جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

گزشتہ روز رحیم یار خان میں وزیر اعلیٰ دستر خوان کے منتظمین نے غرباء و مساکین کو عین مغرب کے وقت افطار اور کھانے کے لئے کچھ بھی دینے سے صاف انکار کردیا۔ وہ غریب جن کا پہلے ہی کوئی پرسان حال نہیں، جو دو وقت کے کھانے کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں، جن کے پاس روزگار نام کی کوئی چیز موجود نہیں، ان غریبوں کے لئے سرکاری سطح پر افطار اور کھانے کے اعلان نے ایک خوشی کی لہر دوڑا دی تھی لیکن صرف ایک لمحے نے ان سے وہ خوشی بھی چھین لی۔ اس ایک لمحے نے ان غریبوں کو انکی اوقات دکھا دی اور ساتھ ہی ساتھ حکومت کی بھی! کسی بھی ریاست میں اور خصوصاً اسلامی ریاست میں غریبوں، ناداروں، بیواﺅں اور یتیموں کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ ریاست سارے عوام کی ماں ہوتی ہے اور ماں کو اپنے سب بچوں سے یکساں محبت ہوتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا ماں ان بچوں سے کچھ زیادہ ہی محبت رکھتی ہے جو مالی لحاظ سے باقی بچوں کی نسبت قدرے کمزور ہوتے ہیں۔ ماں کو ہر وقت، ہر لمحہ یہی سوچ دامن گیر رہتی ہے کہ میرا کوئی بچہ بھوکا نہ رہ جائے، سب پیٹ بھر کر کھانا کھالیں۔ ماں خود بھوکی رہ کر بھی بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر میں ہوتی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے ریاست کا ماں کا تصور دھندلا دیا ہے۔ پاکستان کی حکمران کلاس نے سب کچھ صرف اپنے لئے مختص کر لیا ہوا ہے۔ جب ایک ماں اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھتی ہے اور دوسری طرف وہ حکمران، ایلیٹ کلاس، آرمی و سول بیوروکریسی، نواب و صنعتکار جن کے بچے پیدا ہوتے ہیں تو منہ میں سونے کا چمچ لے کر، جب بھوکے بچے کی ماں انہیں دیکھتی ہے تو اس کے دل میں ان کے لئے نفرت پیدا ہوتی ہے، ان امراء کے لئے جو ملک کے تمام وسائل پر بزور قابض ہیں، بددعائیں نکلتی ہیں۔ ایک باپ جب سارا دن مزدوری کی تلاش میں دربدر پھرتا ہے اور شام ڈھلے اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں ہوتی کہ اپنے بچوں کو ایک وقت کا کھانا ہی کھلا دے تو کوئی تصور کرسکتا ہے کہ اس کے دل و دماغ پر کیا بیتتی ہے؟ یقیناً وہ ساری دنیا سے جنگ کرنے کو بھی تیار ہوجاتا ہے اور کسی کی جان لینے کو بھی چاہے اس کے بدلہ میں وہ چور بنے، ڈاکو یا کچھ اور....!

1998ء میں مجھے ایک مرتبہ کراچی میں ایک سندھی بزنس مین کا مہمان بننے کا اتفاق ہوا۔ وہ صاحب مجھے سیر کراتے کراتے ایک کچی بستی میں لے گئے اور کہنے لگے کہ دیکھیں یہاں پر نہ بجلی ہے نہ پانی، زندگی گزارنے کے وسائل بھی نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ دوسری طرف رائیونڈ ہے جہاں پر پوری قوم کا سرمایہ مال مفت کی طرح لگایا جارہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ پنجاب پورے ملک کو کھا رہا ہے جبکہ صرف کراچی ملک کو50 فیصد سے زائد آمدن فراہم کرتا ہے اور یہاں کے عوام کے پاس کوئی وسائل نہیں ہیں، یہاں کے بچے بھوکے مرتے ہیں، نوجوانوں کو تعلیم نہیں مل پاتی اور جو اپنی قسمت سے تعلیم حاصل کرلیتے ہیں انہیں نوکریاں اور روزگار میسر نہیں ہوتا۔ سندھ بنجر ہو رہا ہے جبکہ پنجاب کی سرحد شروع ہوتے ہی لہلاتے کھیت نظر آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ میں خاموشی سے سنتا رہا جب ان صاحب نے اپنی بات مکمل کرلی تو میں نے 70 کلفٹن دیکھنے کی خواہش کی۔ وہ صاحب مجھے کلفٹن لے گئے اور70 کلفٹن کے سامنے پہنچ کر انہوں نے بتایا کہ یہ محترمہ کی رہائش گاہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں یہ محل کتنے رقبہ میں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ قطعی طور پر تو معلوم نہیں لیکن کراچی کے بڑے محلوں میں سے ایک ہے میں نے ان سے کہا کہ بلاشبہ رائیونڈ محل میں بہت سرمایہ لگایا گیا ہے لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ لاہور سے قدرتی گیس کی سپیشل لائن رائیونڈ تک بچھائی گئی ہے لیکن راستے میں جتنے علاقے ہیں وہ قدرتی گیس سے محروم ہیں اور وہاں کے مکین آگ جلانے کیلئے سلنڈر، تیل کے چولہے یا لکڑیاں استعمال میں لاتے ہیں، کیا آپ کے علم میں ہے کہ رائیونڈ محل کے اردگرد سڑکوں کا جال بچھا دیا گیا ہے لیکن لاہور کی75 فیصد سڑکیں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ میں نے مزید عرض کیا کہ محترمہ کے گھر سے چند میل دور آپ نے مجھے کچی آبادی کا نظارہ کرادیا ہے، کیا محترمہ دو مرتبہ وزیراعظم نہیں بنیں، انہوں نے ان غریبوں کیلئے کیا خدمات سرانجام دیں؟ کیا کراچی اور سندھ کے دیگر غریبوں کا کوئی حق محترمہ اور سندھی حکمرانوں پر نہیں؟

اصل میں بات یہ ہے کہ غریب سندھ کا ہو، بلوچستان کا، سرحد یا پنجاب کا اس کی حالت ایک جیسی ہے، جو بھی حکومت آتی ہے اس کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، میاں برادران کی پنجاب میں حکومتوں نے باقی صوبائی حکومتوں کی نسبت قدرے زیادہ سرمایہ ترقیاتی کاموں پر صرف کیا ہے لیکن غریبوں کی حالت میں کوئی خاص فرق ہرگز نہیں ہے۔ تازہ ترین مثال فیصل آباد کی ہے جو پاکستان کا مانچسٹر اور ایک بڑا صنعتی علاقہ ہے، دو روز قبل ہی وہاں کے ایک سرکاری ہسپتال میں کچھ نوزائیدہ بچے اس لئے جان کی بازی ہار گئے کیونکہ وہاں وینٹیلیٹر کی سہولت موجود نہ تھی، پنجاب میں روزانہ ان گنت لوگ بیروزگاروں، فاقوں اور بچوں کو بھوکا اور بلکتا دیکھ کر خودکشیوں پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اپنی عزت نفس کو قتل کرکے سفید پوش لوگ بھی بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، نوجوان لڑکیاں ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر ہاتھوں میں وائیپر لئے نمودار ہوتی ہیں کہ کسی گاڑی کے شیشے صاف کر کے چند روپے مل جائیں، لوگ چوری، ڈکیتی اور قتل جیسی قبیح وارداتوں کی طرف اس لئے راغب ہو رہے ہیں کہ ان کے بچے بھوکے اور پیاسے ہوتے ہیں۔ پنجاب کو پہلے بھی بنگالیوں سے طعنے سننے کو ملتے تھے اور اب بھی باقی چھوٹے صوبوں کے غریب اور معصوم لوگوں کے دماغوں میں پنجاب کے بارے میں نفرت بھری جارہی ہے حالانکہ تینوں چھوٹے صوبوں کے حکمران، ایلیٹ کلاس کے نمائندے اور بیوروکریٹ بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں جتنے پنجاب کے بلکہ پنجاب کا غریب تو دونوں طرف سے چکی کے پاٹوں میں پس رہا ہے۔ ایک طرف اس پر ظلم در ظلم پنجاب کی حکمران کلاس کی طرف سے کبھی آٹا مہنگا، کبھی چینی بحران کے ٹیکے ....اور دوسری طرف باقی تینوں صوبوں کی طرف سے نفرت!

اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کا حکمران اور مقتدر طبقہ ہوش کے ناخن لے، غریبوں کو کم از کم زندہ رہنے کا حق دیدے، وسائل پر ان کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ تسلیم کرلیا جائے پاکستان کو ایک فلاحی اسلامی ریاست میں تبدیل کیا جائے، حکومتیں اپنے اخراجات کم کریں اور زیادہ وسائل غربت ختم کرنے پر لگائے جائیں نہ کہ غریب ختم کرنے پر۔ میرٹ کو فروغ دیا جائے اور تمام صوبوں اور پاکستان کے تمام لوگوں کو قومی دھارے میں لایا جائے۔ غریبوں کی عزت نفس مزید مجروح نہ کی جائے کیونکہ جس کی نظروں میں اپنی کوئی عزت نہ رہ جائے وہ کسی کی بھی عزت کی رتی بھر پرواہ نہیں کرتا، جس کے اپنے بچے بھوک سے مر رہے ہوں، دنیا بھر کے بچے اس کی نفرت اور انتقام کا شکار بن جاتے ہیں۔ محترمہ کے قتل کیس کی تحقیقات (جن کا کوئی فائدہ بھی نہیں) پر اربوں روپے سرکاری خزانے سے خرچ کرنے والے کس منہ سے غریبوں کی محبت کا دم بھرتے ہیں؟ چینی بحران میں اربوں روپے ڈکارنے والوں کے دلوں میں غریبوں کی کتنی ہمدردی ہوسکتی ہے، اسے سمجھنا کوئی مشکل نہیں، ایک آمر کی حمایت اور وکالت کرنے والے، بھتہ خوری اور اغواء کے ماہرین پاکستانی غریبوں کے کتنے خیر خواہ ہیں پوری قوم کو معلوم ہے۔ ابھی بھی تھوڑا سا وقت بچا ہے، یہ وقت بھی نکل گیا تو ہم سب تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اگر غریبوں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو سب کچھ راکھ بن جائے گا، کچھ نہیں بچے گا۔ اگر تین فیصد طبقہ چاہتا ہے کہ ان کی عیاشیاں جاری رہیں، ان کے محل اور بزنس ایمپائر قائم رہیں تو انہیں فوراً پاکستان کے 97ء فیصد طبقہ کے جائز حقوق دینے ہوں گے ورنہ علامہ اقبال کے پتہ نہیں کس موڈ اور ترنگ میں کہے گئے شعر
”جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو“
پر عمل شروع ہوجائے گا اور غربت میں گردن تک دھنسے ہوئے لوگ خودکش بمبار بن جائیں گے اور ہر ایک کے لبوں پریہی ترانہ ہوگا
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207107 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.