جے یو آئی (ف) کے اسمبلی رکن کی گرفتاری لمحہ فکریہ

ہفتے کے روز پولیس نے پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن اور جمعیت علمائے اسلام(ف) سے تعلق رکھنے والے سردار عبدالرحمن کھیتران کوتحویل میںلیا۔ ڈی آئی جی لورالائی عمران منہاس کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران کی قائم کردہ نجی جیل سے خواتین اور بچوں سمیت ایک درجن کے قریب افراد کو بازیاب کرایا گیا اور موصوف کے گھر سے بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا۔سردار عبدالرحمن کھیتران اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مختلف گاڑیوں میں سوار ہوکر بازار بارکھان آئے، جہاں پولیس اہلکار گشت اور ناکہ پر ڈیوٹی دے رہے تھے، جن سے انہوں نے سرکاری اسلحہ ایمونیشن چھین لیا اور پولیس کانسٹیبل محسن بشیر طاہر علی عبدالرحیم وغیرہ کو اغواءکرنے کے بعد نامعلوم مقام پر چھوڑ دیا۔ ایس ایچ او پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا گیا، ایس ایچ او نے تمام حالات سے افسران بالا کو آگاہ کیا، جنہوں نے صوبائی حکومت سے رابطہ کیا۔ صوبائی حکومت نے سردار عبدالرحمن اور دوسرے دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی، جن کی ہدایت پر امان اللہ ایس ایچ او کی مدعیت میں مقدمہ درج ہوا، ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوئٹہ سے ایس پی اے ٹی ایف فاضل بٹ کی قیادت میں پولیس ٹیم بارکھان پہنچی اورعبدالغفور مری ڈی پی او نے بارکھان حاجی کوٹ میں چھاپا مارا۔

دوران چھاپہ سردار عبدالرحمن نے اپنی گرفتاری خود پیش کی اور کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ ملزم عبدالرحمن کے قلعہ کی تلاشی لینے پر ملزم کی نجی جیل سے محمد ولد شاہ میر قوم وگر محمد صفدر ولد فرید خان پنجاب کا رہائشی اور عبدالرحمن ولد فیض محمد جو زنجیروں سے جکڑے ہوئے تھے ،بازیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ شیر محمد، سلطانہ بی بی، شاہ بی بی، حاجرہ بی بی، شیر بانو، سعید احمد، بشیر احمد دیگر کو رہائی دلائی گئی۔ بازیاب کروائے گئے افراد میں سے متعدد دو سال سے سردار عبدالرحمن کی قید میں تھے۔چھاپے کے دوران قلعہ سے 46 پیٹیوں میں موجود ہزاروں گولیاں، راکٹ لانچر کے 57گولے، 71فیوز 10مارٹر گولے، 2میزائل، 2کلاشنکوفیں، تین اینٹی کرافٹ گنیں بمعہ سٹینڈ 52ایس ایم جی رائفلز، چھ عدد دوربین، 5عدد واکی ٹاکی سیٹ، دستی بموں کی چار پیٹیاں، 5ہتھکڑیاں اور چودہ عدد گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں برآمد کرکے قبضے میں لی گئیں۔گرفتاری کے بعد بلوچستان کے ضلع بارکھان کی پولیس انتظامیہ نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما رکن صوبائی اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران کو جوڈیشنل مجسٹریٹ بارکھان محمد قاسم کبزئی کی عدالت میں پیش کیا۔ عدالت نے دو دن کا جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے سردار عبدالرحمن کھیتران کو پولیس کے حوالے کردیا۔ عدالت میں سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل سے بازیاب کرائے جانے والے خواتین و بچوں کو بھی پیش کیا گیا، جوڈیشل مجسٹریٹ نے ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا کہ سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل سے بازیاب کرائے جانے والے تمام افراد کو بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچایا جائے۔ اس سلسلے میں ڈی پی او بارکھان غفور مری نے کہاکہ رکن صوبائی اسمبلی سردا عبدالرحمن کھیتران کے گھر سے برآمد ہونے والے اسلحہ کا مقدمہ نمبر60/2014 بجرم ایکسپلوڑو ایکٹ کے تحت ان کا بیٹے میر قاسم کھیتران، بھتیجے عبدالغفور کھیتران کے خلاف درج کیا۔ بدھ کے روزسیکورٹی خدشات کے پیش نظر رکن بلوچستان اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران کی رہائش گاہ کو سب جیل قرار دے کر انہیںکوئٹہ منتقل کر دیاتھا۔

دوسری جانب سردار عبدالرحمن کھیتران کا کہنا تھا کہ ان کے خلاف یہ کارروائی سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہے اور چھاپے میں ان کی گرفتاری کا پولیس کا بیان بھی سرا سر غلط ہے، کیونکہ ان کے بقول انھوں نے خود گرفتاری پیش کی۔ یہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے، بلدیاتی انتخابات میں میرے سات بندے کامیاب ہوئے اور ضلعی ناظم بھی میرا ہی بندہ تھا۔ مجھے پتا چلا کہ میرے خلاف ایف آئی آر ہے تو میں قانون پسند شہری ہوں، میں آٹھ بجے گرفتاری دے دی، لیکن انھوں نے بعد میں میرے گھر میں کارروائی کی اور چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ پولیس کی طرف سے ان کی نجی جیل سے بازیاب کیے جانے والے افراد کے بارے میں سردار عبدالرحمن کھیتران کا کہنا تھا کہ جب پیر کو یہ لوگ عدالت میں پیش ہوئے تو ان میں ایک نے خود عدالت کو بتایا کہ وہ تو ان کا مہمان تھا اور چھاپے کے وقت وہاں سویا ہوا تھا۔ دیگر افراد کے متعلق بھی ان کا الزام تھا کہ پولیس نے کہیں اور سے یہ لوگ پکڑ کر ان کے خلاف استعمال کیے ہیں۔ ادھر جمعیت علمائے اسلام کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ایم پی اے سردار عبدالرحمن کھیترا ن کے خلاف یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور انہیں سیاسی چال میں پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جے یو آئی سمجھتی ہے کہ ایم پی اے سردارعبدالرحمان کھیتران کے خلاف پروپیگینڈابے بنیاد ہے۔ اگر کوئی بھی رکن یا کارکن کسی بھی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث پایا گیا تو پارٹی کبھی اس کی حمایت نہیں کر ے گی، لہٰذا سردار عبدالرحمن کھیتران کو عدالت میں اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے۔ واضح رہے کہ بارکھان ضلع کی سرحدیں پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے ملتی ہیں اور یہ علاقہ تیل و گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔ یہاں کی بیشتر آبادی کا تعلق کھیتران قبیلے سے ہے جن کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ کھیتران قبیلے کی دو شاخیں ہیں، جن میں سے ایک کے سربراہ سردار عبدالرحمن کھیتران ہیں، جو کہ جمعیت علمائے اسلام کے سرگرم رکن ہیں۔ بلوچستان میں وڈیراشاہی، قبائلی،جاگیرداری اور سرداری نظام کا دور دورہ ہے اور بااثر قبائلی سردار کسی ملکی قانون سے ماوراءاپنے مخالفین کو قید وبند میں ڈالتے رہتے ہیں اور بہت سے قبائلی سرداروں پر اپنی نجی جیلیں قائم کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عاید کیے جاتے رہے ہیں۔

اگرچہ جمعیت علمائے اسلام اور عبدالرحمن کھیتران نے نجی جیل والے معاملے کو اپنے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے،لیکن پولیس عبدالرحمن کھیتران کو اس واقعہ میں ملوث قرار دیا ہے۔ جس کے بعد جمعیت علمائے اسلام پر سخت تنقید کی جارہی ہے، کیونکہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کی ایک پرانی اور بڑی مذہبی سیاسی جماعت ہے، جس کے منتخب شدہ رکن کے غیرقانونی سرگرمی ملوث پائے جانے سے ملک کی مذہبی جماعتوں کو شدید دھجکا لگا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ جمعیت علمائے اسلام کی بدنامی ہوئی ہے بلکہ ملک میں تمام مذہبی حلقوں کی جانب انگلی اٹھانا بھی آسان ہوگیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کو چاہیے کہ وہ ایک مذہبی جماعت ہونے کے ناطے ایسے لوگوں سے سختی سے بازپرس اور ان کے خلاف کارروائی کرنے میں قانون کی مدد کرے، جو مذہبی طبقے کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔

اس واقعہ سے جہاں ملک میں قانون بنانے والے ارکان پارلیمنٹ کی ”قانون کی پاسداری“ سامنے آئی ہے وہیں پاکستان میں ملازموں اور مزدرو طبقے پر ہونے والے مظالم کی قلعی بھی کھل گئی ہے۔ ملک میں اکثر غریب مزدور اور گھریلو ملازمین غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ صرف دوہزار تیرہ میں مجموعی طور پر پانچ سو سے زاید ایسے مزدور بچوں، عورتوں اور مردوں کو بھٹا مالکان، جاگیرداروں، زمینداروں اور وڈیروں کی نجی جیلوں سے بازیاب کروایا گیا، جن کو اپنی محنت کا معاوضہ مانگنے پر قید کردیا گیا تھا۔ اس وقت ملک میں گھریلو ملازمیں اور مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جنہیں صحت، اجرت اور اپنی ملازمت سے متعلق کوئی تحفظ مہیا نہیں اور بیشتر مواقع پر ان کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کا 81 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے، جبکہ باقی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ نوعمر بچوں اور بچیوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لینے، تین وقت کا بچا ہوا کھانا اور تنخواہ کے نام پر قلیل رقم دینے کو بالکل جائز سمجھا جاتا ہے اور ذرا سی چوں چرا پر گالیوں اور تشدد سے نوازا جاتا ہے۔ حیرت انگیز اور قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس ظلم میں وہی لوگ آگے آگے ہوتے ہیں، جو اسی غریب و مزدور طبقے کی محنت کی وجہ سے صاحب مال و دولت ہوئے ہیں اور یہی جاگیردار اور سرمایہ دار ان کے حق میں کوئی قانون بننے کی راہ میں رکاوٹ ہیں، جو دو وقت کھانے کے عوض پورے خاندان سے غلاموں کی طرح کام لیتے ہیں۔

ہمارے ملک آئے روز مزدور طبقے پر ظلم و ستم کے واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کے پوش ایریا میں ایک مالکن نے صرف ڈھائی ہزار روپے ماہوار پر کام کرنے والی ایک دس سالہ غریب اور یتیم بچی ارم کو تشدد کرکے ماردیاتھا۔ ارم کو دو دن تک ہاتھ پاﺅں باندھ کر پانی کے پائپ کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ جب ارم کو ہسپتال لایا گیا تو اس کے پورے جسم پر زخموں کے نشانات تھے اور اس کی موت واقعہ ہوچکی تھی۔اسی طرح دو روز قبل کراچی کے علاقے کلفٹن میں ایک دس سالہ ملازم بچے کو مالک نے چھٹے فلور سے دھکا دیا، اس پر تشدد کیا ۔اسی طرح عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں شہروں یا دیہات میں نوعمر بچوں سے دفتروں، فیکٹریوں، کھیتوں، بھٹوں میں نوعمر بچوں اور بچیوں سے محنت مزدوری کرائی جاتی ہے، کوئی قانون کوئی این جی او اور کوئی سرکاری ادارے بڑے بڑے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود اس بے رحمانہ طریقہ غلامی کو ختم نہیں کرا سکا۔ پاکستان کو اس حوالے سے ان ممالک کی پیروی کرنی چاہیے جہاں ملازمین کے لیے حفاظتی قوانین نافذ کردیے گئے ہیں۔گزشتہ دنوں ملازمین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر امریکا نے بھارتی سفیر سے بھی کوئی رعایت نہیں برتی۔امریکی قانون کے مطابق اپنی ملازمہ کو معاوضہ نہ دینے پر بھارتی سفیرکو ہتھکڑی پہناکرعدالت میں پیش کیاگیا۔ پھراڑھائی لاکھ ڈالر کی ضمانت پررہاکیاگیا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے باوجود امریکا نے اپنے قوانین کی پاسداری کرنے میں کوئی کوتاہی نہ کی۔گزشتہ سال سعودی عرب میں خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف قانون پاس کیا گیا ہے۔پاس کیے گئے اس 17 نکاتی بل کے مطابق اگر کوئی شخص خواتین، بچوں اور گھریلو ملازمین پر نفسیاتی اور جسمانی تشدد میں ملوث پایا گیا تواس کو ایک سال قید کی سزا کے ساتھ 50 ہزار سعودی ریال جرمانہ کیا جائے گا۔تمام ممالک نے اگرچہ لفظی طور پر غلامی کو ختم کردیا ہے اور پاکستان کا آئینِ بھی کہتا ہے کہ غلامی کسی بھی شکل میں قابلِ قبول نہیں ہے،لیکن اس کے باوجود ملک میں انسانوں کی بہت بڑی تعداد غلامی کی زندگی بسر کررہی ہے۔موجودہ دور میںمزدور اور گھریلو ملازمین کا استحصال ایک انتہائی شرمناک بات ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ مزدور اور غریب گھریلو ملازمین کے حقوق کے لیے کوئی مضبوط قانون نافذ کرے۔مزدور طبقے پر مظالم ڈھانے والوں کو سخت سزا دی جائے، چاہیے یہ لوگ کسی اسمبلی کے ارکان ہوں، وڈیرے، سردار، جاگیردار یا کوئی اور بااثر شخصیت ہی کیوں نہ ہوں۔
 

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 637841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.