مسلم قیادت وصحافت کی روش؛ ایک لمحۂ فکریہ

آج ہندستان کا سماجی و سیاسی ماحول انتہائی کش مکش اور تذب ذب کے عالم میں ہے۔ بالخصوص قومِ مسلم کی حالت تو بھیڑوں کے اُس ریوڑ کی طرح ہے کہ جس کا نہ کوئی رکھوالا ہے نہ چرواہا، اور نہ ہی کسی منزل کا پتا۔بس جو جیسے چاہ رہا ہے انہیں راستے لگا رہا ہے؛ اور یہ بے چاری بھولی بھیڑیں نہ جانے کس دھن میں ان کے منصوبو ں اور عزائم کی تکمیل کی بھینٹ چڑھے جارہی ہیں……تعلیمی و صنعتی شعبہ میں بھی ہندی مسلمانوں کو کچھ کم مسائل نہیں ہیں؛ اور ذراعتی میدان میں تو شاید ہی کوئی قابلِ ذکر گراف ہومسلمانوں کا۔نتیجہ یہ ہے کہ پوری قوم مسائل میں گِھری ہوئی ہے۔

وسائل و مسائل، نشیب و فراز، تنگی وفراخی اوربد حالی و خوش حالی تو زندگی کے لازمے ہیں؛ مگر وسائل و حکمت سے مسائل پر قابو پانا، محنت و لگن کے ذریعے پستی سے بلندی حاصل کرنااور بد حالی کو خوش حالی میں تبدیل کرنے کے لیے جدوجہد کرتے رہنابھی فطرت کا حصہ ہے۔ہمارے مسائل کم نہیں مگر وسائل بھی موجود ہیں۔آج ہم زندگی کے مختلف شعبوں میں رو بہ زوال ہیں مگر حکمت و تدبر سے عظمتِ رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔ضرورت جوش و جذبات کی بھی ہے اور ہوش کی بھی۔مگر ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بنامِ مسلم بہت سارے چہرے ، پارٹیاں اور تنظیمیں ہمارے گِرد پَنَپ رہی ہیں۔ شاید کسی کو ہم سے ہم دردی ہو۔مگر آثار و قرآئین اور مشاہدات و تجربات تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔اس بات پر اگر ہم تجزیاتی بحث کریں تو بات شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوتی جائے گی۔اس لیے صرف سیاسی رخ سے اپنا نکتۂ نظر پیش کیا جاتاہے۔

آج کی تاریخ میں سیاسی طور پر ہندستانی مسلمان سب سے زیادہ مظلوم اور مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ اس بات کا اعترف ان نام نہادسیکولرسیاسی پارٹیوں کو بھی ہے جن کی پیشانیوں پربھی مسلم کش فسادات کے بد نما داغ ہیں۔مگر ان میں بھی برائے نام مسلم لیڈران ہیں جو بزعمِ خود سیاسی پلیٹ فارم پر ہندی مسلمانوں کے ترجمان ، قائداور نہ جانے کیا کیا ہیں۔ اسی طرح کچھ سیاسی جماعتیں صرف مسلم مسائل کے حل اور اقلیتوں کے ہم درد کے بطور نمودار ہوئی ہیں؛کچھ لوگ مذہبی لبادہ اوڑھے سیاست میں کود پڑے؛اور کچھ جماعتیں ایسی بھی ہیں جو نیم غیر سیاسی اور نیم سیاسی ہیں مگر مسلمانوں کی نمائندگی کا دم خم بھرنے میں کسی سے پیچھے نہیں۔اس کے باوجود سب ایک دوسروں کو مسلمانوں کے مفاد اور عروج کے لیے خطرہ بتاتے ہیں حتیٰ کے ماضی سے دلائل بھی پیش کرتے ہیں …… اب ایسی صورتِ حال میں مسلمان کسے اپناہم درد مانے اور کسے مفاد پرست ؟…… الیکشن کے موسم میں تو برساتی مینڈکوں کی طرح مسلمانوں کے ہم دردپیدا ہوجاتے ہیں،اسی موسم میں مسلم مسائل نظر آتے ہیں ،اور ان کے حل کے لیے تحریکیں چلائی جاتی ہیں، تنظیمیں بنائی جاتی ہیں، گلی سے دلی تک کا زور لگاکر بتایا جاتا ہے۔

ان وقتی کارناموں کو عوام میں چرچا کرنے کے لیے صحافت کا سہارا لیا جاتا ہے۔اور آج کے اخلاقی تنزل بھرے دور میں ایسے نام نہاد صحافی بآسانی میسر آجاتے ہیں جو لفافوں کے عوض اپنے ’ہنر‘ کا ’جوہر‘ دکھاتے ہیں۔بظاہر مسلم مسائل کے حل کی کوشش کی خبر تحریر کی جاتی ہے مگر اپنے ’محسن ‘سیاسی لیڈروں کے ذاتی وسیاسی مفادکے تحت انہیں اجاگرکرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی۔ کڑی جدوجہد، مختلف احتجاجوں اور کئی طرح کی تحریکوں کے بعدجب کوئی مسئلہ حل ہوجائے تو اس کا کریڈٹ لینے والوں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے، تاکہ قوم اپنے ’’ہیروز‘‘کو پہچان لے۔پھر شروع ہوتا ہے اشتہار بازی اور اخبار بازی کا مقابلہ……انا للّٰہ و اناالیہ راجعون!

الغرض سیاسی طور پر مسلمان منتشر ہیں اور جہاں تک مسلم صحافت کا کردار ہے وہ اطمینان بخش نہیں۔ بلکہ مسلم سیاسی قائدین میں ایک بڑا طبقہ جوش و اشتعال کے آگے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ اور مسلم بالخصوص اردو صحافت بھی ایسی سطحیت اور جذباتیت کی زد میں معلوم ہوتی ہے۔الا ماشاء اﷲ!……اس لیے وقت اور حالات کا تقاضہ یہ ہے کہ مخلص اور درد مندمسلم افراد، قائدین اور زعما و صحافی حضرات سر جوڑ کر بیٹھیں۔یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان اس ملک میں اقلیت میں ہیں مگر یہ حقیقت بھی اپنے اندر اثر رکھتی ہے کہ مسلمان اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں جو اگر سیاسی طور پر متحد ہوجائے تواکثریت کے منتشر فیصلوں پر اقلیت کے متحدہ انتخاب کو فتح کا تاج پہنا سکتے ہیں۔مگر اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ مسلمانوں کا سیاسی نیٹ ورک اور نکتۂ نظر منتشر نہ ہونے پائے۔ مسلم ووٹوں کی تقسیم کا سب سے زیادہ فائدہ براہِ راست فرقہ پرستوں اور مفاد پرستوں کو پہنچتا ہے۔اس لیے بہر صورت اپنی سیاسی و صحافتی قوت کو مضبوط اور متحد کرنے کی از حد ضرورت ہے۔

Waseem Ahmad Razvi
About the Author: Waseem Ahmad Razvi Read More Articles by Waseem Ahmad Razvi: 84 Articles with 122275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.