گوریلا جنگوں سے فوج تھک جاتی ہے اور حکومت دیوالیہ ہو جاتی ہے۔

الجزائر میں9 ہزار گوریلوں نے 4 لاکھ فرانسیسی فوج کو تھکا دیا اور فوج کو دیوالیہ کردیا۔ جنرل ڈیگال نے فرانسیسی آبادکاروں کی شدید مخالفت کے باوجود الجزائر کو آزادی دے کر جان چھڑائی-

سائپرس (قبرص) میں 100 گوریلوں نے 40 ہزار برطانوی فو ج کو عاجز کردیا، اور فوج بھی وہ جو برما میں کمیونسٹ گوریلوں سے لڑ چکی تھی۔ جب برطانیہ نے 5 ہزار کی مزید فوجی کمک بھیجی تو گوریلوں نے چوک میں پوسٹر لگادیا کہ “ھم نے بھی 2 آدمی مزید بھرتی کر لئے ہیں“۔ انگریزوں کو بھی بالاٰخر سائپریس کو اٰزاد کرنا پڑا۔

گوریلا جنگ کا اصول یہ ہے کہ “Do not offer a target” - وہ سامنے ہی نہیں آتے کہ انکا خاتمہ کیا جاسکے۔ ایک لمحے میں وہ فوج پر حملہ کرتے ہیں، دوسرے لمحے میں وہ کھیت میں ہل چلارہے ہوتے ہیں یا دوکان پر سودا بیچ رہے ہوتے ہیں۔

افغانستان میں بھی سوپر پاور روس کو گوریلا جنگ کے ذریعے شکست ہوئی اور اب امریکہ بھی شکست کھاکر بصد ذلّت و خواری وہاں سے بھاگ رہا ہے، جسکے بعد حامد کرزئی کا وہی حشر ہوگا جو شاہ شجاع کا ہؤا، جسے زبردستی انگریزوں نے افغانستان کا بادشاہ بناکر ابنی فوج افغانستان میں تباہ کروائی تھی(سُپرپاور برطانیہ کے بھاگنے کے بعد افغانوں نے شاہ شجاع کو قتل کردیاتھا)

پرویز مشرّف نے امریکیوں کو افغانستان میں جانے کا راستہ اسلئے دیا کہ انھوں نے پاکستان کو تباہ کرنے کی دھمکی دی تھی اور وہ بحری جہازوں سے میزائل مار کر ہمارے دریاؤں پر قائم بیراجوں کو، جن پر ہماری زراعتی پیداوار کا دارومدار ہے، اُڑا سکتے تھے اسلئے پرویز مشرف نے دل میں امریکہ سے کہا ہوگا کہ “چڑھ جا بیٹا سولی(حملہ آوروں کے مقتل افغانستان) پر، رام بھلا کرےگا۔ اب امریکہ افغانستان پر چڑھائی کے نتائج بھگت رہا ہے اور افغانستان سے محفوظ واپسی کا طالِب ہے، جو امّید ہے کہ دے دی جائے گی اور وہ اپنے زخم چاٹتا ہؤا واپس جائیگا۔

معاشی طور پر نیم جان پاکستان، جو پہچانتا بھی نہیں کہ گوریلوں ( عام نام طالبان) میں ان کا کون دشمن ہے اور کون دوست، بھلا کس طرح اُنکے خلاف اعلانِ جنگ کرکے کامیاب ہوسکتا ہے، جبکہ سُپرپاورز فرانس، برطانیہ، روس، امریکہ سب ایسی جنگوں میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اس لئے کھلی جنگ کے علاوہ کوئی اور راستہ دیکھنا ہوگا۔ طالبان کہلانے والے گوریلوں کی ایک بڑی تعداد حکومتِ پاکستان پر “روشن خیالوں“ (Illuminati) کے غلبے سے ناراض ہے، جو پاکستان کو نہ اسلامی ریاست بننے دیتے ہیں اور نہ قومی۔ اور ہر ذریعے سے بددیانتی، بے حیائی اور بے غیرتی کو فروغ دے رہے ہیں اور انکے سارے اقدامات پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے واسطے ہوتے ہیں۔ ان ‘حقیقی طالبان‘ کو آئین کی اسلامی دفّعات پر عملی اقدامات کرکے راضی کیا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد بیرونی ملکوں کے ایجنٹ طالبان بچ جائیں گے، جِن کا اسی طرح پتہ لگایا جائے، جس طرح امریکہ اپنے ٹارگٹس کا پتہ لگاتا ہے اور ان پر ڈرون سے حملے کرتا ہے، اس طرح ان کا قلع قمع کیا جائے۔
 
ظفر عمر خاں فانی
About the Author: ظفر عمر خاں فانی Read More Articles by ظفر عمر خاں فانی: 38 Articles with 39292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.