ایران اور 5+1کے درمیان کامیاب مذاکرات

ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے گزشتہ ایک دہائی سے شدید عالمی پابندیوں کا شکار رہا ہے۔1979کے اسلامی انقلاب کے بعد سے وہ مسلسل حالت جنگ میں رہا ہے عالمی طاقتوں کا یہ خیال رہا ہے کہ ایران اپنے اس انقلاب کو باقی ملکوں تک بھی پھیلائے گا اور اس کے ارادے وسعت کے ہیں خطے میں موجود عرب ملکوں کوبھی خدشہ رہا کہ یہ انقلاب ان کی ملوکیت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے اسی خیال کے پیش نظر اسے عراق کے ساتھ ایک طویل جنگ میں الجھائے رکھا گیا اور عالمی طاقتوں اور عرب ملکوں نے ایران پر کڑی نظر رکھی اسرائیل کے ذریعے بھی اس پر دباؤ قائم کیا گیا یہی وجہ ہے کہ ایران نے اپنے دفاع اور تحفظ کے لیے ایٹمی پراگرام شروع کیا ایران کا خیال تھا کہ وہ ایٹمی قوت حاصل کرکے عالمی طاقتوں کے ساتھ معاملات بہتر انداز میں طے کر سکتا ہے ہے ادھر امریکہ اور یورپ بھی یہ بات بخوبی سمجھتے رہے ہیں کہ ایران کے ایٹمی طاقت بننے سے دنیا میں طاقت کا توازن بھی بگڑ جائے گااسی لیے یہ طاقتیں ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف ہیں ایران کو بھی اپنا ایٹمی پروگرام جاری رکھنے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے اور اسے شدید عالمی اقتصادی پابندیوں کا سامنا رہا ہے ایران کی کوشش رہی ہے کہ وہ کسی طرح ان پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرلے مگر وہ ان میں کامیاب نہ ہو سکا درحقیقت ایران میں حکومت کے ساتھ ایک متوازی نظام وہاں کے اسلامی انقلاب کے سپریم لیڈر خامنائی کی قیادت میں بھی موجود ہے ایران میں کوئی بھی حکومت ان کی مرضی اور منشا کے بغیر نہ پالیسی بنا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی اہم اور بڑا فیصلہ کر سکتی ہے ایران کے حالیہ انتخابات میں کامیاب ہونے والے صدر حسن روحانی نے روز اوًل سے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ اس مسلے کا حل جلد سے جلد نکال لیں گے ایرانی عوام نے ووٹ بھی انہیں اسی مقصد کے لیے دیے تھے جبکہ دوسری طرف ایران کے روحانی پیشوا اپنے موقف پر قائم رہے بیس نومبر کو حالیہ مذاکرات کے شروع ہونے سے چھ گھنٹے قبل بھی انہوں نے مذاکرات کاروں کو خبردار کیا تھا کہ ایران جوہری توانائی کے حق سے کسی بھی صورت دستبردار نہیں ہو گا مگر ایران کی سیاسی حکومت نے بڑے تدبر اور سمجھداری کے ساتھ اس سارے معاملے کو نبھایا ہے اور روس کی مدد سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان کے ساتھ مذاکرات کو ابتدائی طور پر کامیاب بنایا ہے یہ اس خطے کے امن کے لیے ایک بڑی کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے اس معاہدے کے مطابق اب ایران بیس فیصد یورینیم افزدہ کرنے کے اپنے حق سے دستبردار ہوا ہے تاہم وہ معمولی نوعیت کی افزودگی جاری رکھ سکے گا اس کے عوض ایران کو ابتدائی طور پر سات ارب ڈالر کی امداد بھی ملے گی اور یورپ اور امریکہ میں اس کے اربوں ڈالر کے منجمند اثاثے بحال ہو جائیں گے مزید اس پر لاگو اقتصادی عالمی پابندیاں بتدریج کم ہو جائیں گی۔ یہ معاہدہ ایرانی عوام کے لیے کافی سود مند ثابت ہو گا اور ان کی معاشی تکالیف کو کم کرے گا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ معاہدہ خطے میں امن کی بھی ضمانت ہو گا حالیہ دس برسوں سے اس خطے میں جنگ کے جو بادل منڈلا رہے تھے وہ بلا شبہ اب چھٹ جائیں گے اس معاہدے کو کامیاب بنانے میں نئے ایرانی صدر کی کوششیں قابل تعریف ہیں مگر اس کے سات ساتھ روس کے سفارتی کردار کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے وسطی ریاستوں کے آزاد ہونے سے دنیا میں جو طاقت کا توازن بگڑا تھا روس اسے اب کامیاب سفارت کاری کے ذریعے دوبارہ متوازی بنا رہا ہے عالمی سیاست میں امریکہ کی تنہا اجاراہ داری کو روس بڑے نپے تلے انداز میں کم کرتا ہوا نظر آرہا ہے کزشتہ چند ماہ قبل جب امریکہ شام پر فوجی حملہ کرنے کے لیے تیار تھا تو اس وقت بھی روس نے کمال مہارت اور عمدہ سفارت کاری کے ذریعے اسے حربی اقدام سے باز رکھا تھاجنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیامیں تیزی سے بڑھتے ہوے امریکی اثر کو کم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور روس کو ابھی اور کوششیں اور کام کرنا ہے ہمارا ملک پاکستان بھی امریکی اقدامات کا شکار ہے اور اس کی فہرست کافی طویل ہے آج ہمیں بھی ایران سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے یہاں بھی مذہبی قوت ومقتدرہ اور سیاسی حکومت کی شکل میں دو متوازی نظام موجود ہیں ادھر بھی نواز شریف کو حسن روحانی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے امریکہ سے روس کی طرف منتقل ہونے میں ہماری مشکلات کم ہو سکتی ہیں اگرپاکستان عالمی سفارت کاری کے محاذپر روس کی مدد حاصل کر لے تو پھر یہاں بھی ڈرون حملے بند ہو سکتے ہیں اور نیٹوسپلائی کے معاملات دھرنوں کی بجاے مذاکرات کے میز پر بخوبی طے ہو سکتے ہیں بات صرف سمجھنے کی اور رخ بدلنے کی ہے -
hur saqlain
About the Author: hur saqlain Read More Articles by hur saqlain: 77 Articles with 55932 views i am columnist and write on national and international issues... View More