کالاباغ ڈیم

کالا باغ ڈیم پاکستان کی تاریخ اور اس کے حال کا ایک ایسا ایشو ہے جس کو حل نہیں کیا جا سکا۔ ہر دور میں سیاستدان اور حکومتیں آئیں اور اپنا دور حکومت پورا کر کے اقتدار سے چلی گئیں لیکن کالا باغ ڈیم کا ایشو حل نہ ہو سکا۔ جب بھی کوئی حکومت اقتدار میں آئی انہوں نے سب سے پہلا کام ڈیم کے ایشو کو اقتصادی ایشو بنانے کی بجائے ایک سیاسی ایشو کے نام سے عوام کے ذہنوں میں متعارف کروانے کی کو شیشیں جاری رکھیں اور اب تو ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ اس انتہائی سنجیدہ مسئلہ کو مفحکہ خیز شکل دے دی گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم کا ذکر ہو تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ پاکستان بننے سے بھی پہلے کا منصوبہ ہے کیونکہ ہر دور حکومت میں اس منصوبے کا اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہے۔

پاکستان بننے کے بعد ہمارے قائد محمدعلی جناح نے بھی کابینہ کے اجلاس میں کہا تھاکہ:’’ میانوالی کے قریب ایک ڈیم بننا چاہییـ‘‘۔ہر حکومت نے ڈیم بنانے کے عزائم کا اظہار اپنے اخباری بیانات میں اتنا کر دیا کہ یہ منصوبہ تعمیری نہیں بلکہ سیاسی لگنے لگا ہے۔ جیسے سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں اپنے بیان میں عوام الناس کو مخاطب کر تے ہوئے کہا تھا:ـ ـ’’کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ شہر کے ڈوب جانے کا تاثر محض پاگل پن ہے میں پوری ایمانداری سے کہتا ہوں کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں جو الزامات لگائے گئے ہیں وہ جھوٹے اور گمراہ کن ہیں۔ بعض عناصر کالا باغ ڈیم کو اپنی سیاست چمکانے کے لیئے استعمال کر رہے ہیں‘‘۔

سابق صدر نے یہ بیان تو دیاپھر بعد میں سابق صدر صاحب دیگر سیاسی معالات میں ایسے الجھے کے اپنے دور حکومت کے احتتام تک کوئی بھی فیصلہ کالاباغ ڈیم کے لیئے نہ کر سکے جس کا ہونا بہت ضروری تھا اور ملک کو روشن خیال مگر معتدل خیال بنانے میں مصروف ہو گئے۔ کالاباغ ڈیم حکومت پاکستان کا پانی کو ذخیرہ کر کے بجلی کو پیدا کرنے اور زرعی رمینوں کو سیراب کرنے کا ایک اہم منصوبہ ہے جس کو پایا تکمیل پر پہنچانا حکومت کا کام ہے عوام الناس کا نہیں۔

1953ء میں ولڈ بینک سے 10ارب کا قرضہ لیا گیا اور ان سے ڈیم کے بننے کے لیئے مشینری منگوائی گئی اور کام شروع کر دیا گیا 1956-1957ء میں اس منصوبے کے متنازی ہونے کی وجہ سے ڈیم کا کام بند ہو گیا اس ڈیم کے پانی کا بہاؤ تین دریاؤں کابل، سوات اور سندھ سے ہو کر ملتا ہے۔ اور اب اس 10 ارب کا سود بھی کتنے گناہ بڑھ چکا ہے اور تمام مشینیں ناکارہ ہو چکی ہیں ۔

ایوب خان نے 1967 ء میں اس منصوبے پر عمل کرنا چاہا تھالیکن ممکن نا ہو سکا۔ اس کے علاوہ جنرل یحییٰ خان، ذولفقار علی بھٹو ، جنرل ضیاء، بے نظیر بھٹو ، میاں نواز شریف، پرویز مشرف ، پرویزالہیٰ، صدر زرادری نے بھی بے حد کوشش کی کہ کالا باغ ڈیم بن جائے لیکن منصوبہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔1973ء اور1974ء میں تربیلا اور منگلا ڈیم بنایا گیاتربیلا 36000میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور منگلا 1000میگاواٹ بجلی پیدا کرتاہے۔دریائے سندھ پر کالا باغ کی تعمیرکا مقصد دریائے سندھ کا پانی روکنانہیں ہے بلکہ اس کا مقصد بارشوں اور سیلاب کے پانی کو کالاباغ ڈیم میں جمع کر لینا ہے اور اس ڈیم سے پورے پاکستان کو پانی اضافی طور پر فراہم کیا جا سکے جس کی زیادہ تر مقداد بہہ جاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم پاکستان کی آٹھارہ کروڑ عوام کت لیئے بہت ضروری ہے مگر اس سے بھی زیادہ چاروں صوبوں میں اتفاق رائے اور یکجہتی ہے۔ ڈیموں کی تعمیر سے پانی کے ذخائر کے ساتھ پیدا ہونے والی بجلی پچاس ساٹھ پیسے فی یونٹ ہو گئی۔ کالا باغ ڈیم سے پنجاب کے 80ہزار جبکہ خیبر پختونخواکے صرف 35ہزارافراد متاثر ہوں گیااورپنجاب کی 30ہزار ایکڑ اور خیبر پختونخواکی 3ہزار ایکڑ اراضی متاثر ہو گئی۔83000 لوگ ایسے ہیں جن کو یہ علاقہ چھوڑ کے جانا پڑے گا45800پنجاب کے اور 34500 خیبر پختونخواکے ہوں گیاور اگر سیلاب آئے تو 29000 ایکڑ پنجاب کا اور 100 ایکڑ خیبر کا علاقہ متاثر ہو گا ۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت پانی کی سب سے زیادہ کمی صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں ہے۔سندھ کے نجی علاقے بدین، ٹھٹھہ،ٹنڈومحمد خان، ٹنڈو علہیار، سنگھار، میرپور، عمرکوٹ اور تھر ایسے علاقے ہیں جہاں پر پینے کا پانی صرف 6مہینے آتا ہے اور باقی 6مہینے بہت مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔

خیبر پختونخواکا سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ اس کا ڈائیزائن نوشہرہ اور صوابی کے لئیے موزوں نہیں ہے اس جھیل سے نوشہرہ اور صوابی کے علاقے ڈوب سکتے ہیں کیونکہ اس ڈیم کی اُونچی خطرناک حد تک اُونچی ہے اس سے بہت سی بڑی آبادیوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گئی اس بات پر وفاقی حکومت نے ڈیم کا ڈیزائن بھی دوبارہ بنوایا مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نا ہوا اور دوسری طرف صوبہ بلوچستان کی عوام بھی اس ڈیم کے حق میں نہیں ہے ۔اس کی بڑی وجہ سندھ کا بلوچستان کو پانی فراہم کرنا ہے۔ اس لیئے جب تک سندھ ڈیم کے بننے میں حامی نہیں دے گابلوچستان بھی ڈیم کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں کرئے گا۔ سب سے زیادہ اختلاف رائے سندھ کا رہا ہے اور ہر دور حکومت میں سندھ اسمبلی کالاباغ ڈیم کے خلاف قرارداد پیش کرتی رہی ہے۔ جب ڈیم کی جھیل کو پانی سے بھرا جائے گااور اس میں پانی ذخیرہ کیا جائے گا تو دریائے سندھ میں پانی کم ہو جائے گا جس سے سندھ کی کاشت کار کو پانی کم ملے گا یہ صوبہ سندھ کے لوگوں کا اعتراز تھا۔ڈیزائن کے مطابق کالا باغ ڈیم کے پانی کا بہاؤ جہلم سے ہوتا ہوا اوکاڑہ، بھاولپور، ساھیوال ، ڈیڑہ غازی خان اور بھاولپور دست کی 3500000ایکڑ زمین کو سیراب کرئے گا سندھ کا کہنا ہی کہ جب پانی تمام صوبوں کے لیے ذخیرہ کیا جائے گا تو پانی کا بہاؤ صرف پنجاب کے لیے ہی کیوں؟ سندھ کا کہنا تھا کہ دریائے سندھ سے پانی لیا جائے پھر اس کو ذخیرہ کرنے کے بعد اس سے بجلی پیدا کی جائے اور پھر اس پانی کا بہاؤ دریائے سندھ کی طرف کیا جائے اور باقی تمام صوبوں کو ان کے حصے کا پانی دیا جائے۔

کالاباغ ڈیم انڈس ریور کے اُوپر ڈیزائن کیا گیا ہے دریا کا پانی تمام صوبوں کو تقسیم کیا گیا ہے، مختلف ادوار میں یہ منصوبہ بدلتا رہا مگر اب منصوبے کے تحت پانی کی تقسیم کچھ یوں ہے: پنجاب 37%،سندھ 37%،خیبر پختونخوا6%اور بلوچستان 9%،کوٹری ڈاعون سٹریم5%،لائن لوسیسز8%۔ یہ فارمولا تمام وسائل کی بنیاد پر بنایا گیا تھاپنجاب کے پاس پانی اس لیے کم ہے کیونکہ منگلا ڈیم ،زیرزمین پانی اور باقی پانچ دریاؤں کا پانی میٹھا ہے جبکہ سندھ کے پاس صرف دریائے کا ہی آسرا ہے جس کا بھی پانی میٹھا نہیں ہے۔ 1976ء میں دریائے سندھ سے چشمہ جہلم سے ایک نہر نکالی گئی جس کی منظوری زولفقار علی بھٹو نے دی تھی اور ایک ایگریمینٹ ہوا تھا جس کے تحت یہ نہر پانی صرف جولائی سے ستمبر کی درمیان لے سکتی ہے جب دریا میں تگیانی ہو۔ یہ منصوبہ 1984ء تک ٹھیک تھا اور تب تک سندھ صرف اس کے ڈیزائن میں تبدیلی چاہتا تھا لیکن 1984ء میں پنجاب نے بغیر اجازت کے اس کو اپریشنل کر دیاجس کے نتیجے میں سندھ نے اپنا ارادہ بدل دیااور کالا باغ ڈیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔

شمس المک جو واپڈا کے چیئر مین بھی رہے ہیں اور پانی کی سائنس کے بہت بڑے عالمی سطح پر عالم بھی سمجھے جاتے ہیں انہوں نے ایک تجویز پیش کی کہ صوبہ خیبر میں اس سوال پر ریفرنڈم کروایا جائے ۔ اگر اس صوبے میں صرف پانچ فیصد ووٹ لینے والی پارٹی اس ڈیم کے خلاف ہے تو اس کا واحد حل ریفرنڈم ہی ہے ۔ جب انگریزوں نے برصغیر کو آزادی دی تو اس صوبے میں ریفرنڈم کروایا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ۔ اسی طرح کا ریفرنڈم کالا باغ ڈیم کے لیئے بھی کروایا جا سکتا ہے اس ڈیم کا سب سے بڑا فائدہ خیبر کو ہی ہو گا۔کچھ کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم کا نام بدلنے سے بھی یہ تنازعہ ختم ہو سکتا ہے۔ ماضی میں وزیراعظم نواز شریف نے مئی 1998ء میں جب ایٹمی دھماکہ کرنے کے بعد تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ:’’جیسے میں نے ایٹم بم بنایا ہے اسی طرح کالاباغ ڈیم بھی بنا دیں گے‘‘۔یہ تو ماضی میں ہوا اب دیکھنا یہ ہے کہ حال میں وزیراعظم نواز شریفکب اپنے وعدے کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کو کالا باغ ڈیم کا تحفہ دیں گے جس سے عوام الناس کی خوشحالی جڑی اور فلاح و بہبود جڑی ہے۔

پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے کم سے کم 70%پاکستان کی عوام کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ زراعت کی ترقی اور فروغ کے لیئے آب پاشی کا قابل انحصار نظام ازحد ضروری ہے۔ ہمارے پاس دریاؤں کا جو پانی ہے وہ نا کا فی ہے کالا باغ ڈیم کے بننے سے پانی کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے سستی بجلی ڈھائی سے تین یونٹ میں بنائی جا سکتی ہے جو کہ اب 16سے 22روپے فی یونٹ بنائی جا رہی ہے۔اس ڈیم میں 30بلین پانی ذخیرہ ہو سکتا ہے۔ برف کے پگھلنے سے جو پانی ضائع ہوتا ہے اور پھر بڑھتا ہوا سیلاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس طرح کے حادثات سے بچا جا سکتا ہے اور ایسے پانی کو رستے میں روک کر پانی کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت جس نے مقبوضہ کشمیر سے آنے والے تمام دریاؤں اور ندی نالوں کا پانی روک کر ڈیم تعمیر کر رہا ہے جس میں سے بگھلیار ڈیم جو کے چناب پر بنایا گیا ہے اور کشن گنگا دریائے نیلم پر بنایا جا رہا ہے بھارتی حکومت پاکستان کی طرف آنے والے پانی کے ہر ایک قطرے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پانی زندگی ہے اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت بھارت کی شہ پر کی جا رہی ہے اس لیے کہ یہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔

کالا باغ ڈیم پاکستان کی ضرورت ہے لیکن ان مسائل کی وجہ سے تعمیر کا مرحلہ ابھی تک زیر بحث ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اندرون ملک بہت سے لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ منگلا اور تربیلا ڈیم کے بننے کے وقت بھی بہت سے لوگوں کو ہجرت کرنا پڑی تھی اور حکومت نے اکثر لوگوں کو معاوضے نہیں دیئے ، اکثر لوگوں کو مالکانہ حقوق نہیں ملے ، اور ان لوگوں کو زمین دینے کے جو وعدے کیے گئے ان کو بھی پورا نہیں کیا گیا ۔اب کالا باغ ڈیم کی وجہ سے بھی ان لوگوں کو بھی نقل مکانی کرنا پڑے گئی لیکن ان کے ساتھ کیے گئے کئی وعدے پورے ہوں گئے یا پھر سے اسی طرح تینوں صوبے اس کے خلاف کھڑے رہیں گئے ۔ بہتر یہی ہے کہ پاکستان ولڈ بینک یا عالمی عدالت کی اس سلسلے میں رہنمائی لے اور اس موقع پر پاکستان کی عوام کی یکجہتی ہی ہے ، جو سب سے زیادہ اہم ہے۔

Javariya Ijaz
About the Author: Javariya Ijaz Read More Articles by Javariya Ijaz: 2 Articles with 1019 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.