مزاق راتی کھیل۔۔۔

دنیا میں کھیلوں کی مختلف قسمیں مشہور و معروف ہیں۔ کرکٹ، ہاکی، فٹبال اور دیگر کھیلوں کا نام تو سنا لیکن ہمارا سامنا مختلف قسم کے کھیلوں سے ہورہا ہے۔ پاکستانی پوری دنیا میں انفرادیت کے حوالے سے مشہور ہیں اس لئے ہمارے کھیل بھی نرالے اور منطق بھی عجب ہے۔ پہلے یہاں آمریت اور جمہوریت کا کھیل کھیلا جاتا تھا لیکن جب صدی بدلی تو کھیل بھی بدل گیا۔ ریاست نے دہشتگردی کیخلاف جنگ نامی ایک کھیل متعارف کرایا اور پھر پوری قوم کی زندگیوں سے ایسا کھیل کھیلا گیا کہ الامن و الحفیظ۔

ایک طرف سکیورٹی ادارے متحارب انتہاپسند گروہوں پر کبھی کبھی بم پھینک کر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے تو دوسری طرف طالبان کے نام سے مشہور کھلاڑیوں نے خودکش بمبار بنا کر کھیل میں خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اس کھیل کی خاص بات ایمپائر امریکا کا کردار تھا جو کبھی سکیورٹی اداروں کو ڈو مور کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کرتا اور کبھی ڈرون مار کر طالبان کی ٹیم کو ڈراتا۔ الغرض اس ایمپائر نے غیر جانبداری کا وہ ریکارڈ قائم کیا کہ کمنٹیٹر آج تک حیران و پریشان ہیں کہ آخر ایمپائر کی منشاء کیا ہے۔

جب منتظمین اس کھیل سے اکتانے لگے تو انہوں نے بوریا بستر سمیٹنے کیلئے دو ہزار چودہ کا اعلان کرڈالا۔ چونکہ کھیل ختم ہونے والا تھا اور کھلاڑی بھی تھک گئے تھے تو اس لئے انہوں نے سوچا کہ کھیل کے درمیان وقفہ کیا جائے۔ وقفہ کا وقت اور مدت کے تعین کیلئے پھر کچھ ریفری لوگوں کا انتخاب ہوا۔ شائقین کو امید ہوچلی تھی کہ مقرر کردہ ریفری ان کا بھی لحاظ کریں گے لیکن ریفریوں نے تو حد ہی کردی۔ کسی نے ایک ٹیم کیلئے آرام کے وقفے میں مرغن غزاؤں کا مطالبہ کرڈالا تو کوئی دوسری ٹیم کو وقفے میں آرام دہ بستر مہیا کرنے کیلئے میدان میں اتر آیا۔ غرض ریفریوں نے اس کھیل کے وقفے میں اپنی انٹری لمبی کرنے کے چکر میں وہ وہ مطالبے کرڈالے کہ شائقین بھی چکرا گئے۔

اب یہ کھیل ہے، ریفری ہیں، ایمپائر ہے، کھلاڑی ہیں۔ سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس کھیل کی چالیں چلنے میں محو ہیں ۔ ہمیں ذاتی طور پر اس کھیل یا اس میں جاری بحث و تکرار میں پڑنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہمارا مطالبہ تو صرف یہ ہے کہ منتظمین یہ اعلان جاری کروا دیں کہ شائقین اس کھیل کے نتیجے کی امید رکھنے کی بجائے گزشتہ سڑسٹھ سالوں کی طرح لمبی تان کر آرام جاری رکھیں۔
 
Rizwan Yousaf
About the Author: Rizwan Yousaf Read More Articles by Rizwan Yousaf: 2 Articles with 1122 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.