شام میں وحشت کی طویل ہوتی رات

یہ دنیا کی بہت بڑی سچائی اور حقیقت ہے کہ جنگ و جدل اور کشت و خون سے سوائے بربادی و تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ممالک برباد اور شہر کھنڈرات بن جاتے ہیں۔یہ خونریزی انسان کو ماﺅف العقل بنادیتی ہے اور انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ظلم و ستم کی تمام حدود پار کرکے ہر سفاکانہ و جابرانہ امرانتقامی بنیادوں پر انجام دےتا ہے۔ انسانوں کابے دریغ قتل، بچوں اور عورتوں کو اذیت ناک زندگی سے دوچار کرنا اس کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے۔ اپنے اقتدار کو طوالت اور من کو سکون دینے کے لیے وہ اپنے ہی کمزور لوگوں کو غیض و غضب کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے اوروہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ جنگوں کے دوران بچوں اور عورتوں کو درندگی کا نشانہ بنانا سراسر بزدلی اور تمام مذاہب ہی نہیں، انسانیت کے بھی خلاف ہے۔دنیا کی اس سچائی اور حقیقت کو واضح کرنے کے لیے شام کا قضیہ بہترین مثال ہے، جہاں ہر طرف موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے اور مخالفین پر ایک دوسرے کو موت کے گھاٹ اتارکر ان کی بستیوں کو تہس نہس کردینے کا بھوت سوار ہے۔

شام میں ظلم و ستم کی شام مزید گہری ہوتی ہوئی وحشت ناک تاریک رات میں بدل چکی ہے۔بس اندھیرا ہی اندھیر چار سو اور سناٹا۔ دور دور تک کہیں سویرے کی کرن پھوٹنے کانام و نشان نظر نہیں آتا۔ رات کی تاریکی تو اپنے مقررہ وقت پر چھٹ جاتی ہے، لیکن شام میں چھائی خوفناک اور جان لیوا شب تاریک خدا جانے کب ختم ہوگی۔ پونے تین سال میں خانہ جنگی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ کو چھونے لگی ہے، جن میں مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہزاروں بچے بھی شامل ہیں، مجموعی طور پر ہر ماہ اوسطًا کم از کم 5 ہزار افراد ابدی نیند سو رہے ہیں اور اب تک تیس لاکھ کے قریب افراد شام سے دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کرچکے ہیں، جن میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ تعداد بچوں کی ہے۔ہر روز کم ازکم پانچ ہزار افراد شام کو خیرباد کہہ رہے ہیں اور جو شام کو مستقر بنائے بیٹھے ہیں، وہ روز مرتے ہیں یا پھر قید محصوریت پر مجبور ہیں۔ دس لاکھ افرادملک کے مختلف علاقوں میں محصور ہیں، جہاں وہ دن بدن تڑپ تڑپ کر جان دے رہے ہیں، لیکن ان کا کوئی پراسان حال نہیں ہے۔ مختلف محصور علاقوں میں بھوک سے مرتے شامیوں کے حرام جانوروں کو کھانے کے واقعات تو سامنے آہی چکے ہیں، لیکن اب یرموک کیمپ میں محصور افراد کی حالت اس سے بھی زیادہ تشویشناک ہے۔

شام میں سب سے بڑا فلسطینی ”یرموک کیمپ“ تقریباً سات ماہ سے سرکاری افواج کے محاصرے میں ہے۔اس کیمپ میں فلسطینی مہاجرین گزشتہ 57 سال سے پناہ گزین ہیں، شام کی خانہ جنگیکے ابتدائی دنوں میں یرموک کیمپ کے بہت سے باشندے شام سے نکلنے میں کامیاب ہوئے، لیکن جو خاندان نکل نہ سکے، وہ جیتے مرتے اپنی زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔فی الوقت اس کیمپ میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اور جنگ کی وجہ سے بے گھر ہونے والے شامی رہتے ہیں، جن میں سے بیشتر فلسطینی ہیں۔ اس کیمپ کے ایک ہزار کے لگ بھگ افراد پے درپے حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں، جبکہ حملوں اوراس کیمپ کا محاصرہ بدستور جاری رہنے کے سبب 80 فیصد افراد اسے چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ خانہ جنگی سے متاثرہ علاقوں میں پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاءاور ادویات کا فقدان تھا، تاہم اب صورتحال مزید تشویشناک ہوتی جارہی ہے۔ ناکہ بندی کی وجہ سے محصور علاقوں میں”یرموک“ میں ہزاروں افراد بیک وقت مہلک امراض، قحط اور بھوک و افلاس کا سامنا کر رہے ہیں، بھوک کی وجہ سے یرموک کیمپ میں محصور پچاس کے قریب فسلطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ محاصرہ کیے گئے علاقوں میں امدادی سامان اور خوراک اندر لے جانے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اشیائے خوراک اور ادویات کی رسائی ملفوج ہو کر رہ گئی ہے، جو چیزیں دستیاب ہیں وہ اس قدر مہنگی کہ فلسطینی مہاجرین اور دوسرے شہریوں کے لیے ان کی خریداری ناممکن ہے۔ مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ایک کلو گرام چاول 42 ڈالر یعنی 6000 لیرہ تک جا پہنچے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں محصور علاقے میں ایک خاتون کو اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیمپ کے آس پاس کھیتوں میں اگی ہوئی خودروگھاس اورزمین پر اگنے والے پودوں کے پتے توڑکر تھیلی میں جمع کرتے ہوئے دکھایاگیاہے۔ خاتون کاکہناہے کہ کھانے کی اشیاءکے فقدان کے سبب وہ بھوک سے نڈھال ہیں، کئی دنوں سے کیمپ کی خواتین گھاس اورپتے توڑتی ہیں،اس میں نمک اورپانی ڈال کر ابالاجاتاہے اور اس پانی کوپی کر بھوک مٹانے کی کوشش کررہی ہیں۔ نزلہ،کھانسی اور بیماریوں کے علاج اور بھوک مٹانے کا ان کے پاس یہی واحد سہارا رہ گیاہے۔ ایک دوسری ویڈیو میں ایک خاتون کو یرموک کیمپ کی بھوک اور افلاس کی ماری ایک ننھی بچی کو اٹھائے دکھایا گیا ہے۔ یہ ننھی کلی آلا المصری گردوں کی کمزوری، قحط اور مسلسل بھوک کے باعث ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی ہے، جسے دودھ تو دور کی بات کسی بھی قسم کی غذا میسر نہیں ہے۔ بچی کو اٹھائے خاتون آبدیدہ ہو کر استفسار کرتی ہے ”اس ننھی کلی کا کیا قصور ہے؟ جسے بھوک اور قحط کے جہنم میں ڈال دیا گیا۔ کیمپ میں بھوک کے باعث دسیوں بچے اور عورتیں روزانہ مر رہے ہیں، ہماری فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں ہے۔“ اور ایک دوسرا شخص کہہ رہا ہے کہ آلا المصری کی حالت دیکھنے کے بعد عالمی اداروں کو کیمپ کے دیگر بچوں اور بھوک، پیاس سے مرنے والوں کی مشکلات کا اندازہ کر لینا چاہیے۔ ہم اس ویڈیو کے ذریعے عالمی اداروں سے محصورین کی جانیں بچانے میں مدد کی اپیل کرتے ہیں۔

شام میں فریقین اغیار کے اسلحہ و بارود کے ساتھ ملک کی تباہی اور شامی عوام کی بربادی کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمی برادری اور اسلامی ممالک اس خونریزی کو روکنے کی غیر سنجیدہ اور رسمی سی کوششیں کررہے ہیں۔ رواں ماہ کی بائیس تاریخ کو سوئٹزرلینڈ میں ’ ’جنیوا ٹو امن کانفرنس“ کا انعقاد بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک یعنی امریکا، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور یورپی یونین، عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم اور مزید تیس ممالک کو مدعو کیا گیا ہے۔ اس کانفرنس میں ایران کی شرکت یقینی نہیں ہے، کیونکہ وہ اس کانفرنس میں غیرمشروط شرکت کرنے کا خواہاں ہے اور امریکا ایران کو جنیوا اعلامیہ کا پابند کرنا چاہتاہے۔ اقوام متحدہ کا کہناہے کہ اس کی بھرپور کوشش ہے کہ شام کے تمام متحارب گروہ اور ایران اس کانفرنس میں شرکت کریں۔ جنیوا ٹو امن مذاکرات اِس لحاظ سے واقعی اہم ہیں کہ بڑی تعداد میں ممالک مل کر شام میں خانہ جنگی کے خاتمے کے حوالے سے غور و فکر کریں گے، لیکن اس سب کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ اس کانفرنس کی کامیابی کے بعد بھی شام میںتشدد ختم ہونے کے آثار کم دکھائی دے رہے ہیں، کیونکہ یہ معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا ، جب تک شام میں لگی خانہ جنگی کی آگ کو بڑھکانے والے مرکزی کردار اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر حقیقت میں اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کریں اور جب تک سعودی عرب اور ایران اپنی ذاتی رقابتیں بھلا کر روس اور امریکا کی عیاری کو بے نقاب نہیں کرتے اس وقت تک شام میں وحشت کی طویل ہوتی رات سویرے میں بدلتی نظر نہیں آتی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 636221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.