بے ثمر جذباتیت

حالیہ ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سر براہ حکیم اﷲ محسود کی ہلاکت پر سیاسی حلقوں کیجانب سے امریکہ کے خلاف غم و غصے کا اظہار جاری ہے۔یہ حملہ ایسے نازک مرحلے میں کیا گیا جب کئی ہفتوں کی کاوشوں کے بعدطالبان کیساتھ ثمر آور مذاکرات کا آغاز ہوا چاہتا تھا ۔امریکہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھا کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت لشکر کشی اور تصادم کے بجائے طالبان سے مذاکرات کے ذریعے معاملات کے حل پر متفق ہو چکی ہے۔ حالیہ دورہ امریکہ میں وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی ڈرون حملوں کو بحالی امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے انکی بندش کا پر زورمطالبہ کیاتھا۔حکومتِ پاکستان کی غیر مبہم پالیسی سے آگاہی کے باوصف،ان فیصلہ کن لمحات میں ڈرون حملہ اس امر کا غماز ہے کہ مغرب ہمارے ہاں قیام امن سے کہیں زیادہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے میں وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھائے ہوئے ہیں کہ امریکہ سے پر زور احتجاج کیا جائے۔جبکہ عمران خان نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختونخواہ میں نیٹو سپلائی لائن معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔گرچہ قومی اسمبلی کے فلور پر عمران خان نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی قریباً سات ہفتوں پر محیط قیام امن کے لئے کی جانے والی کاوشوں کو سراہا ۔مگر یہ اعلان بھی کیا کہ اگر وفاقی حکومت 20 نومبر تک امریکی ڈرون حملے رکوانے میں ناکام رہی تو نیٹو سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی۔ عمران خان کا امریکہ کے خلاف غم و غصہ قابل تا ئید سہی ، مگر نیٹو سپلائی بند کرنے کی وارننگ نا قا بل فہم ہے۔ حتی کہ پی پی پی سمیت بیشتر حزب اختلاف نیٹو سپلائی لائن معطل کرنے کے حق میں نہیں۔ سنجیدہ صحافتی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے اسے خان صاحب کی جذباتیت اورسیاسی ناپختہ کاری سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔در حقیقت بین الاقوامی تعلقات ہوں ، قومی و سیاسی معاملات یا روز مرہ امور حیات ۔ جذباتیت اور جلد بازی میں کئے گئے فیصلے شاذ ہی ثمر آور ثابت ہوتے ہیں۔ فقط حکمت اورتد بیر سے طے کیے گئے معاملات سر خروئی سے ہمکنار ہوتے ہیں ۔ معاملہ فہمی معاملات کے سد ھار کا باعث ہوتی ہے جبکہ اندھی جذباتیت بسا اوقات بند گلیوں میں دھکیل دیتی ہے۔یوں بھی بین الاقوامی تعلقات تبھی طویل المدتی نتائج کے حامل ہوتے ہیں جب وہ زمینی حقائق کے تناظر میں تشکیل پائیں۔ ہمارے مذہب اسلام میں یوں بھی حکمت کو مومن کی میراث قرار دیا گیا ہے۔ بنی آخر الزاماں ﷺ کی حیات طیبہ پر نگاہ ڈالیں تو وہ تحمل ، تدبر اور حکمت و دانائی کا مظہر دکھائی دیتی ہے ۔ یہ نبی ﷺ کی حکیمانہ اور تصادم گریز طرز عمل ہی تھا کہ مسلمانوں کی کثیر تعداد کے با وصف انہوں نے صحابہ کرام کو خانہ کعبہ میں اذان دینے اور نماز ادا کرنے سے منع فرمایا۔جہاد کی انتہائی ٖفضیلت کے با وصف، آ پ ﷺ نے ہمیشہ جنگ میں پہل کاری سے گریزاں رہے۔معاہدہ حدیبیہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جب صحابہ کرام جذباتی مغلوبیت کا شکارتھے تو نبی ﷺ نے تحمل ا ور تدبر کا مظاہرہ کیا۔ قریش کے قاصد سہیل بن عمرو نے تحریری معاہدے میں ـبسم اﷲ الرحمن الرحیم لکھنے پر اعتراض کیا۔ تو نبی ﷺ نے حضرت علی کو بسمہ اﷲ کی بجائے ’’باسمائے اللھم ‘‘ لکھنے کا حکم دیا۔ بعد ازاں جب محمد رسول اﷲ ﷺ کے الفاظ پر بھی اعتراض کیا توحضورنے ان الفاظ کو حذف کرکے’’ محمد بن عبداﷲ ‘‘ لکھ دیا۔ تاریحِ اسلامی گواہ ہے کہ یہی مفا ہمانہ صلح نا مہ بعد ازاں فتح مکہ کا با عث بنا اوریوں پورا عرب مسلمانوں کے زیر نگیں آگیا۔ اسی طرح قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاست پر نگاہ ڈالیں تو ہمیں جذ باتیت سے عاری اور زمینی حقائق کے پیش ِ نظر فیصلے کر نے والادوراندیش رہنما دکھائی دے گا ۔ حالیہ دور میں وطن عزیز کو داخلی اور خارجی سطح پرسنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ان کا حل سیاسی رہنماؤں کے حکیمانہ طرز عمل کا متقاضی ہے۔ امریکہ ڈرون حملہ انتہائی قابل مذمت سہی مگر اس کے با وصف نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا فیصلہ غیر حکیمانی اور غیر دانشمندانہ طرز فکرہے۔یوں بھی نومبر 2011 میں سلالہ واقعہ کے تناظر میں قریبا آٹھ ماہ طویل بندش ڈرون حملے رکوانے میں ناکام رہی تھی ۔ عمران خان ایک جانب تووفاقی حکومت کی امن مذاکرات کی کاوشوں کے معترف ہیں تو دوسری جانب اس حالیہ ڈرون معاملہ پر مرکز گریز پالیسی انکی تضاد فکری کی مظہر ہے۔ یوں بھی نیٹو سپلائی لائن کی بندش کا فیصلہ وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں آتاہے ۔اگر خیبر پختونخواہ کی حکومت اس معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ صوبائی حکومت کے دستوری استحقاق سے تجاوز کے مترادف ہو گا۔ پی ٹی آئی سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ سے کسی قسم کی جنگ نہیں چاہتے ۔ حالانکہ قریباً ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی خوراک اور دیگر اشیائے ضروریہ کی فراہمی کا ذریعہ معطل کرنا نہ صرف امریکہ بلکہ نیٹو کے 28 رکن ممالک کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔ ان میں سے بیشتر ممالک کے ساتھ ہم بہت سے امدادی معاہدات ، ترقیاتی منصوبوں اورکاروباری معاملات میں بندھے ہوئے ہیں۔ہم تباہ حال معیشت اور انتہائی قلیل زر مبادلہ کے ذخائر کیساتھ ان ممالک کی ناراضی اور قطع تعلق کا بار گراں کے ہرگز متحمل نہیں۔ ہم تو طالبان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں تو امریکہ او ر اسکے اتحادیوں سے کیونکر نمٹ سکیں گے۔ خود خیبر پختونخواہ کی حکومت رواں سال میں امریکہ سمیت دیگر ممالک سے قریبا 325 ملین ڈالر کے لگ بھگ امداد سے مستفید ہو گی۔ انکی حکومت کے خوش گمان وزیرِ خزانہ سراج الحق نیٹو بندش فیصلے کے باوصف امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی امدادی معاونت کی فراہمی اورتسلسل کے لئے پر امید ہیں۔حالانکہ حقیقت پسندی سے دیکھا جائے تو یہ ممکن نہیں۔ ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ 2014 کے اوآخر میں امریکہ کا افغانستان سے انخلاء پاکستانی راہداری کا مرہونِ منت ہے۔ یہ بندش اس خطے سے امریکہ کی واپسی میں رکاوٹ اور انخلا کی سست روی کا باعث ہو گی جو پاکستان کے مفاد میں ہر گزنہیں۔

اگر طالبان کی تمام تر کارگزاریوں کے باوصف ان سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں تو امریکہ جیسی سپر پاور سے بھی مذاکرات کے ذریعے پر امن بقائے با ہمی کی راہ نکالنی چاہیے۔ کیونکہ امریکہ سے جنگ بہر حال ہماری قوت برداشت سے باہر ہے۔ جنگ یوں بھی مسائل کا حل نہیں ۔ عمومی طور پر جنگوں کے بعد کے معاملات کا سلجھاو بھی مذاکرات کی میز پر ہی ممکن ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی برسوں سے امریکہ مخالف پالیسی کا حامل ایران بھی امریکہ سے پر امن مذاکرات کے ذریعے معاملات کے حل کا خواہاں ہے۔ سو اپوزیشن رہنماوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات کو جذباتیت کے بجائے معاملہ فہمی اور دانائی سے حل کرنے میں حکومت کو معاونت فراہم کریں۔ عمران خان بھی وفاقی حکومت کو امریکہ سے سخت طرز عمل اختیار کرنے پر مجبور کریں ۔ مگر انتہا پسندانہ اقدامات سے گریز کریں۔ معاملات کو تصادم اورجنگ کے بجائے علم و حکمت ، ذہانت اور معاملہ فہمی سے حل کریں اور زمینی حقائق کا ادراک کر کے قابل عمل اورقابلِ تائید راستہ اختیار کریں۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25503 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.