مشرف کیس کے فیصلے کے بعد …………کیا ہوگا ؟

مشرف کیس کا فیصلہ کیا ہوگا؟ ……یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے اور نہ ہی اب یہ کوئی راز رہا ہے۔ ……اگر کہیں کوئی بات زیر بحث ہے۔ تو یہ کہ سزا کی نوعیت کیا ہوگی؟سزائے موت یا عمر قید……عدالت میں بیٹھنے فیصلہ والے بھی جانتے ہیں ۔کیونکہ وہ بھرپور تیاری کے ساتھ عدالت میں آتے ہیں۔اور مشرف کے وکلاء بھی ……شائد اسی لیے مشرف کے وکلا عدالت اور اسکے دائرہ کار کو کورٹس میں چیلنج کر رہے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ جیسے احمد رضا قصوری اور ان جیسے دیگر ضیائی آمریت کے حامی ذوالفقار علی بھٹو کے وکلاء پر اعتراض کیا کرتے تھے کہ ’’عدالت کا قصور نہیں دراصل بھٹو کے وکلا نے کیس کو سیاسی بنا دیا تھا اگر وہ کیس کو کیس سمجھ کر لڑتے تو ممکن تھا کہ فیصلہ بھٹو کی موت کی سزا سے مختلف ہوتا‘‘ آج مشرف کے وکیل اور بھٹو کے خلاف مدعی احمد رضا قصوری اور انکے ساتھی وکلا بھی وہیں غلطی کر رہے ہیں۔اور کل ان سے بھی لوگ یہیں کہیں گے کہ ’’جناب مشرف کو سزا دینے میں عدالت بے قصور ہے ۔سارا قصور آپکا اور آپکے ساتھیوں کا ہے ۔کہ آپ نے کیس کو کیس سمجھ کر نہیں لڑا۔ بلکہ آپ نے بھٹو کے وکلا سے بڑھ کر حماقتیں کی ہیں‘‘

عدالت کا فیصلہ کچھ بھی ہو ’’ عدالت سزائے موت سنائے یا عمر قید……جنرل مشرف کا حلقہ انتخاب اور سابق رفقائے کار پوری طرح مستعد ہے۔اپنے حصے کا ’’ہوم ورک‘‘ مکمل کر رہا ہے…… اسکے حامی چاہے وہ دیہاڑی لگانے والے ہیں ۔یا ان کے حلقہ انتخاب کے کسی برانچ سے اپنا ’’ کچن چلاتے ہیں۔سب اپنی اپنی صفیں درست کر رہے ہیں…… ماضی میں مارشل لاوں کی بیساکھیاں بننے والے جنرل مشرف سے اٹھائے گے مفادات کا قرض اتارنے کے لیے ’’ بڑے بے چین ‘‘ نظر آ رہے ہیں۔اور دوسری طرف جمہوریت نواز اور جمہوری قوتوں کی صفوں میں گھسے آمریت پسند اور انکے خیر خواہ آپس میں دست و گریبان ہیں……مارشل لا یا اس جیسی کوئی انہونی وارد ہونے سے قبل ’’ جن سازگار حالات کی ضرورت ہوتی ہے ۔اسکی تیاریوں کے آثار بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ایک پیر صاحب کے حوالے سے پشین گوئیاں اخبارات کی زینت بنی ہیں۔یا بنائی گئیں ہیں۔ان کے مطابق آنے والے دنوں میں فوج کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔اور تک یہ ملک بڑی طاقت بن جائیگا اور یہ سب کچھ فوج کے ہاتھوں ہونے والا ہے۔ اس ملک میں 2026تک فوج کا کرداربھرپور اور کلیدی نوعیت کا ہوگا……

ویسے تو بہت سارے علم نجوم کے ماہرین بھی کہتے ہیں کہ نئے سال کے پہلے چھ ماہ نواز شریف حکومت کے لیے انتہائی اہم ہوں گے۔انہوں یہ دعوے میں مختلف نجی چینلز کے متعدد ٹاک شوز میں کیے ہیں۔جب سے یہ پشین گوئیاں وہ بھی ایک ’’پیر صاحب‘‘ کے علم کی روشنی میں تو میں سوچ کے سمندر میں غرق ہوں اور اس سمندر میں غوطے لگا لگا کر یہ جاننے کی کوشش میں ہوں کہ آخر ’’پیر صاحب ‘‘ نے ایسا کیا دیکھ لیا ہے۔جو ہمیں دکھائی نہیں دے رہا ؟ اس وقت ملک بھر میں مشرف کیس ’’ہاٹ ایشو ‘‘ ہے،گلی محلوں کے چائے خانوں سے لیکر پارلیمنٹ اور گاوں کی چوپالوں سے بڑے بڑے ڈرائینگ رومز میں یہ مشرف کیس زیر بحث ہے۔کہ’’ا’س مشرف کیس کا فیصلہ کیا ہوگا اور اس کے کیا کیا امکانات ہو سکتے ہیں۔ ‘‘
مشرف کے حامی اس کیس کو فوج کی تذلیل قرار دیتے ہیں۔جب کہ حکومت اور اسکے ساتھی اور وزرا کا موقف ہے کہ ’’ فوج نے آئین اور ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہے۔مشرف کا نہیں‘‘ وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر وزرا کا کہنا ہے۔کہ ’’ فوج حکومت کا حصہ ہے اور وہ حکومت سے مختلف موقف نہیں اختیار کر سکتی اس لیے جو حکومت کا موقف ہے وہیں فوج کا موقف ہے‘‘خواجہ محمد آصف جیسے جہاندیدہ اور پرویز رشید جیسے دانشور وزرا کی باتیں سن کر ہنسی نکل جاتی ہے۔کہکیا یہ لوگ اس قدر بولے ہو سکتے ہیں۔کہ وہ فوج کی نفسیات کو نہ سمجھتے ہوں یا پھر یہ حضرات خوش فہمی کا شکار ہیں۔سید منور حسن کے ایک بیان پر خاموش نہ رہنے والے اپنے سابق چیف کی عدالت میں پیشی اور وہ بھی غداری کیس کے ٹائیٹل پر کیوں چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں؟ یہ نہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔

فوج نے سید منور حسن کے بیان کا جواب اس لیے دیا ہے کہ وہ براہ راست فوجیوں کی شہادت اور قربانیوں سے متعلق تھا۔بعض اوقات فوج پس منظر میں رہ کر اور خاموشی سے اپنے اہداف حاصل کرتی ہے ۔جیسا کہ اب ہورہا ہے۔کھلم کھلا تو فوج مشرف کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ سب کو علم ہے کہ مشرف نے ملکی آئین توڑا ہے وہ بھی ایک بار نہیں دو بار……اس لیے فوج کے لیے ظاہری طور پر میدان میں آنا کئی سوالات کو جنم دیگا۔اس لیے فوج نے مناسب خیال کیا ہے کہ اپنے سابق چیف کی عزت بچانے اور زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے پس پردہ رہ کر اپنا کردار ادا کیا جائے ۔میرے خیال کے مطابق فوج نے مشرف کیس میں اپنی تشویش سے حکومت کے ذمہ داروں کو آگاہ کر دیا ہے۔

کیامشرف عدالت میں نہ پیش ہو تو بھی انہیں غیر حاضری پر سز ا ہو سکتی ہے ؟ اگر پیش ہو تو بھی ان کے اور ان کے وکلاء کے پاس انہیں بچانے کے لیے ’’مضبوط ‘‘ دلائل نہیں ہیں۔ اور نوشتہ دیوار پر صاف لکھا دکھائی دے رہا ہے کہ ’’ جنرل مشرف کو سزا ہوجائیگی۔ اس وقت میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب عدالت کا فیصلہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔تو مشرف کی عزت اور جان کے محافظ راولپنڈی والے کیا کریں گے؟

مجھے ان کی جانب سے بہت سخٹ ردعمل کی توقع ہے۔مجھے خدشہ کم یقین زیادہ ہے کہ مشرف کیس کے فیصلے سے ملک ایک بار پھر ’’تاریکیوں‘‘ میں چلا جائیگا ۔اور یہ تاریک سائے اس بار بہت خوفناک قسم کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں……یہتاریک سائے لانے والے جنرل مشرف والی غلطی دہرانے کی غلطی نہیں کریں گے۔کسی کو جلاوطن کریں گے اور نہ کسی کو جیل اور قلعوں میں پھینکیں گے۔یقینا آپ سوچتے ہوں گے کہ آخر کارپھرہوگا کیا؟ میرے عزیزوں ! میرے عزیز ہم وطنو ! کہنے والے یہ سب کچھ کہنے سے قبل بہت ساری صفائی کر چکے ہوں گے…… نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری

یہ سب کچھ تب ہوگا اگر مشرف کو کچھ ہوگا……اگر جنرل مشرف محفوظ رہے تو یہ بھی محفوظ رہیں گے

Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144866 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.