تبلیغی مرکز دھماکہ۔ناکام خارجہ پالیسی کا شاخسانہ

خیبر پختوں کے شہر پشاور کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلا دیا گیا۔ اس بار ظالموں نے ایک ایسے طبقے کو اپنی دربدگی کا نشانہ بنایا۔ جو نہ تو سیاست کے گر جانتی ہے اور نا ہی مسلح جدوجہد کی طرف مائل ہوتے ہیں۔بلکہ انکا منشور یہی ہے ۔کہ دعوت کے ذریعے سے اﷲ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کے پیغام کو پوری دنیا میں عام کردیا جائے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہیں۔

پاکستان میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ۔کہ تبلیغی جماعت کو ٹارگٹ کیا گیا ہو۔ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کراچی کے علاقے ناظم آباد میں بھی تبلیغی جماعت سے وابستہ دو غیرملکیوں سمیت چار افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔اس سے پہلے سوات کے تبلیغی مرکز میں بھی پر اسرار دھماکہ ہوا تھا۔جن میں کافی جانی نقصان ہوا تھا۔ لیکن ہوا کیا؟ وہی نا جو پاکستان میں کسی بھی سانحے کے بعد ہوتا ہے۔یعنی سیاسی جماعتوں کی جانب سے دہشت گردوں کی مذمت کرنا۔دہشت گردوں کو کوسنااور حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی گرفتاری کا عزم کرنا۔اور یہی سب کچھ پشاور کے تبلیغی مسجد میں دھماکے کے بعد سننے کو مل گیا۔کہ ہم اس دھماکے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔دہشت کسی قسم کی بھی رعایت کے مستحق نہیں اور یہ کہ ہم انہیں کیفر کردار تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔سیاسی جماعتوں اور حکومتی ذمہ کے ان بیانات کو سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں۔ لیکن نہ تو آج تک حکومت کسی ذمہ دار کو کیفر کردار تک پہنچا سکا ہے اور ہی آئندہ کوئی امکان نظر آتا ہے۔

پاکستان میں اگر جاری دہشت گردی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے۔تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ زیادہ پرانا نہیں ۔9/11 سے پہلے کی پاکستان پر اگر نظر دوڑائی جائے تو نظر یہ آتا ہے۔کہ یہاں پر نہ تو کوئی خودکش حملوں سے واقف تھا اور نا ہی ڈرون حملوں کو کوئی جانتا تھا۔9/11کے بعد امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے صلیبی جنگ کے ایک مرتبہ پھر شروعات کرتے ہوئے جب افغانستان پر چڑھائی کا فیصلہ کرلیا۔تو اس کام کے لیے اس نے ہمارے’’کمانڈوِِ،،کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔کمانڈو بھی کیا کمانڈو تھا۔پاکستانی عوام ،مذہبی رہنماوں اور دانش وروں نے لاکھ سمجھایا۔کہ امریکہ کا ساتھ دینا کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں اور یہ کہ مستقبل میں پاکستان کو اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑسکتا ہے۔لیکن ’’کمانڈوِِ،، امریکی طاقت اور ٹیکنالوجی سے اتنا مرعوب تھا۔کہ اس نے کسی کی نہیں سنی اور امریکہ کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔

کمانڈو نے ایک طرف تو افغانی مسلمانوں کے قتل عام کرنے کے لیے امریکہ و ناٹو کو پاکستانی فضائی،زمینی اور سمندری حدود حوالے کئیں۔تو دوسری طرف مظلوم افغانوں کی مدد کرنے کی پاداش میں امریکہ کے کہنے پر غیور قبائیلیوں پر بھی چڑھائی کردیا۔یہی وہ وقت تھا جب باقاعدہ طور پر امریکی مفادات کا جنگ پاکستان میں لڑی جانے لگا۔ اس موقع پر محب وطن حلقوں کی جانب سے کمانڈو پرویز مشرف کو باز رکھنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن افسوس کہ وہ نہیں مانے۔مشرف کے جانے کے بعد جب پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت آئی ۔تو تب قوم کو یہ امید ہو چلی تھی کہ شائد اب پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئیگی اور قوم کو امریکی جنگ سے چھٹکارا مل جایئگا۔لیکن افسوس کہ اہل وطن کی امیدیں بار آور ثابت نہ ہوسکیں ۔بلکہ پی پی پی حکومت نے اپنے پیشرو مشرف سے بڑھکر امریکہ کا ساتھ دیا۔پی پی پی حکومت نے پہلی بار امن کمیٹیوں اور لشکروں کو تحریک طالبان پاکستان کے خلاف میدان میں اتارلیا۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وزیرستان میں شروع کردہ جنگ پورے ملک میں پھیلنے لگا۔اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی غیرملکی طاقتیں بھی میدان میں اترگئیں۔ نتیجتاً وطن عزیز میں ہر طرف افرتفری کا دور دورا ہوگیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادی حکومت کے ناکام پالیسیوں سے جب عوام بیزار آگئے۔تو انہوں نے عام انتخابات 2013میں پی پی پی اور اس کے اتحادیوں کو مسترد کرتے ہوئے دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ دیا۔جس کے نتیجے میں پاکستان مسلم لیگ نواز بر سر اقتدار آئی۔ نواز حکومت نے جب کام کا آغاز کیا ۔توفیملی بیک گراونڈ اور انتخابی وعدوں کے سبب اہل وطن اپنے مستقبل سیکافی پر امید تھے۔لیکن آفسوس اور صد آفسوس کہ موجودہ حکومت نے اغاز ہی میں جس راستے کا انتخاب کیا ۔اس سے اہل وطن کے سب خواب کانچ کے ٹکڑوں کے مانند کرچی کرچی ہوکر بکھر گئے۔ قوم کو ہرگز اور ہرگز یہ امید نہ تھیں کہ نواز شریف صاحب بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح اپنے عدوں کا لاج نہیں رکھے گا۔بلکہ قوم بجا طور پر میاں صاحب سے یہ توقع رکھتی تھیں۔ کہ میاں صاحب نہ صرف خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کریں گے،بلکہ وہ سابقہ لٹیروں کا بھی بھر پور احتساب کرینگے۔لیکن سیانے کہتے ہیں کہ ہاتھی کے کھانے کی دانت اور،دکھانے کے اورہوتے ہیں ۔سو بدقسمتی سے پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہاتھی والا معاملہ ہوگیا ہے۔کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد لگ ہی نہیں رہا۔کہ یہ وہی نواز شریف ہے جو الیکشن سے پہلے دکھائی دیتا تھا۔

آج پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے دھماکے کے بعد جس پر چاہے اسکا الزام لگادو۔ لیکن حیقیت بہر حال یہی ہے۔کہ پشاور دھماکہ ہو یا کراچی میں مفتی عثمان یار خان سمیت دیگر اہل وطن کا قتل۔اس کے پیچھے ہمارا یہی ناکام خارجہ پالیسی ہے۔جسے ہم نے گذشتہ 15سال سے گلے لگا رکھا ہے۔کیونکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس پالیسی کی وجہ سے ہم نے اپنی ساری توجہ اور توانائی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد امریکی جنگ پر لگا رکھی ہے۔ نتیجتاً کئی ممالک بشمول بعض دوست ممالک مسلسل وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔لیکن ہم پھر بھی حقائق کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔میں پورے وثوق سے یہ بات سپرد قلم کر رہاہوں ۔ کہ حکومت اور ایجنسیاں چاہے کچھ بھی کرلے۔ہر مسجد،ہرمدرسے،سکول ،کالج یاپھر بازاروں میں جتنی چاہے سیکیورٹی لگائے۔لیکن جب تک حقیقی دوست اور حقیقی دشمن میں ہم تمیز نہیں کرینگے۔مسائل جوں کے توں رہینگے۔لہذا حالات کو صحیح ڈگر پر لانے کے لیے ہمیں امریکہ کو خیرباد کہنا ہوگا۔خارجہ پالیسی تبدیل کرنا ہوگا۔

Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 106005 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More