مذاکرات کا انجام ……قیام امن یا جنگ؟

وطن عزیز میں امن کا قیام سب کی خواہش ہے۔ کیونکہ قوموں کی ترقی کا راز امن میں ہی مخفی ہے۔ دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ جنگوں سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے نتائج کا مطالعہ کرلیا جائے۔ عربوں سے اسرائیل کی بدمعاشی عرف جنگ کا بغور جائزہ لے لیا جائے۔ آج تک الجھے ہوئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ مصر کو دیکھ لیجئے انور سادات مرحوم نے جنگ کے جنون سے باہر نکل کر سوچا تو اس نے کیپ ٹاون جاکر کر اسرائیل سے امن سمجھوتہ کرکے اپنی مصری امن خرید لیا-

اس وقت ہم سب جہادیوں نے انور سادات کو لعن طعن کیا ۔لیکن انور سادات کو ہماری زبان کلامی جمع خرچی کی واہ واہ کی داد تحسین سمیٹنے بجائے اپنے عوام کی ترقی ،خوشحالی کو عزیز تھی،ہماری پڑوسی اور بہترین ہمسایہ دوست چین بھی اسی نتیجے پر پہنچا کہ امریکہ سے ’’پنگا بازی ‘‘ترک کرنے میں ہی اسکی اور عالمی امن کی بقاء ہے۔سو اس نے بھی امریکہ سے دوستی کرنے کے آپشن کا انتخاب کیا۔ نفرت کی سلامت ’’ دیوار برلن ‘‘ گرادی گئی تو گرمن ایک نئی آن اور شان سے دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اسی لیے عالمی برادری ہم پر زور دے رہی کہ کہ ہم اپنے پڑوسی بھارت کے ساتھ باہمی اتفاق سے رہیں،خطہ ء کو عالمی امن کے لیے خطرے کا باعث نہ بننے دیں اور ہم عالمی امن کے خطرات سے بچانے کے لیے ہی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔

ایسی بیشمار مثالیں موجود ہیں جو یہاں احاطہ تحریر میں لائی جا سکتی ہیں لیکن مجھے اپنی معلومات کا رعب اور دبدبہ بٹھانا مقصود نہیں ہے۔بات ہو رہی ہے پاکستان میں قیام امن کی ……سو ہمیں خارجی سطح پر درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے ساتھ داخلی شورش کو بھی کنٹرول کرنا ہے تاکہ عوام کو سکھ چین سے جینے کے مواقع دستیاب ہوں،ملک ترقی کی جانب گامزن ہوسکے۔اور جو وسائل اور توانائیاں ہم داخلی شورش کے خاتمہ پر رف کر رہے ہیں انہیں عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کر سکیں۔طالبان سے مذاکرات کا مخالف کوئی بھی نہیں ہے۔سرخے ہوں یا سبزے سبھی قیام امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ طالبان سے گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے۔ترجیحات طے ہو رہی ہیں۔جسقدر احتیاط سے دونوں فریق چل رہے ہیں اسقدر برق رفتاری سے دشمنان پاکستان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

اس امر سے سب منتفق ہیں کہ مذاکرات ہونے چاہئیں لیکن اس بات کے بھی متمنی ہیں کہ یہ قیام امن کی کوشش (مذاکرات) کامیابی سے ہمکنار ہو۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں فریق تحمل ،بردباری اور برداشت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔اور ایسی باتوں یعنی مطالبات سے گریز ہی کریں جن کو پورا کرنا کسی بھی فریق کے لیے مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو۔ اطلاعات ہیں کہ طالبانکی اعلی قیادت نے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کو شرف ملاقات عنایت کیا ہے اور اپنے پندرہ مطالبات بھی اس کے سپرد کر دئیے ہیں۔ طالبان کی سیاسی شوری نے اسکی تصدیق بھی کردی ہے۔

طالبان اور حکومت کو اس بات کا بھی احساس یقیننا ہوگا کہ اس سے قبل افواج پاکستان اور طالبان کے درمیاں گذشتہ بارہ سالوں میں کم و بیش پندرہ بار مذاکرات ہو چکے ہیں ۔اور متعدد معاہدے بھی ہوئے۔ لیکن طالبان نے ان معاہدوں کی روشنائی کے خشک ہونے سے قبل ہی ان کیخلاف ورزیاں کرکے توڑ دیا ……کچھ احباب کا اصرار ہے کہ معاہدوں کی خلاف ورزی فریق ثانی مطلب افواج پاکستان پر عائد ہوتی ہے نہ کہ طالبان پر-

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر تو ہم نے عوام پاکستان کو امن اور آشتی دینی ہے۔بربادی اور تباہی کی جگہ زندگی اور اسکی رنگینیاں قوم کو لوٹانی ہیں توہمیں ماضی کو بھلانا ہوگا۔ماضی کی تلخ حقیقتوں کو فراموش کرنا ہوگا ایک دوسرے کی غلطیوں کوتاہئیوں سے صرف نظر کرنا ہوگا۔ورنہ بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔سب سے زیادہ ذمہ داری طالبان کی قیادت اور اسے حامیوں پر عائد ہوتی ہے ۔کیونکہ انکی دہشت گردی کا کاروائیوں میں نقصان عوام اور پاک فوج اور دیگر سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کے اہلکاروں کا ہوا ہے۔ طالبان تو نہیں مرے ماسوائے ان چند خود کش بمبار جوانوں کے-

یہ مذاکرات طالبان کے لیے ایک سنہری موقعہ ہے کہ وہ اپنی سابق روش ترک کردیں اور مذاکرات کے ذریعہ وہ قومی دھارے میں شریک ہونے کے اس سنہری موقعہ کو ضائع نہ ہونے دیں۔یہ طالبان بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اگر اس بار مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے تو پھر سیاسی قیادت اور سول حکومت کے پاس انکی وکالت کرنے کا کوئی جواز باقی نہ رہے گا اور طالبان کے خلاف پوری شدت ست آپریشن کرنے کے حامیوں کو انکے خلاف زہر اگلنے کا مذید وقت دستیاب ہو جائیگا۔لہذا وہ سول حکومت اور سیاسی قیادت پر زور دیں گے کہ طالبان کے خلاف پوری شدت اور قوت سے آپریشن کیا جائے۔

اگر بات آپریشن پر رکی تو پھر یہ آپریشن ماضی کے تمام ہونے والے ٓاپریشن سے قطعی مختلف ہوگا اور بڑے وسیع پیمانے پر ہوگا۔ یہ بات اس امر کی غمازی ہے کہ طالبان کو ایسی شرائط پیش کرنے سے اجتناب برتنا چوہئے جن سے مذاکرات مین تعطل یا ڈیڈ لاک پیدا ہونے کا خدشات لاحق ہوں۔ مطلب ہے کہ طالبان کو منتخب جمہوری حکومت کو اس نہج تک پہنچانے والے مطالبات اور شرائط عائد نہیں کرنی چاہئیں انکے خلاف فوجی آپریشن کرنے کے حمایتی حلقوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہو جائے۔

انہیں حکومت سے یہ یقین دہانی حاصل کرنی چاہئے کہ گرفتار طالبان کو عدالتوں سے انصاف ملے گا بلکہ میں تو یہ چاہوں گا کہ طالبان جذبہ خیر سگالی کے طور پر اپنی حراست میں قید لوگوں کو رہا کرکے نئی روایت کو جنم دیں اور ایک نیا میثاق مدینہ رقم کریں تاکہ دشمنان کے منہ بند ہو جائیں اور حکومت کو بھی فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے اور جس قدر ممکن ہو طالبان کی جائز شرائط کو تسلیم کرے کسی معمولی چیز کو اپنی انا کا مسلہ نہ بنائے کیونکہ انائیں دکھانے کے اور بہت سارے مواقع میسر ہوں گے -

طالبان مولانا عبدالحق ،سمیع الحق ،مولانا مفتی محمود ،مولانا غوث ہزاروی ،مولانا شاہ احمد نورانی جیسے اپنے معزز و محترم اکابرین کے مرتب کردہ 1973کے آئین کو تسلیم نہ کرنے کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں کیونکہ اگر اس متفقہ آئین کو تسلیم نہ کرنے کی بات کو طول دیا گیا تو 1953اور1974 کی تحریکو ں کے نتیجے میں ’’ غیر مسلم قرار دئیے جانے والے قادیانی ‘‘ شادیانے بجائیں گے اسکی وجہ یہ ہے کہ انہیں غیر مسلم اسی آئین کے تحت دیا گیا ہے ۔اگر یہ آئین ہی نہ رہے گا تو پھر انہیں کیسے مسلمان کہلوانے سے روکا جائیگا؟

اگر پھر بھی آپ اپنی اس ہت دھرمی پر قائم اور بضد رہتے ہیں تو لوگ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ’’مکتب دیوبند ‘‘ اور طالبان کی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام سمیع الحق ۔جمیعت علمائے اسلام فضل الررحمان ،جمیعت علمائے اسلام نظریاتی سمیت دیگر کی مادر گرامی سیاسی جماعت جمیعت علمائے اسلام ہند بھی تو بھارتی آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنا مقدمہ سیاست لڑ رہے ہیں۔اگر علمائے دیوبند بھارتی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اسکی حدود میں رہ کر زندگی گذار سکتے ہیں تو پاکستان کے طالبان یہاں کے آئین سے کیونکر نالاں ہیں؟اس لیے طالبان کی قیادت کو مذاکرات کو موقعہ غنیمت جانتے ہوئے انہیں کامیاب کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے اور حکومت کو بھی انہیں خطوط پر سوچنا ہوگا اور چلنا ہوگا ورنہ …………جو ہوگا وہ سب کو بھگتنا پڑیگا حکومت کو بھی اور طالبان کو بھی-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144854 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.