دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے

دور جدید میں کسی بھی ملک کے اقتصادی پہیے کو ترقی و خودانحصاری کی جانب رواں دوا ں رکھنے کے لیے توانائی کی اہمیت مسلمہ ہے ۔ توانائی میں خودکفالت ہی کسی ملک کی معاشی خودانحصاری کی ضمات دے سکتی ہے ۔اﷲ تعالی نے روئے ارض پہ بے شمار نعمتوں کو انسان کے لیے پیدا کیا ہے اور تمام تر مادی اشیا ء کو اسکے لیے مسخر کیا ہے تاکہ وہ ان نعمتوں کو کام میں لائے اور اسکی بندگی کا حق ادا کرے ۔ اﷲ کی یہ نعمتیں قدرتی وسائل ہیں جنکے مثبت استعمال سے انسان ضروریات زندگی حاصل کرتا ہے اور اپنی زندگی کو پرسکون بناتا ہے ۔ دور جدید کی انتہائی اہم و بنیادی ضرورت توانائی کے حصول کے لیے عموماًپانی ، معدنی تیل، قدرتی گیس اور کوئلے جیسی قدرتی نعمتوں کو ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسکے علاوہ آج کل جوہری توانائی کو بھی توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ گردانا جاتا ہے ۔دنیا کے ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں قدرتی گیس و معدنی تیل کے ذخائر رواں صدی کے نصفِ ثانی تک معدوم ہو جائیں گے اسی لیے وہ توانائی کے حصول کے لیے متبادل ذرائع تلاش کر رہے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ نے ہمیں وطن عزیز پاکستان جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے اگر اسے قدرتی وسائل کی فراوانی کے اعتبار سے جنت سے تشبیہ دی جائے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا مگر ہمارے مقتدر طبقے کی عاقبت نا اندیشی کی وجہ سے یہ خطۂ ارض مسائلستان بنا ہوا ہے ۔ ہر نوع کے قدرتی وسائل سے بہرہ مند ہونے کے باوجود وطن عزیز توانائی کے بحران کا بری طرح شکار ہے ، گھروں کے چراغ گل ہیں سڑکوں اور گلیوں میں تاریکی کا راج ہے ، بازار اور تجارتی مراکز بدحالی کا شکار ہیں صنعتوں اور کارخانوں کے پہیے رکے ہوئے ہیں اور غربت ہر قریہ ہر گاؤں رقص کناں ہے ۔

پانی کوتوانائی کے حصول کا سب سے بنیادی ذریعہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔ آبی ذخائر کو یکجا کر کے اس سے توانائی کا حصول قدیم اور ارزاں طریقہ ہے۔ پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے سدا بہتے دریا عطا کیے ہیں جن کی موج رواں میں توانائی کا خزانہ پوشیدہ ہے ۔ ان دریاؤں پہ ڈیموں کی تعمیر سے تقریباً50000میگاواٹ بجلی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ہم مجموعی طور پر 6654 میگاواٹ پن بجلی حاصل کرنے کا انتظام کر پائے ہیں تاہم پن بجلی کے موجودہ منصوبوں سے حاصل کردہ بجلی عموماً 2414 میگاواٹ سے 6654 میگاواٹ کے درمیان ہی رہتی ہے ۔ ملکی کل پیداوار میں پن بجلی کا تناسب 1990 تک 70فیصد تھا جو گھٹ کر 30فیصد رہ گیا ہے ۔ اور خشک سالی کے دنوں میں تو یہ 20فیصد سے بھی کم رہ جاتا ہے ۔ یہ بات یاد رہے کہ اس تناسب میں کمی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ پیداواری صلاحیت کم ہو گئی ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ اس صلاحیت میں اضافہ نہیں کیا گیا اورتیل سے بجلی پیدا کرنے والے گران قیمت منصوبوں پہ اکتفا کیا گیا ۔پن بجلی کے بڑے منصوبے فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں لگائے گئے اسکے بعد کی حکومتوں نے اس جانب خاطرخواہ توجہ نہیں دی ۔بڑے منصوبوں کی تعمیر سے توانائی حاصل کرنے کے بجائے انہیں صوبائی منافرت کا ذریعہ بنا کر ووٹ حاصل کیے جاتے رہے اور چھوٹے منصوبے افسر شاہی کی شاہ خرچیوں اور کمیشن مافیا کی نظر ہوتے رہے ۔ دریائے سندھ اور اسکے معاون دریاؤں پہ کئی چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کرنے کی گنجائش ہونے کے باوجود انتہائی سردمہری کا مظاہرہ کیا جا رہاہے ۔ اگر ڈیم نہ بھی بنائے جائیں تب بھی ملک کے پہاڑی علاقوں میں ندیوں پہ اور میدانی علاقوں میں نہروں پہ پن چکی نمابجلی گھروں کے جابجا جال سے خاطرخواہ مقدار میں بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔ مقتدر طبقے اور افسر شاہی کے باہم گٹھ جوڑ نے تیل سے بجلی پیدا کرنے والے انتہائی مہنگے منصوبے شروع کیے جو غریب عوام پہ بے پناہ بوجھ بھی ہیں اور ان کی غربت کے ساتھ کھلا مزاق بھی۔

دنیا میں توانائی کے حصول کے لیے کوئلے کہ بھی اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے ۔ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اسوقت 929ارب ٹن کوئلے کے ذخائر ہیں۔ پاکستان میں 185ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں جو دنیا کا تیسرا بڑا ذخیرہ ہے ۔پاکستان میں موجود کوئلے کے یہ ذخائر 400ارب بیرل تیل کے برابر ہیں۔بالفاظ دیگر یہ ذخائر سعودی عرب اور ایران کے میں پائے جانے والے تیل کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں۔ دنیا بھر میں مجموعی طور پر کوئلے سے حاصل کردہ بجلی کا تناسب 40فیصد ہے ۔ جبکہ ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ اتنی بڑی نعمت ہاتھ میں ہونے کے باوجود ہم کوئلے سے محض 200 میگاواٹ بجلی حاصل کر رہے ہیں جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔ اگر ہم قدرت کے اس تحفے کا صحیح استعمال کریں تو ہم غیرملکی تیل پہ اٹھنے والے خرچ سے بھی بچ سکتے ہیں اوراپنے وسائل کو بروئے کار لا کر عوام کو سستی بجلی فراہم کر سکتے ہیں ۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت نے صحیح سمت میں پہلا قدم اٹھایا ہے جسکے تحت 1000میگا واٹ بجلی کے منصوبے کا افتتاح کیا گیا ہے ۔ اگر اس میں پیش رفت جاری رکھی جائے تو گیس اور تیل کو مکمل طور پہ کوئلے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔

پاکستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہے اسے مشرق کہا جاتا ہے اور مشرقی ممالک کی خوبی یہ ہے کہ یہاں سورج اپنی آب و تاب سے چمکتا ہے ۔ پاکستان میں ہر طرح کا موسم پایا جاتا ہے اور ہر موسم میں سورج کی کرنیں یہاں نور بکھیرتی ہیں ۔ لیکن وہی ہماری بد قسمتی اور مقتدر طبقے کی نااہلی کہ ہم اس نعمت کو بھی حصول توانائی کا ذریعہ بنانے میں ناکام رہے ہیں ۔ پاکستان میں اوسطاً 19جاؤل فی مربع میٹر سالانہ کے حساب سے سورج کی شعائیں پڑتی ہیں ۔ اس لحاظ سے پاکستان میں شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ۔ اگر بنجر اور غیر آباد رقبے کو شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو اس سے حاصل کردہ بجلی تمام دنیا کو فراہم کیا جا سکتا ہے تاہم یہ ٹیکنالوجی مہنگی ہے ۔ اگر حکومت یہ لازم کر دے کہ شہری علاقوں کی رہائشی سکیموں میں ہر عمارت اپنے لیے شمسی توانائی کا بندوبست کرے تو اس سے ہر مکان اور دکان بجلی کے معاملے میں خودکفیل ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح دنیا میں ہواکو بھی توانائی کے حصول کا ذریعہ مانا گیا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں ہوائی بجلی بھی حاصل کی جا رہی ہے ۔ پاکستان کے ساحلی علاقوں کی بادنسیم کو توانائی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔اب تک کے حکومتی سروے کے مطابق صرف سندھ کے ساحلی علاقوں میں مجموعی طور پر 11000میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجودہے ۔ اسی طرح ملک کے شمالی علاقوں اور آزادکشمیر میں ہوائی چکیوں(بادمیل) کے ذریعے بجلی کی بڑی مقدار پیدا کی جاسکتی ہے ۔باقی تمام ذرائع سے حاصل کردہ توانائی میں ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ موجود رہتاہے جو ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ شمسی توانائی اور بادمیلی توانائی سے حاصل کردہ توانائی میں ماحولیاتی آلودگی کا خطرہ نہیں رہتا۔

پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے جہاں مادی وسائل کی فراوانی عطا کی ہے وہا ں باصلاحیت دماغ کے حامل اہل علم وفن بھی عطا کیے ہیں انہی باکمال افراد کی جہد مسلسل کی بدولت پاکستان دنیا کی ساتویں جبکہ ملت اسلامیہ کی واحد جوہری قوت بناہے ۔ پاکستان نے دفاعی میدان میں اپنی جوہری صلاحیت کا لوہا منوا لیا ہے لیکن بدقسمتی سے یہی جوہری صلاحیت بجلی کے بحران کو کم کرنے میں استعمال نہیں ہو رہی۔ دنیا کی مجموعی توانائی میں جوہری توانائی کا حصہ 16فیصد ہے جبکہ وطن عزیز میں اس صلاحیت سے محض 812 میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جو ملکی پیداوار کا 4فیصد ہے ۔ پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ ایٹمی صلاحیت کو حصول توانائی میں نمایاں حصہ دے تاکہ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکے ۔
پیداوار میں فقدان کا رونا ہی کیا کم ہے کہ اس پہ مستزا بجلی چوری اور د دوران ترسیل بجلی کا ضیاع بھی وبال جان بنے ہوئے ہیں ۔ ملک کے بڑے شہروں میں حکومت کے منظور نظر لوگ اپنی آسائشیں پوری کرنے کی خاطر ملکی خزانے کو لوٹ رہے ہیں اور انکی دیکھا دیکھی عام افراد بھی اس دھندے میں ملوث ہیں ۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے افراد نے حکومت کی نا انصافیوں سے بدلہ لینے کا یہ آسان حل ڈھونڈ لیا ہے کہ توانائی کو حسب آرزو استعمال میں لایا جائے اور بل بھی ادا نہ کیا جائے تادیبی کاروائی پر احتجاج اور توڑپھوڑ کی جائے ۔ بعد ازاں محکمے کے افراد کچھ لے دے کر بل معاف کر دیتے ہیں اور پہلے سے بل ادا کرنے والے صارفین کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں ۔ یہ ظلم پہ ظلم کا سلسلہ ہے جسکی وجہ سے ملک میں لوڈشیڈنگ ہے صنعتیں مفلوج ہیں اور لوگ دن بدن بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں ۔

اگر وسائل اور مسائل کا تقابلی جائزہ لیا جائے تویہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہم وسائل کے کوہ ہمالیہ پہ بیٹھ کر بھی مسائلستان میں رہ رہے ہیں۔ ہماری حکومتوں نے ان مسائل کے حل پہ کوئی خاطرخواہ توجہ نہیں دی اور کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ وطن عزیز کی بھولی بھالی عوام نے رہزنوں کو اپنا رہبر گردانا اور ملک کی زمامِ کار ہمیشہ انہی ننگِ وطن افراد کے ہاتھوں میں تھماتے رہے اور یہ حکمران دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت سمیٹ کراپنی تجوریاں بھرتے رہے ۔ ساٹھ کی دھائی کے بعد توانائی کے حوالے سے کوئی دور رس منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ جب 90 کی دہائی میں اس مسئلے نے سر اٹھانا شروع کیا تو اس کے حل کے لیے پالیسیاں بنائی گئیں ۔ 1994، 1998 ، 2008، 2010 اور 2013 میں توانائی کے حوالے سے پالیسیاں ترتیب دی گئیں لیکن اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں اخلاص کا کوئی پہلو کہیں بھی نظر نہیں آتا ۔ بد انتظامی کا عالم یہ ہے کہ وافر مقدار میں ملکی وسائل ہونے کے باوجود اُن ذرائع سے توانائی کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے جو ملک میں دستیاب ہی نہیں اور اُن کی خریداری پہ ملک کا کثیر زرِمبادلہ صرف ہوتا ہے ۔ ملک کی 65فیصدیعنی13637میگاواٹ بجلی گیس اور تیل سے حاصل کی جا رہی ہے ۔ جب پیداوار بڑھانے کی بات آتی ہے تو نجی شعبے میں تیل سے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں پہ دولت لٹا دی جاتی ہے یاپھر کاروباری مصروفیات کو کم کر کے یا گھڑی کی سوئیاں آگے پیچھے کر کے یا ہفتے میں ایک سے زائد چھٹیاں منا کر بجلی بچانے کے ا نتہائی غیر مقبول ٹوٹکے آزمائے جاتے ہیں۔ اگر ہم متبادل ذرائع کے استعمال سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بناتے تو آج نہ صرف ہم توانائی کے شعبے میں خودکفیل ہوتے بلکہ اپنے ہمسایہ ممالک کے مسائل کو حل کرنے میں بھی ان کے ممد و معاون ہوتے ۔ اس نازک صورت حال میں حکمرانان وقت پہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک سے بدعنوای اور چوری کا خاتمہ کریں اور توانائی کے حصول کے لیے قومی اتفاق رائے پہ مبنی جامع و قابل عمل پالیسی ترتیب دیں جسکے تحت قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبوں کے ذریعے وطن عزیز کو توانائی مین خود کفیل بنایا جا سکے ۔اگر حکمرا ن سنجیدگی سے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہو جائیں تو وہ وقت دور نہیں کہ پاکستان دنیا میں ترقی کی علامت بن جائے اور اقبال کے اس خواب کو بھی تعبیر مل جائے :
دور دنیا کا میرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے
Raja Muhammad Attique Afsar
About the Author: Raja Muhammad Attique Afsar Read More Articles by Raja Muhammad Attique Afsar: 83 Articles with 90610 views Working as Assistant Controller of Examinations at Qurtuba University of Science & IT Peshawar.. View More