ملک کے ہر تعلیمی ادارے میں انگریزی بولنے پر پابندی لگائی جائے اور قومی زبان کے فروغ اور اس کی عزت افزائی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ یہی آئینِ پاکستان کا تقاضا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ یہ صرف پنجاب میں ہی طوفان آیا ہوا ہے۔ باقی صوبوں میں پالیسیوں کی یہ اتھل پتھل نہیں ہے۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سائنس کی انٹر میڈیٹ سطح تک کی بھی تمام کتابیں انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شائع کرتا ہے۔ کیا قومی زبان صرف ایک صوبے کی ہے؟ نئی تعلیمی پالیسی میں صرف انگریزی پہلی جماعت سے لازمی کی گئی ہے۔ یہاں پنجاب میں انگریزی اور سائنس پہلی دوسری اور چھٹی سے لازمی قرار دینا اس اپنی ہی قومی تعلیمی پالیسی کے منافی ہے۔ پھر نئی تعلیمی پالیسی آنے سے پہلے ہی یہ اقدام سراسر غلط اور ظلم و جبر کی آخری حدیں پھلانگنے کے مترادف ہے۔ اتنی ہٹ دھرمی تو آمرانہ دور میں بھی نظر نہیں آئی جو پنجاب حکومت دکھا رہی ہے۔ خدارا ان کے بے لگام ارادوں کو آئین و قانون کی لگام دیجئے۔ ہزاروں لاکھوں اساتذہ، بچے اور والدین کی آواز پر کان دھریے۔ اگر آپ نے ان کی آواز نہ سُنی تو یہ طبقہ اشرافیہ ملک کو یکجا نہیں رہنے دے گا۔ اس کے عزائم بہت خطرناک ہیں ۔ سامراج کی پوری امداد ان کے پیچھے ہے جس کے بل بوتے پر یہ اسطرح کے ظالمانہ اور جابرانہ اقدامات کر رہا ہے۔

15. پنجاب اگزامینیشن کمیش کا غیر ملکی امداد کے بل بوتے پر ایک نیا توت کھڑا کیا گیا جس نے نسلِ نو کو بددیانت بنانے کی حتی المقدور کوشش کی۔ ہر سال پرچے آؤٹ ہوئے اور فرضی نتائج کے ذریعے ۹۷ فیصد بچوں کو پاس قرار دیا گیا۔ ہر سال ناکامی کے باوجود اس تجربے کو دہرایا جاتا رہا۔ اس کمیشن سے کہیں بہتر پنجم اور ہشتم کے اندرونی امتحان کا نظام تھا۔ شاید یہی پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکتا تھا جسے پنجاب ایگزامینیشن کمیشن نے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب خاص ہدف کے ساتھ بربادی کے دہانے پر پہنچایا جا رہا ہے۔ اس کمیشن کے تجزیہ کاروں کے فرضی تجزیوں کی بنیاد پر ہی انگلش میڈیم کی توسیع کے خطرناک سلسلے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ سرکاری سکولوں کا ہی امتحان لینا اس کمیشن کے فرائضِ منصبی میں شامل ہے۔ طبقہء اشرافیہ کے سکول ہر قسم کے قوانین سے آزاد تھے اور ہیں۔ یہ بھی ایسٹ انڈیا کمپنی ہے جو پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو گھُن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اسے فی الفور ختم کر کے پنجم اور ہفتم کا سابقہ امتحان کا اندرونی نظام رائج کیا جانا ملکی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

16. متعدد سالوں سے یکساں نظامِ تعلیم کا شور مچایا رہا ہے۔ سرکاری اہلکار بھی بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں مگر اس سال بھی نئی تعلیمی پالیسی کے تھیلے سے کچھ نہیں نکلا۔ الٹا طبقاتی تفریق کو مزید ہوا دی جا رہی ہے اور سرکاری چھتری تلے اس کے لیے پورے وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ہماری گزارش ہے کہ یکساں نظامِ تعلیم فی الفور نافذ العمل کرنے کا حکم صادر کیا جائے۔ اشرافیہ کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں نہ کہ پوری قوم کو قومی دھارے سے نکال کر منتشر کرنے کی پالیسی اپنائی جائے۔

17. سی ایس ایس اور مقابلے کے تمام تر امتحانات کو قومی زبان میں لیا جائے تاکہ کم وسیلہ اور عام لوگ بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو سکیں۔ ملک کے تمام اداروں کی مراسلت اور کاروبار کی زبان کو اردو قرار دیا جائے تاکہ کاروبار اور رابطہ کاری میں آسانی پیدا ہو اور ہمارا قومی تشخص بھی بحال ہو۔ عجیب بات ہے کہ قومی زبان تو اردو ہے مگر سرکاری زبان اردو نہیں۔ کیا سرکار قوم کا حصہ نہیں۔ جی نہیں۔ اس منحرف طبقے کو قومی دھارے میں لانے کے لیے آئینِ پاکستان کی روح کے مطابق ملک و قوم کے لیے پالیسیاں وضع کرنے پر مجبور کیا جائے۔

18. مستقبل کا ایک خطرناک ترین منصوبہ دانش پبلک سکول کا ہے جو کہ پنجاب کے وسیع رقبے پر تعمیر ہورہے ہیں۔ ایک سکول کی مجوزہ لاگت ۵۰ کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ یہ تمام سکول انگلش میڈیم ہونگے۔ ان کو حکومتِ پنجاب یکساں نظامِ تعلیم کی طرف ایک قدم قرار دے رہی ہے جو کہ قطعاً غلط ہے۔ غریبوں کو معیاری تعلیم دینے والے منصوبے کے طور پر سرکاری طور پر مشتہر کیا جا رہا ہے۔ یہ تو مستقبل کی طبقاتی تفریق کا بھیانک منظر پیش کرتا ہے۔ جہاں لاکھوں سکولوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے ان کی حالت بہتر بنانے کی بجائے غیر ملکی امداد سے ایک ایسا منصوبہ شروع کرنا پوری قوم کے ساتھ مذاق کے مترادف ہے۔ یہ منصوبہ حکومت کی اپنی ہی قومی تعلیمی پالیسی کے خلاف ہے۔ وہ کون سے ماہرینِ تعلیم ہیں جن کی مشاورت سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے؟ ان کے نام بتائے جائیں۔ حقیقت بات یہ ہے کہ دیگر متعدد منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی بند کمرے کی پیداوار ہے جس پر پورے پنجاب کے تعلیمی بجٹ سے زیادہ بجٹ خرچ کیا جارہا ہے۔ اس سے تو ٹاٹ سکولوں کا نظام کئی درجے بہتر تھا جس نے بڑے بڑے ڈاکٹر اور سائنسدان پیدا کیے ہیں۔ ہم اس ایک سائنس دان کا نام دریافت کرنا چاہتے ہیں جو انگلش میڈیم تعلیمی نظام کی پیداوار ہو۔ پھر معیاری تعلیم صرف انگلش میں ہی حاصل کی جا سکتی ہے بنیادی طور ہی یہ فلسفہ غلط ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر منصوبے ایسا نظامِ تعلیم تشکیل دینے جا رہے ہیں جو فقط غلام ذہنیت کی پیداوار کے کارخانے ثابت ہوں۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ آج پاکستان اردو میڈیم سکولوں ہی کی وجہ سے قائم ہے۔ خدانخواستہ یہ ڈھانچہ گر گیا تو مستقبل کا وہ بھیانک منظر نامہ جس کی طرف قدم بڑھائے جا رہے ہیں کسی عظیم حادثے سے کم نہیں ہوگا۔ یہ سکول قومی دھارے کے سکولوں میں شامل نہیں ہونگے۔ باون ارب روپے میں 104 سکول قائم کیے جا رہے ہیں جو سرکاری تعلیمی ڈھانچے کو ناکام کرنے کے لیے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ سرکار ہی ایسے منصوبے شروع کر رہی ہے جو سرکاری نظامِ تعلیم سے متصادم ہے اور طبقہ اشرافیہ اور عام لوگوں کے درمیان خلیج وسیع کرنے کی یہ بد ترین مثال ہے۔ان محل نما سکولوں کی بجائے اگر حکومت بنیادی سطح کے دو دو کمروں پر مشتمل سکول تعمیر کروائے اور ایک سکول کی لاگت کا تخمینہ بیس لاکھ ہو تو باون ارب روپے میں صوبے بھر میں چھبیس ہزار سکول کھولے جا سکتے ہیں جن میں عوام النّاس کے بچوں کی کثیر تعداد تعلیم حاصل کر سکتی ہے۔ فائدہ کہاں زیادہ ہے آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا تانا بانا اردو میڈیم سکولوں کو اقلیت میں بدل کر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنایا جا رہا جو نظریاتی لحاظ سے ایسے منصوبوں سے خود بخود موت کی آغوش میں چلی جائے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر منصوبوں پر روک لگائی جائے اور حکمران طبقے کو قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ان کے تمام سکولوں کو اردو میڈیم بنا دیا جائے نہ کہ ایک فیصد سے بھی کم طبقے کے مفادات پر پوری قوم کے مفادات کو قربان کر دیا جائے۔

19. بیشتر یونیورسٹیوں میں بی ایڈ اور ایم ایڈ کو معیار بڑھانے کے نام پر انگریزی میں کر دیا گیا۔ ایم ۔ اے معاشیات کا امتحان قبل ازیں اردو میں دینے کی اجازت تھی جسے ختم کر دیا گیا تاکہ عام لوگ آسانی سے ایم اے نہ کر سکیں۔ یاد رہے کہ ایم۔ اے معاشیات کا نام بدل کر اب ایم ۔ ایس سی معاشیات رکھ دیا گیا۔ ایم ۔ ایس سی ریاضی کا پرائیویٹ امتحان دینے کی اجازت ختم کر دی گئی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں تمام آسانیاں یکسر ختم کر دی جائیں۔ علاوہ ازیں نہ جانے بند کمروں میں کن کن تباہ کن پالیسیوں کے تانے بانے بُنے جا رہے ہیں۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Read More Articles by Ishtiaq Ahmad: 52 Articles with 168551 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.