اُداس روح

ایک مرتبہ مجھے قبرستان میں رہنے کا اتفاق ہوا ۔ وہ جمعہ کی شب تھی ۔ جب رات بھیگ گئی اور چاروں طرف خاموشی اور سنّاٹا چھا گیا تو میں نے دیکھا کہ مُردے اپنی اپنی قبروں سے باہر نکل رہے ہیں ۔ ہر مردہ مختلف قسم کا لباس پہنے ہوئے ہے اور ہر ایک کے سامنے مختلف قسم کے کھانے رکھے ہوئے ہیں۔ جس مردے کا لباس زیادہ پاکیزہ اور کھانا بہترین تھا وہ دوسروں میں معزز اور منفرد تھا۔ ایک مردہ دوسرے مردے کو اپنا لباس اور کھانا دکھا تا ۔ مُردوں کی یہ محفل بالکل دنیاوی مجلس جیسی تھی جس میں تمام دوست واحباب کی طرح جمع تھے۔

ان تمام مرُدوں میں سے ایک مردہ الگ اور با لکل برہنہ بیٹھا تھا ۔ اس بے چارے کے پاس نہ کھانا تھا نہ کوئی اور چیز۔ وہ ننگا مردہ نہایت حسرت اور غمزدہ نگاہوں سے اس مجلس کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس مجلس میں موجود کوئی بھی مُردہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہورہا تھا۔

یہ دیکھ کر مجھے اشتیاق ہوا کہ کچھ معلومات حاصل کروں۔ چنانچہ میں اسی ننگے مُردے کے پاس گیا اور اس سے سوال کیا ۔

’’یہ کیسا مجمع ہے ؟ مردے کیوں جمع ہوئے ہیں؟ان کے پاس رنگ برنگ کے لباس اور انواع و اقسام کے کھانے اور پھل میوے کہاں سے آئے ہیں اور تم اس مجلس سے علیحدہ خاموش اور غمگین کیوں بیٹھے ہو ؟‘‘

اس مُردے نے روتے ہوئے جواب دیا۔’’ آج جمعہ کی شب ہے اور اس رات ہم سب کو آزادی ہوتی ہے کہ آپس میں مل جل کر دل بہلائیں۔ یہ لباس اور کھانا جو تم دیکھ رہے ہو ۔ یہ ہر ایک کے عزیز اور دوست نے بطور تحفہ بھیجا ہے۔ جس شخص کا لباس قیمتی اور کھانا بہترین ہے ، وہ اس بات کی نشانی ہے کہ یہ شخص دنیا میں بھی اچھااور معزز تھا ۔ لیکن جس کا لباس اور کھانا معمولی ہے اس کی اس مجمع میں بے عزتی اور حقارت ہوتی ہے۔ کیونکہ ، وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار تھا۔‘‘

افسوس اہل دنیا مُردوں کی قدر نہیں کرتے۔ حالانکہ وہ زندوں میں سے زیادہ نیکی اور بہتری کے محتاج ہوتے ہیں۔ دنیا کی کوئی شرمندگی یہاں کی شرمندگی سے زیادہ سوہانِ روح نہیں ۔

مجھے جو تم اس حال میں دیکھ رہے ہو ، اس کی یہ وجہ ہے کہ میرا دنیا میں کوئی نہیں ہے جو مجھے تحفے تحائف بھیجے۔ ایک بیٹا دنیا میں ہے مگر وہ نالائق ، شرابی اور بدکار ہے۔ جس قدر میں نے ترکہ چھوڑا تھا وہ سب اس نے عیاشی کی نذر کردیا اور کبھی بھولے سے بھی میرے نام کوئی تحفہ نہیں بھیجا۔

مُردے نے خاموش ہو کر ٹھنڈا سانس بھرا ۔ میں حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ ایک دو لمحوں بعد وہ ننگا مردہ دوبارہ بولنے لگا۔ ’’اب میرا بیٹا خود محتاج ہے اور بھیک مانگتا پھرتا ہے۔ اسی کی تکلیف سے میرا دل اور بھی غمگین رہتا ہے۔ اگر تم اﷲ کے واسطے میری مدد کرو تو میں بھی اس قابل ہوسکتا ہوں کہ اس مجمع میں عزت کے ساتھ شریک ہوسکوں۔

میں نے جواباََ ہمدردانہ لہجے میں اس سے کہا ’’میں دل و جان سے حاضر ہوں اور جو بھی خدمت میرے لائق ہو بسر و چشم بجا لاؤں گا۔‘‘ اس مردے نے کہا کہ میں فلاں شہر کا رہنے والا ہوں اور فلاں محلے میں میرا مکان ہے۔ اس مکان میں میرا بیٹا خراب حالت میں پڑا رہتا ہے۔ اس مکان میں فلاں کونے میں میرا بہت سا روپیہ جمع ہے مگر میرے بیٹے کو اس دفینہ کا پتا نہیں ہے۔

اب تم وہاں جاکر اس دولت کو نکال کر میرے بیٹے کے حوالے کردو اور اسے نصیحت کرو کہ وہ بری باتوں سے توبہ کرے اور اس روپے سے اپنی زندگی سدھارے اور کبھی کبھی اپنے باپ کو فاتحہ اور خیر سے یاد کیا کرے۔ لیکن سارا روپیہ اسے مت دینا۔آدھی رقم تو اسے سمجھا کر دینا اور آدھی رقم سے تم اپنے ہاتھ سے عمدہ عمدہ کھانے پکواکر مستحق اور غریب غرباء کو کھلا نا اور اچھے اچھے لباس تیار کراکے انھیں پہنانا۔ اگر تم یہ کام کروگے تو اﷲ تعالیٰ تمہیں اس کا اجر دے گا۔

ننگے مردے کی درخواست سن کر میں اسی وقت قبرستان سے چل دیا ۔ وہ شہر جہاں اس مردے کا بیٹا رہتا تھا۔ قبرستان سے بہت دور تھا ۔ مگر میں منزلیں طے کرتا ہو ا وہاں جا پہنچا۔ جیسا کہ اس مردے نے مجھے بتایا تھا ، وہ سب واقعہ بالکل درست تھا۔

میں اس مردے کے بیٹے سے ملا اور اس کے باپ کا تمام حال اسے سنایا ۔ وہ زار و قطار رونے گلا ۔ اپنی بری حرکتوں پر وہ نادم اور پریشان تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ ’’مجھ سے عہد کرو کہ اگر اﷲ تمہیں فارغ البال اور آسودہ کردے تو تم شریفانہ اور زاہدانہ زندگی بسر کروگے۔ــ

مردے کے بیٹے نے وعدہ کرلیا ۔ اس کے بعد میں نے مردے کی بتائی ہوئی جگہ کھودی تو وہاں سے اسی قدر رقم برآمدہوئی جتنی اس مردے نے بتائی تھی۔ اسکی ہدایت کے مطابق میں نے آدھی رقم تو اس کے بیٹے کو دیدی اور باقی آدھی رقم کے کھانے اور کپڑے فقیروں محتاجوں کو تقسیم کردیئے۔

اس تمام کاروائی سے فارغ ہوکر اگلے جمعہ کو پھرمیں اسی قبرستان میں آیا ۔ رات کا وقت تھا ۔ تمام مردے بدستور سابق وہاں جمع ہوئے ۔ مگر میں نے اس مردے کو نہ پہچانا۔ کیونکہ آج وہ تمام مُردوں میں معزز تھا ۔ اچانک وہ خود میرے پاس آیا اور ہنس کر میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔

’’اب میں تمام احباب میں معزز و محترم ہوں۔ میرا بیٹا بھی توبہ تائب ہوکر شریفانہ زندگی زندگی بسر کررہا ہے۔ اور مجھے برابر تحفے تحائف بھیجتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے۔‘‘

افسوس کے اہل دنیا اس بات سے ناواقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مرا اور گیا۔ اب وہ کسی ضرورت کا محتاج نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات نہیں جس طرح زندہ لوگ دنیا میں ذلت کی کوئی بات پسند نہیں کرتے ، اسی طرح عزت و ذلت کا سوال عالم ارواح میں بھی ہے۔وہاں کی شرمندگی یہاں کی شرمندگی سے ہزار درجہ بڑی ہوتی ہے۔

اپنے مُردوں کے عزت کرو۔ وہ تمہاری عزت کے محتاج ہیں اور ان کو مردہ نہ جانو سمجھو۔ بلکہ ان کی بھی عالم ارواح میں ایک زندگی ہے جو دنیاوی زندگی سے زیادہ حساس ہے۔ وہ تمہاری نیکی کے منتظر ہیں۔ ان کو کبھی فراموش نہ کرو ۔ اگر تم مردوں کو یاد کروگے تو جب تم خود مردہ ہوگے تو تم بھی یاد کئے جاؤ گے۔ اگر تم انہیں بھلا دوگے تو تم بھی بھلادیئے جاؤ گے۔ (ماخوذ: عالمِ ارواح)
 

M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 303750 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.