اسلام آباد جوائنٹ ڈکلریشن ، جنرل مہتہ اور کشمیر

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ ایک دن منبر پر کھڑے ہوئے تو رونے لگے پھر فرمایا پہلے سال حضورؐ ہم میں بیان کرنے کے لئے منبر پر کھڑے ہوئے تو رونے لگے اور ارشاد فرمایا اﷲ سے معافی بھی مانگو اور عافیت بھی۔ کیونکہ کسی آدمی کو ایمان ویقین کے بعد عافیت سے بہتر کوئی نعمت نہیں دی گئی یعنی سب سے بڑی نعمت ایمان ویقین ہے اور اس کے بعد عافیت ہے۔

حضرت اوسؒ کہتے ہیں ایک دن حضرت ابو بکر صدیقؓ نے ہم لوگوں میں بیان فرمایا ارشاد فرمایا پچھلے سال حضورؐ نے میری اسی جگہ کھڑے ہو کر بیان فرمایا تھا اس میں ارشاد فرمایا تھا اﷲ سے عافیت مانگو کیونکہ کسی کو یقین کے بعد عافیت سے افضل نعمت نہیں دی گئی اور سچ کو لازم پکڑے رہو کیونکہ سچ بولنے سے آدمی نیک اعمال تک پہنچ جاتا ہے سچ اور نیک اعمال جنت میں لے جاتے ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ بولنے سے آدمی فسق وفجور تک پہنچ جاتا ہے اور جھوٹ اور فسق وفجور دوزخ میں لے جاتے ہیں آپس میں حسد نہ کرو ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو قطع تعلق نہ کرو ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو اور جیسے تمہیں اﷲ نے حکم دیا ہے اﷲ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔

قارئین! رواں ہفتے راقم نے اپنے عزیز محسن دوست پاکستان میں پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کے تین بڑے ناموں میں سے ایک ڈاکٹر معید پیرزادہ کی خصوصی دعوت پر اسلام آباد میریٹ ہوٹل میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی۔ فریڈ رچ ایبرٹ سٹفٹنگ نامی جرمن ادارہ خطے میں افغانستان سے 2014 ء میں امریکن اور ایساف افواج کے انخلا کے بعد امن کے قیام کے حوالے سے زبردست کام کر رہا ہے اس ادارے نے ڈاکٹر معید پیرزادہ، رحیم اﷲ یوسفزئی، جنرل مسعود اختر، سابق چیف سیکرٹری خیبر پختونخواہ خالد عزیز، پاکستان کے افغانستان میں سابق سفیر قاضی ہمایوں، مشیر خارجہ سرتاج عزیز سمیت افغانستان، ایران ، ترکی، بھارت ،وسط ایشیائی ممالک سمیت خطے کے درجنوں ممالک کے سفیروں، سیاسی شخصیات، عسکری امور کے ماہرین اور ممتاز صحافیوں کو اسلام آباد میں اس موضوع پر اکٹھا کیا اور گفت وشنید کے بعد اتفاق رائے سے ’’ اسلام آباد جوائنٹ ڈکلریشن‘‘ کا مسودہ حتمی شکل اختیار کر گیا اس کانفرنس میں ڈاکٹر معید پیرزادہ کی اہلیہ نجمہ معید اپنی دیگر ساتھیوں کے ہمراہ انتہائی خلوص اور گرمجوشی سے مہمانوں کااستقبال کرتی رہیں اور بلاشبہ یہ کانفرنس ایک یادگار ایونٹ ثابت ہوئی۔

قارئین! پاکستان کے تمام نشریاتی اداروں اور پرنٹ میڈیا نے اس کانفرنس کے متعلق متعدد رپورٹس شائع کی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ہم کچھ مخصوص باتیں آج کے کالم میں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں۔ کانفرنس کے اختتامی سیشن سے پاکستان کے انتہائی سینئر بیورو کریٹ سابق چیف سیکرٹری صوبہ خیبر پختونخواہ خالد عزیز نے جوخطاب کیا وہ سونے کے قلم سے لکھنے کے لائق ہے انہوں نے کہاکہ افغانستان میں قیام امن کے براہ راست مثبت اثرات پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک پر مرتب ہونگے 2014ء کے بعدامریکن اورایساف فورسز افغانستان سے نکل جائیں گی اوراگر خطے کے تمام ہمسایہ ممالک نے سنجیدگی سے افغانستان میں افواج کے انخلاء کے بعد جنم لینے والے عدم توازن کوکنٹرول نہ کیا تو اس سے پورے علاقے کاامن تباہ ہونے کااندیشہ ہے پاکستان میں افغان جنگ کے دوران پچاس ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے پاکستان کی معیشت کو براہ راست ایک سو ارب ڈالرسے ز ائد کا نقصان پہنچا ہے جبکہ دیگر نقصانات کا تخمینہ کھربوں روپے میں آتا ہے پاکستانی سکیورٹی فورسز افواج اور پولیس کے دس ہزارسے زائد جوان اس جنگ کے دوران شہید کئے جا چکے ہیں اور پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا نشانہ بنا ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ خطے کے تمام ممالک افغانستان کے معاملات میں مداخلت کرنا بندکردیں اور افغان عوام کو یہ حق دیں کہ وہ خودفیصلہ کریں کہ ان کے ملک میں کس قوت کی حکومت ہونی چاہیے افغان عوام خود یہ فیصلہ کریں کہ طالبان دہشتگرد ہیں یا وطن سے محبت کرنے والے لوگ ہیں افغان عوام کے حق رائے دہی میں کسی بھی قسم کی مداخلت انتہائی خطرناک نتائج لا سکتی ہے۔ کانفرنس میں افغانستان، ترکی، ایران، بھارت ، سنٹرل ایشیائی ممالک سمیت مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور دفتر خارجہ پاکستان کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔کانفرنس میں ماڈریٹر کے فرائض سینئر تجزیہ کار اینکر پرسن ڈاکٹر معید پیرزادہ نے انجام دیئے۔ کانفرنس میں ’’اسلام آباد ڈکلریشن‘‘ کا مسودہ تیار کیا گیا کانفرنس میں بین الاقوامی شہرت کی حامل سفارتی سیاسی اور صحافتی شخصیات نے شرکت کی۔ کانفرنس میں بھارتی جنرل مہتہ کی جانب سے جب یہ کہا گیا کہ بھارتی کشمیر کی سرحدوں پر باڑ لگانے کے باوجود ابھی تک ہم دراندازوں اور دہشتگردوں کو روکنے میں ناکام ہیں اس پر راقم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کی مشاورت سے سوال کیا کہ جنرل مہتہ یہ بات بتائیں کہ بھارت کی سات لاکھ فوج کشمیر میں کیا کر رہی ہے بھارت نے لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا جس کی وجہ سے لاکھوں کشمیری ہجرت کر کے پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور اب اگر 2014کے بعد یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طالبان افغانستان میں حکومت قائم کرنے کے بعد کشمیریوں کی مدد کرنے کے لئے مقبوضہ کشمیر کا رخ کریں گے تو کیا بھارت اس خطرے سے بچنے کے لئے مناسب نہیں سمجھتا کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی پاس شدہ قراردادوں کے مطابق حل کر دیا جائے اور کشمیریوں کو حق رائے دہی کیساتھ اپنی آزادی کا فیصلہ اور مستقبل کا تعین کرنے کا موقع دیدیا جائے اس پر کانفرنس میں شریک تمام سفارتکاروں اور شرکاء نے انتہائی دلچسپی سے جنرل مہتہ کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا ڈاکٹر معید پیرزادہ نے جنرل مہتہ سے پوچھا کہ کیا آپ اس سوال کا جواب دینا پسند کرتے ہیں جس پر جنرل مہتہ نے کہا کہ میں کشمیر پر کوئی بھی بات نہیں کرنا چاہتا لیکن اس انتہائی اہم سوال کے جواب میں یہ ضرور کہوں گا کہ اس وقت بھارت کے تمام اخبارات اور میڈیاچیخ چیخ کر اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کیا بھارتی سکیورٹی فورسز کشمیر میں طالبان کے خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ امریکن اور ایساف افواج طالبان کو آزاد چھوڑ کر افغانستان سے انخلا نہیں کرینگی بلکہ طالبان کو مصروف رکھنے کے لئے مناسب فوجی قوت افغانستان میں موجود رہے گی کانفرنس کے اختتامی سیشن کے بعد مختلف سفارتکار اور پالیسی گروپ ممبرز افغانستان کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر پر بھی گفتگو کرتے رہے ۔

قارئین!یہاں ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ جوں ہی کانفرنس کا رسمی سیشن ختم ہوا تو سفارتکاروں کاایک ہجوم ہمیں داد دینے کے لئے ہماری طرف آیا اور عساکر پاکستان کے ایک مایہ ناز سپوت جنرل مسعود اختر نے قریب آکر ہمیں گلے لگا لیا اور کہنے لگا کہ آپ کاسوال انتہائی اہم اور موقع کی مناسبت سے تھا جنرل مہتہ کو پتہ ہونا چاہیے کہ 1990ء کی دہائی میں آٹھ سال تک افغانستان میں طالبان کی بلاشرکت غیرے ایک انتہائی مضبوط حکومت قائم تھی اور اس کے باوجود ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ طالبان نے کبھی مقبوضہ کشمیر میں جاری کشمیریوں کی اپنی اندرونی تحریک آزادی کی عسکری امداد کی ہو جنرل مہتہ اور ان جیسے دیگر ایکسپرٹس اس وقت ایک ہی پیج پر موجود ہیں اور ان کاایجنڈا کیا ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے جنرل مسعود اختر نے بتایا کہ امریکہ اور بین الاقوامی فورسز اس وقت تین مقاصد کی تکمیل کے لئے خطے میں موجود ہیں پہلا مقصد القاعدہ کو تباہ کرنا تھا جو حاصل ہو چکا ہے دوسرا مقصد بظاہر طالبان کا خطرہ ظاہر کر کے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کا پرچم بلند کرنا تھا اور پس پردہ موجود تیسرا اہم ترین اور خطرناک ترین مقصد پاکستان کی جوہری صلاحیت کو کسی طریقے سے کمپرومائز کرنا ہے پاکستان کا ایٹمی بم امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کو ابھی تک ہضم نہیں ہو رہا جنرل مسعود اختر نے کہاکہ کشمیریوں نے اپنی تحریک آزادی کی شمع اپنے خون سے روشن رکھی ہے اور انشاء اﷲ پاکستان کبھی بھی کشمیریوں کی تحریک آزادی کی اخلاقی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹے گا اسی دوران استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ہم تھوڑا آگے بڑھے تو پاکستان میں شعبہ صحافت کے ایک بہت بڑے نام انگریزی اخبار دی نیوز کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر رحیم اﷲ یوسفزئی نے چمکتی ہوئی اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور معانقہ کرنے کے بعد کہنے لگے کہ آپ نے انتہائی زبردست سوال کر کے آج کی محفل لوٹ لی ہے۔ راقم اور راجہ حبیب اﷲ نے عرض کیا کہ ہم نے یہ سوال آپ ہی کی دی گئی ان معلومات کی روشنی میں کیا ہے جو آپ نے ہمیں ایف ایم 93 میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘میں گزشتہ ہفتے انٹرویو دیتے ہوئے مہیا کی تھیں اور آپ نے بتایا تھا کہ بین الاقوامی برادری اس حوالے سے تشکیک کا شکار ہے کہ 2014ء میں غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد طالبان کشمیریوں کی تحریک آزادی میں مدد کے لئے بھارتی مقبوضہ کشمیر کا رخ اختیار کر سکتے ہیں رحیم اﷲ یوسف زئی کہنے لگے کہ رسمی باتیں اور بظاہر چمکتی ہوئی دانشورانہ گفتگو اپنی جگہ جب تک ہم افغانستان اور کشمیر سمیت دنیا بھر کی پسی ہوئی اقوام کے حقوق کو بحال نہیں کرینگے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا اسی دوران ٹہلتے ٹہلتے جنرل مہتہ بھی ہمارے پاس آپہنچے ہم نے اخلاقی تقاضوں کے مطابق بھارتی جنرل مہتہ سے ہاتھ ملایا اور ساتھ ہی انہیں بتایا کہ راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اس پر جنرل مہتہ چونکے اور انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ کوئٹہ سے ہجرت کر کے قیام پاکستان کے وقت بھارت چلے گئے تھے ان سے کچھ باتیں ہوتی رہیں اور رسمی گفتگو کے بعد ہم آگے بڑھ گئے۔

قارئین!کچھ بھی ہو یہ بات طے ہے کہ کشمیر عالمی برادری کے دامن پر لگا ہوا وہ بدنما داغ ہے کہ جس نے عالمی برادری کے ضمیر کو ایک سوالیہ نشان بنادیا ہے۔ عیسائی اور یہودی مذہب کے پیروکاروں کے لئے تو اقوام متحدہ حرکت میں آجاتی ہے لیکن مسلمانوں اور پسی ہوئی رنگدار نسلوں کے لئے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے رہی بات بھارت کی تو بھارت نام نہادجمہوریہ ہے اور بقول برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد کے بھارت اور اسرائیل دنیا کے سب سے بڑے دہشتگرد ممالک ہیں جنہوں نے عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے مذہب کے نام پرلاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا ہے بقول چچاغالب

گر نہ اندوہِ شبِ فرقت بیاں ہو جائے گا
بے تکلف داغِ مہ، مھرِدہاں ہوجائے گا
زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پر توِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا
لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا
وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا
فائدہ کیا؟سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسد
دوستی ناداں کی ہے، جی کازیاں ہو جائے گا

قارئین!پاکستان کے پالیسی سازوں کو اب غور سے سوچنا ہو گا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو رول بیک کر کے کیا پاکستان بھارت جیسے کینہ پرور دشمن کا مقابلہ کر سکتا ہے بھارت اس وقت بلوچستان کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بھی افواج پاکستان کے خلاف پراکسی وار میں مصروف ہے کاش ہمارے حکمران اور پالیسی ساز اس نازک وقت کے تقاضوں کوسمجھیں۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے
کلیسا میں آنے والی ایک خوبصورت لیکن بدنام دوشیزہ سے پادری نے کہا
’’ میں کل رات بھر تمہارے لئے دعا کرتا رہا‘‘
لڑکی نے شرماتے ہوئے جواب دیا
’’آپ نے بے کارزحمت کی مجھے فون کر دیتے میں فوراًحاضر ہوجاتی‘‘

قارئین!اس وقت بھارت کی اخلاقی حالت بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لئے بھارت کسی بھی وقت کہیں پر بھی حاضر ہوسکتا ہے۔ اﷲ ہمارے حال پر رحم کرے۔ آمین

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 337361 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More