منصفانہ انتخابات ناگزیر ہیں!

دنیا بھر میں جمہوریت کی نشوونما اور جمہوری نظام کے تسلسل کے لیے انتخابات نا گزیر تصور کیے جاتے ہیں۔ بد قسمتی سے پاکستان کی انتخابی اور جمہوری تاریخ قابل رشک نہیں ہے۔ ہمارے ہاں پہلے عام انتخابات 1970میں ہوئے یعنی قیام پاکستان کے 23 سال بعد۔ یہ انتخابات مارشل لاء کی چھتری تلے منعقد ہوئے۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے شیخ مجیب الرحٰمن کی جماعت عوامی لیگ نے اکثریت حا صل کی مگر فوج اور دوسری بڑی اکثریتی جماعت نے نتائج تسلیم نہ کیے۔ اسمبلی کا اجلاس بلانے کا علان ہوا مگر بعد میں تا ریخ منسوخ کر دی گئی۔ مشرقی پاکستان میں شدید احتجاجی لہر اٹھی تو وہاں ملٹری آپریشن کیا گیا۔ موقع غنیمت جانتے ہوئے بھارت نے اس صورتحال میں مداخلت کی اور آخر کار23 سال بعد منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات کا نتیجہ ملک دو لخت ہونے کی صورت میں سامنے آیا۔ دوسرے عام انتخابات 1977میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے تحت منعقد ہوئے۔اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی دھاندلی کا جواز بناتے ہوئے نتائج مسترد کر دیئے ۔ نو سیاسی جماعتوں پر مشتمل، گرینڈ اپوزیشن الائینسPNA کی جانب سے حکومت مخالف احتجاجی تحریک شروع کی گئی۔ ابتر ملکی صوتحال کو جواز بناتے ہوئے فوجی مداخلت ہوئی اور یوں دوسرے عام انتخابات طویل مارشل لاء کے آغاز اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوئے۔ مارشل لاء کے دوران جب جنرل ضیاء الحق کو جمہوری لبادہ اوڑھنے کی حاجت ہوئی تو انہوں نے1985میں پرل پول رگنگ سے آراستہ غیر جماعتی انتخابات کا انعقاد کر ڈالا۔غیر جماعتی ہونے کی بنا پر انہیں عام انتخابات کی فہرست سے خارج تصور کیا جاتا ہے۔

ایک طرف تو یہ صورتحال تھی کہ مقررہ مدت پر بھی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا تھا ۔جبکہ 1988سے ہماری انتخابی تاریخ کا وہ دور شروع ہوا جب مقررہ مدت سے بہت پہلے منتخب حکومتوں کو رخصت کر کے بار بار انتخابات کروائے جانے لگے۔1988 سے 1999 کے دوران چار عام انتخابات منعقد ہوئے۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی یکے بعد دیگر اقتدار میں آتی رہیں۔ ہر بار ایک جماعت کی جیت پر مخالف جماعت نے انتخابی نتائج مسترد کر دئیے اور دھاندلی کے الزامات عائد ہوتے رہے۔ ان چاروں حکومتوں میں سے کوئی ایک حکومت بھی اپنی مدت اقتدارمکمل نہ کر سکی اور ہر حکومت کو اقتدار سے زبردستی علیحدہ کیا جاتا رہا۔ اسٹبلشمنٹ کی ایماء پر حکومت کی جبرا رخصتی پر ہر بار مخالف جماعت کی جانب سے مسرت کا اظہار کیا جاتا رہا۔ بہرحال اقتدار کی میوزیکل چئیر کے باوجود ،ان گیارہ سالوں میں لولی لنگڑی ہی سہی مگر جمہوریت چلتی رہی۔تاہم 1999میں آخری حکومت کی رخصتی ایک بار پھرطویل مارشل لا کی راہ ہموارکر گئی۔تقریبا تین برس بعد2002 میں جنرل مشرف کی آمریت تلے ہونے و؂الے عام انتخابات شدید دھاندلی کا مظہر تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کے جو" ثمرات "پاکستا ن اور پاکستانی عوام نے سمیٹے وہ تا ریخ کا حصہ ہیں۔

موجودہ حکومت 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یہ انتخابات منصب صدارت پر قابض پرویز مشرف کی زیر نگرانی ہوئے۔ جلا وطن رہنماؤں محترمہ بینظیر بھٹواور میاں نواز شریف کی وطن واپسی اور بعد ازاں انکی جماعتوں کے برسر اقتدار آنے پر جمہوریت کی اصل روح کی بحالی کی صورت پیدا ہوئی۔ یہ پہلو انتہائی حو صلہ افزا اور مثبت ہے کہ مصلحتا ہی سہی مگر جمہوری نظام چلتا رہا اور تمام تر کمزوریوں اور خامیوں کے با وصف موجودہ حکومت اپنی مدت اقتدار کی تکمیل کے قریب ہے اورآئندہ انتخابات کا انعقاد چند ہی ماہ کی دوری پر ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں منعقد ہونے والے کسی ایک انتخابات کے نتائج بھی مخالف جماعتوں کی طرف سے تسلیم نہ کیے گئے۔ہر بار کبھی نگران حکومتیں متازعہ رہیں اور کبھی الیکشن کمیشن وجہ نزاع بنا رہا۔ اس حوالے سے آئندہ انتخابات بے حد اہمیت کے حامل ہیں ۔ 2006 میں محترمہ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے میثاق جمہوریت میں جمہوریت کی بحالی کے حوالے سے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ایک آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے قیام کے لئے جدو جہد کا ارادہ کیا تھا۔ غا لبا اسی تناظر میں تمام تر اختلافات کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے متفقہ طور پر اٹھارویں ترمیم منظور کی گئی اوربعد ازاں فخر الدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمیشنر تقرری عمل میں آئی جو شفاف انتخابات کی سمت پہلا قدم ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ مرکز اور صوبوں میں غیر جانبدار نگران حکومتوں کے قیام کے معاملے پر بھی حکومت اور اپوزیشن اسی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کریں گی۔ اس حوالے سے متفقہ آئینی ترمیم بھی کی جا چکی ہے جو کہ قابل تحسین ہے۔

2013 میں ہونے والے انتخابات کو معتبر اور ان کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ عالمی برادری کے لیے بھی قابل قبول بنانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں، الیکشن کمیشن، عدلیہ، میڈیا، فوج اور سول سوسائٹی کو ملکر سعی کرنی چاہیے ۔ تاہم اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے ۔اول تو الیکشن کمیشن براہ راست الیکشن کا ذمہ دار ہے۔ دوئم تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے چیف الیکشن کمیشنر فخر الدین جی ابراہیم کی زیر قیادت قائم الیکشن کمیشن پر یکساں طور پر اظہار اعتماد کیا جا چکا ہے۔یہاں تک کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے متفقہ فیصلوں اور اتفاق رائے کو ’’مک مکا ‘‘ کا نام دینے والے حلقوں کی جانب سے بھی اس تعیناتی کا خیر مقدم کیا گیا۔ یہ اظہار اعتمادالیکشن کمیشن اور فخر الدین جی ابراہیم کیلئے باعث اطمینان ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر بھاری ذمہ داری بھی عائد کرتاہے ۔لہٰذا شفاف انتخا بات کا انعقاد یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کو اپنی آزادی، خود مختاری، اور غیر جانبداری کے ساتھ ساتھ اپنے صوابدیدی اختیارات کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے روائتی ڈگر سے ہٹ کر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کے زیر اہتمام تمام سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں بھی بہت سی تجاویز سامنے آچکی ہیں ۔

الیکشن کمیشن کے سامنے ذمہ داریوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ امن و عامہ کی صورتحال بے حد مخدوش ہے۔ فاٹا میں خانہ جنگی ، بلوچستان میں شورش، کراچی کی خونریزی ، خیبر پختونخواہ کی غیر معمولی صورتحال اور ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کے تناظر میں موثر اقدامات سامنے آنے چاہیئں تا کہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے۔ چیف الیکشن کمشنر نے اپنی گزشتہ پریس کانفرنس میں اس تمام صورتحال کے باوجود بھی انتخابات کا انعقاد ناگزیر قرار دیا ہے۔ دوہری شہریت، ادھوری ووٹر لسٹوں، کراچی میں مسلح گروہوں کی پولنگ کے دوران مداخلت، اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے نتائج پر اثر انداز ہونے کے تمام راستے مسدود کرنے کے حوالے سے بھی اقدامات ضروری ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر ایک دوسرے کی جانب سے حکومتی منصوبوں کی آڑ میں اپنی جماعتوں کی سیاسی مہم چلانے کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔ اسکا تدراک بھی کیا جانا چاہیئے۔ سیکرٹ فنڈ کا استعمال اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کی محکمہ اطلاعات کی جانب سے اشتہارات کی غیر مساوی تقسیم کی بھی ضابطہ بندی ہونی چاہیئے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے ریاستی انتظامی مشینری الیکشن کمیشن کے تابع کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔ جو غور طلب ہے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس الیکشن کمیشن کا ساتھ دینے کیلئے فعال عدلیہ ، موثر میڈیا، بیدار سول سوسائٹی ، مہم جوئی سے گریزاں فوج بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے موجود ہے۔ بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی انتخابی تاریخ قابل رشک بنانے کا یہ سنہری موقع میسرہے۔اگر انتخابی عمل مشکوک ٹھہرا یا عوامی سطح پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا تو یہ بحرانوں میں گھرے پاکستان کے لئے ایک ایسا بحران ہوگا جو ہمیں ایک بار پھر جمہوریت سے محروم کرکے ایک بند گلی میں کھڑے کر دے گا۔

Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.