یوکرینی بحران کیا رخ اختیار کرنے والا ہے؟

یوکرائن.........جی ہاں، یورپ کا اہم سیکنڈے نیوین ملک ہےجو اس وقت خود مختاری اور عالمی طاقتوں کے درمیاں شدید کشمکش کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے،ساڑھے 4کروڑ کی حامل آبادی کے اس ملک میں 77فیصد تو یوکرینی مقامی باشندے ہی ہیں مگر 17فیصد روسی اقلیت نے ملک کی آزادی و خودمختاری پر ہی استفہامیہ نشان لگا دیا ہے، ماسکو کی افواج روسی اقلیت کے علاقے کریمیا میں اتر چکی ہیں اور انہوں نے تمام اہم املاک پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے، ادھر روس نواز یوکرینی پارلیمنٹ نے الحاق روس کی قرارداد منظور کر کے ملک کو روس کی منڈی میں جنس فروخت بنا دیا ہےجس کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکہ نے ماسکو کے خلاف پابندیاں لگانے کی بھی دھمکی دیدی ہےجبکہ روس نواز شامی صدر بشار الاسد کے علاوہ چین اور بھارت نے بھی یوکرین سے متعلق روسی موقف کی حمایت کا اعلان کیا ہےدوسری طرف روسی حکمرانوں نے اقتصادی پابندیاں لگانے والے ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اس حکمت عملی کے بہت تباہ کن نتائج بر آمد ہوں گے۔

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو روسی قیادت نے 1990میں اپنے پیشرو اور عالمی سپر پاور سابق سوویت یونین کے افغانستان میں قبرستان بننے اور ماسکو سے بھی پرچم اترنے سے کچھ نہیں سیکھا ہے، روسی صدر ولادیمرپوٹن آج پھر خود کشی کی اسی راہ پر چل نکلے ہیں جس پر ماسکو کا سابق طاقتور ترین حکمران برزنیف گامزن تھا مگر اس کا نتیجہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کارل مارکس کے نظریات پر قائم لینن کی یہ سپر پاور دوام حاصل نہ کر سکی ، اب ربع صدی بعد یوکرینی دارالحکومت کیف میں ماسکو کے فوجیوں کے بوٹوں کی دھمک پھر سنائی دے رہی ہے اس کے ساتھ روسی قیادت یہ بھی کہہ رہی ہے کہ یوکرین میں خانہ جنگی اور گوریلا جنگ کا بھی خطرہ ہے اس لئے روسی افواج کا قیام امن کیلئے یوکرینی ریاست میں موجود رہنا از حد ضروری ہے، یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اس سے قبل جب افغانستان میں حاضر سروس حکمران ظاہر شاہ کو اس کے داماد دائود خان نے اطالیہ جلا وطن کر کے خود تخت کابل پر قبضہ کیا تو اس کی نا اہلی کے باعث سوویت یونین سے اعانت کے نام پر ایک ہنی مون شروع ہوا اور جب حفیظ اللہ امین نے سوویت ٹینک پر بیٹھ کر دائود خان کی جگہ صدارتی محل کا مسند نشین ہوا تو گویا ماسکو کی ٹڈی دل افواج کیلئے افغانستان میں مداخلت کے دروازے کھل گئے اور پھر لمحوں کی اس غلطی نے جو فصل بوئی اس کو کاٹنے کیلئے افغانوں کی تین نسلوں کو ایسی قربانی دینا پڑی کہ الحفیظ و الاماں.............اور آخر کار جارح سوویت یونین کا وجود تا قیامت کرہ ارض سے مٹ گیا۔

یہ بات بھی سچ ہے کہ یوکرین میں اس وقت دو سٹیک ہولڈرز اپنا اپنا کام دکھا رہے ہیں ان میں ایک تو یورپ کی سرمایہ دار یت(Capitalism)کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا روس کو اپنا ملجا و ماویٰ سمجھتا ہے،کیف جیسے طاقت کے مرکز میں جلوہ آرا روس نواز گروپ ہر حالت میں اپنے پڑوسی اور مربی روس کےساتھ جغرافیائی اتحاد کا بھی خواہاں ہے جسے مغربی طاقتیں قومی غلامی سے تعبیر کر رہی ہیں اور وزیر اعظم کے علاوہ عساکر کے سالار اعلیٰ کو باور کرا رہی ہیں کہ وہی آزاد اور اشتراکی یوکرین کے قومی مفادات کی محافظ ہیں کیونکہ انہوں نے ہی 24اگست 1991سابق سوویت یونین سے آزادی کے بعد اپنے قومی نمائندوں کی حکومت قائم کی تھی،موجودہ قائم مقام صدر الیگزنڈر ترچینوف سال رواں میں 23فروری کو بر سر اقتدار آئے جبکہ تین روز بعد قائم مقام وزیر اعظم ارسینی سینیوک کو کیف کا وزیر اعظم بنا دیا گیا،اس وقت یوکرینی قوم کو عجب صوتحال کا سامنا ہے کہ صدر تو روس نواز ہیں جبکہ وزیر اعظم اور عساکر کے سالار اعلیٰ مغرب کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں، یوکرینی پارلیمنٹ نے الحاق روس سے متعلق جو قرارداد منظور کی ہے اس کے پیچھے بھی صدر کا ہاتھ ہے، عالمی آزاد ذرائع تو اس بات کی تصدیق بھی کر رہے ہیں کہ صدر نے ہی روسی افواج کو دعوت دے کر اپنے ملک میں بلایا ہے، یوکرین کی 24 سیاسی پارٹیوں میں سے نصف کا موقف یہ ہے کہ ان کے ملک کو افغانستان نہ بننے دیا جائے اور روسی افواج کو واپس چلے جانا چاہئے مگر دیگر نصف کا خیال یہ ہے کہ چونکہ یوکرین روسی دولت مشترکہ کا رکن ہے اس لئے اسے اپنے سیاسی، اقتصادی اور سٹریٹیجک مفادات کیلئے روس کے ساتھ منسلک رہنا چاہئے، روس نواز ان پریشر گروپوں میں صدر الیگزنڈر کی کمیٹی آف یوکرین ووٹرز بھی شامل ہےجو مغربی اقدامات اور موقف کو ناجائز قرار دیتی آئی ہے۔

لمحہ موجود میں یوکرائن کی اقتصادی حالت بہت ہی خراب ہےاور وہ تقریباً 12ارب ڈالرز کے ساتھ دنیا کی رینکنگ میں 181ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ اس کے یہ ذخائر گزشتہ سال ساڑھے 14ارب ڈالرز تھے جو موجودہ حالات میں دو ارب ڈالرز سے زیادہ سکڑ چکے ہیں، برآمدات میں اس کی عالمی رینکنگ 48ویں نمبر پر ہےاور برآمدات کا حجم 71ارب ڈالرز رہا ہے مگر دوسری طرف درآمدات کا حجم برآمدات کے مقابلے میں انتہائی غیر متوازن ہےکیونکہ 2013میں یوکرائن کی درآمدات 87ارب ڈالرز رہی ہیں اس سلسلے میں اس ملک نے توانائی، آلات، مشینری اور کیمیکلز کی مد میں روس سے 32، چین سے 9، جرمنی سے 8، بیلا روس سے 6اور پولینڈ سے 4فیصد سے زائد درآمدات کی ہیں، حالیہ واقعات سے یوکرینی کرنسی ہورینیہ (Hrynia)ڈالر کے مقابلے میں بھی کمزور ہوئی ہے، گزشتہ سال اس کی شرح تبادلہ 7.99 ڈالرز تھی جو سال رواں میں 8.02 فیصد ہو گئی ہے۔؎

مغربی مبصرین یوکرین کے حالیہ بحران کو پانچھ غیر حقیقی نظریات(Myths)کی صورت میں دیکھ رہے ہیں.........اولاًان کا خیال ہے کہ روس کی موجودہ قیادت یعنی ولادیمر پوٹن سابق سوویت یونین کی قیادت کا متبادل نہیں ہےاس لئے یوکرینی قیادت کو ان کے ساتھ کام کرنا، تعاون لینا یا دینا یا دست تعاون بڑھانا ضروری نہیں ہے،ان کا دوسرا خیال یہ ہے کہ روس کے توسیع پسندانہ عزائم میں کمی نہی آئی ہےجس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ روسی صدر پیوٹن عہد حاضر کے ہٹلر ہیں ، ان کا تیسرا خیال یہ ہے کہ امریکی صدر باراک اوبامہ کی لچکدار، نرم اور کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے ماسکو کے حکمرانوں کو یوکرائن جیسے آزاد اور خود مختار ملک میں مداخلت کا موقع ملا ہے، ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی یوکرائن میں روسی افواج کی مداخلت کے باعث مجرمانہ خاموشی بلکل اسی طرح کی ہے جیسے کہ انہوں نے سابق سوویت یونین کی 1956میں ہنگری میں مداخلت کے وقت اختیار کی تھی، ان کا چوتھا خیال یہ ہے کہ اگر شام میں بشارالاسد حکومت کیخلاف اقدامات کئے جاتے تو یوکرائن کو روسی جارحیت سے بچایا جا سکتا تھا، آخر میں ان کا استدلال یہ ہے کہ اب اس روسی خونیں فلم کا وقت آخر آ ہی گیا ہے جس کا سکرپٹ ماسکو میں بیٹھ کر لکھا گیا ہے اور جس کی موسیقی کیف اور کریمیا کی سسکتی اور دم توڑتی قوم کے تاروں پر کمپوز کی جانیوالی ہے، اس ساری صورتحال پر مغرب سمیت ساری دنیا میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یوکرینی بحران اب کیا صورت اختیار کرے گا ؟ کیا روس مغرب کے مطالبہ پر کریمیا سے اپنی فوجیں واپس بلا لے گا یا پھر یوکرینی سرزمین پر ایک اور افغانستان کی چھینٹے اڑاتی افغانستان کی لہو لہان کہانی دہرائی جائیگی...........؟
 

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Read More Articles by Mohammed Obaidullah Alvi: 52 Articles with 59132 views I am Pakistani Islamabad based Journalist, Historian, Theologists and Anthropologist... View More