الطاف حیسن نے قومی پرچم جلایا تھا

یہ بھی ایک سابق اعلیٰ فوجی افسر کے انکشافات ہیں۔ اور جو کہ صرف امت میں نہیں بلکہ جیو نیوز، روزنامہ ایکسپریس، روزنامہ جنگ، روزنامہ جسارت اور دیگر قومی اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ “آزاد میڈیا“ کے پروانوں کی خواہش پوری کی جائے۔ قارئین حق کے سفر میں جس کے پاس حق ہو اس کے ساتھ رہئے گا۔

سابق ڈی جی پاکستان رینجرز میجر جنرل (ر) صفدر علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی آپریشن کے دوران جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے تھے لیکن سیاسی قیادت کے دباﺅ پر اس کی تردید کی گئی۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں کہا کہ کراچی میں آپریشن کسی پارٹی یا طبقے کیخلاف نہیں تھا بلکہ کراچی کو جرائم پیشہ افراد اور ہتھیاروں سے پاک کرنے کے لیے کیا گیا تھا اور اس مقصد کے لیے ایم کیو ایم حقیقی کو بھی اس میں استعمال کیا گیا کیونکہ وہی جانتے تھے کہ کراچی میں کس جگہ ٹارچر سیل اور کس کس گھر میں اسلحہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ آپریشن اس لیے روکنا پڑا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نہیں چاہتے تھے کہ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور جے یو پی کے مقابلے میں کمزور ہو اس لیے وہ نرم گوشہ رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی جانب سے 15 ہزار ہلاکتوں کی خبر درست نہیں۔ اس آپریشن میں بہت کم ہلاکتیں ہوئیں اور وہی لوگ مارے گئے جنہوں نے آپریشن کیخلاف ہتھیار اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے تھے تاہم اس بیان کو سیاسی قیادت کے دباﺅ پر واپس لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 1987ء میں جب وہ جے او سی حیدر آباد تھے اس وقت الطاف حسین نے ایک جلسہ کیا اور اس میں قومی پرچم کونذر آتش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تسلیم کرنا سب سے بڑی غلطی تھی ( ویسے یہ بات محترم الطاف حسین کئی بار کہہ چکے ہیں یہاں تک کہ یہ بات انہوں نے بھارت کے دورہ میں بھی کہی تھی۔ اسی سے انکی حب الوطنی ثابت ہوجاتی ہے ) جس پر اس وقت میں نے کمشنر کو ان کے خلاف کارروائی کرنے اور گرفتار کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ صدر جنرل ضیاءالحق کا حکم ہے کہ انہیں ہاتھ نہ لگایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت آپریشن کامیاب ہوجاتا تو آج کراچی میں امن ہوتا اور کراچی بدامنی کا شکار نہ ہوتا۔

یہاں زرا غور کریں کہ سابق صدر مرحوم غلام اسحاق خان ایک طاقتور بیور کریٹ تھے اور سابق صدر جنرل ضیاء الحق ایک مطلق العنان آمر، اور ان دونوں نے ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی حمایت کی، اور ان کے خلاف کسی کاروائی سے گریز کیا۔ اس سے یہ بات صریح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ ایم کیو ایم آمریت کی پیدا وار اور اسٹیبلشمنٹ کی آلہ کار ہے اور متحدہ کا یہ دعویٰ کہ وہ اٹھانوے فیصد غریب عوام کی نمائندہ ہے جھوٹا ثابت ہوجاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس وقت جبکہ تقریباً تمام ہی پارٹیاں سابق صدر جنرل مشرف کے ٹرائل کا مطالبہ کررہی ہیں اور پی پی پی کی حکومت بھی اس سے واضح انکار نہیں کررہی ہے پورے ملک میں واحد متحدہ قومی موومنٹ ہی وہ جماعت ہے جو کھل کر سابق آمر کی حمایت کررہی ہے اور اس کے ٹرائل کی مخالفت کررہی ہے۔ اس سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ان کی سیاست محض نعروں کی سیاست ہے۔ دوسروں کو آمروں کی گود میں بیٹھنے کا طعنہ دینے والے خود ایک آمر کی گود میں نو سال تک بیٹھے رہے اور اب بھی جب کہ پوری قوم اس کے جارحانہ اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کررہی ہے تو یہ گروہ اس کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے۔

اب ملاحظہ کریں یہ خبر: یہ خبر جنگ، ایکسپریس، جسارت، سمیت کئی قومی روزناموں میں شائع ہوئی ہے، یہ دراصل جیو ٹی وی کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ واضح رہے کہ یہ بھی پاکستان آرمی کے ایک “ چوٹی کے ذمہ دار“ ہیں اور پاکستان آرمی کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر رہے ہیں۔ جس طرح کچھ لوگوں کے نزدیک بریگیڈئر امتیاز کی باتوں کی اہمیت ہے تو وہ ان افسران کی باتوں کو کیا کہیں گے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ کچھ بھائیوں کو یہ شکایت ہے کہ ہم صرف امت اخبار سے اپنے مطلب کی خبریں لاتے ہیں تو خبر روزنامہ جنگ کراچی اور وزنامہ ایکسپریس کی یکم ستمبر کی اشاعت میں صفحہ اول پر شائع ہوئیں۔ اگرچہ اس خبر میں مسلم لیگ ن کے آصف ہارون اور متحدہ کے حیدر عباس رضوی صاحب کی گفتگو بھی شامل تھی لیکن ہم نے اپنا فوکس صرف سابق فوجی افسران کے انکشافات پر ہی رکھا ہے اس لئے کہ چاہے مسلم لیگ ہو، جماعت اسلامی ہو یا متحدہ ہو یا پی پی پی انکا کوئی بھی فرد اپنے موقف کی بات کرے گا۔

آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر بریگیڈیئر (ر) صولت رضا کا کہنا تھا کہ 19/جون کو فوج، رینجرز اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی کارروائی شروع کی تو ایک دفتر جسے ایم کیو ایم کا مرکز کہا جاتا تھا وہاں سے نقشے، جھنڈا، پمفلٹ اور دیگر چیزوں برآمد ہوئیں جسے اگلے روز بریگیڈیئر آصف ہارون نے صحافیوں سے بات چیت میں بریف کیا، 92 کا آپریشن شروع کرا کے سیاسی جماعت پیچھے ہٹ گئی، ایک تاثر یہ تھا کہ فوج کو بریگیڈیئر امتیاز کی جانب سے وزیر اعظم کو دی جانیوالی رپورٹس پر تحفظات تھے، جنرل آصف نواز نے ہمیشہ بریگیڈیئر امتیاز کو ایک فاصلے پر رکھا۔۔ تفصیلات کے مطابق صولت مرزا نے بتایا کہ جونہی یہ بات ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں الطاف حسین اور اشتیاق اظہر تک پہنچی کہ اس معاملے میں ایم کیو ایم کو ملوث کیا جارہا ہے تو ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں نے براہ راست کور ہیڈ کوارٹر میں رابطہ کیا اور متعلقہ فوجی افسران کو واضح کردیا کہ اِن نقشوں سے ایم کیو ایم کا کوئی تعلق نہیں ہے اُنہوں نے کہا کہ بریگیڈیئر امتیاز میرے سینئر ہیں لیکن ایک تاثر یہ تھا کہ بریگیڈیئر امتیاز وزیر اعظم پاکستان کو کچھ ایسی رپورٹس دے رہے ہیں جن کے بارے میں فوج کے تحفظات ہیں۔ فوج کی وہ بریفنگ جو وزیراعظم یا صدرِ پاکستان کیلئے ہوتی وہاں اگر بریگیڈیئر امتیاز موجود ہوتے تو اس کے اثرات لوکل کمانڈرز محسوس کرتے تھے کہ ہماری باتیں اور مووز ڈسکلوز ہو جاتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جو فوجی افسر ریٹائر ہو جاتا ہے خواہ وہ کتنا ہی قابل کیوں نہ ہو اُسے حساس اداروں کی سربراہی نہیں دینی چاہئے۔

دوسری طرف آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ( ر) حمید گل نے کہا ہے کہ انہوں نے آئی جے آئی ضرور بنوائی تھی لیکن کسی سیاستدان کو کوئی پیسہ نہیں دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے کہا کہ انہوں نے کسی بھی سیاستدان کو کوئی پیسہ نہیں دیا لہٰذا مجھ پر سیاستدانوں کو پیسے دینے کا الزام محض بہتان ہے جس میں کوئی حقیقت نہیں، آئی جے آئی کی تشکیل کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آئی جے آئی بنوانے کا میں ذمہ دار ہوں لیکن یہ ملک و قوم کے مفاد میں کیا اور امریکی اچر و نفوذ سے نجات پانے کے لئے یہ ضروری تھا۔ انکا کہنا تھا کہ میرے پاس ایسا کوئی تھا اور نہ ہی مجھے ایسی کوئی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک منصوبے کے تحت مشرف کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے بے سروپا الزامات کا ڈرامہ رچایا جارہا ہے اور بیان بازی شروع کی گئی ہے جس کا مقصد ملک کے موجودہ سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔( روزنامہ ایکسپریس لاہور بدھ یکم ستمبر ٢٠٠٩ )

قارئین کرام یہ بھی فوج کے ایک سابق چوٹی کے ذمہ دار کی گفتگو ہے اور یہ خبر بھی ہم نے امت اخبار یا جسارت اخبار سے نہیں لی ہے بلکہ روزنامہ ایکسپریس سے لی ہے۔ اس لئے ہم پر یہ الزام نہیں لگایا جاسکتا کہ ہم صرف اپنے مطلب کے اخبارات سے خبروں کا حوالہ دیتے ہیں۔ جو واقعی حق کے پرستار ہیں وہ تو شائد کچھ پشیمان بھی ہوں لیکن جو حق کی پرستش کا صرف دعویٰ کرتے ہیں ان کے لئے یہ سب باتیں بیکار ہیں اور وہ صرف ایک نکاتی ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں کہ کسی کی کوئی بھی بات خواہ کتنی ہی مستند ہو نہیں ماننی ہے بلکہ صرف اپنی ہی بات کرنی ہے اس لئے یہ تمام باتیں اور حوالہ جات عوام کے لئے ہیں، حق کی پرستش کے جھوٹے دعویٰ داروں کے لئے نہیں ہیں
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1443024 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More