تو! پھر انصاف کیسے ہوگا؟

اگر ہم درخواست منظور بھی کرلیتے ہیں تو کیا کوئی قابل عمل آرڈر پاس کرسکیں گے؟ کیا سپریم کورٹ تحقیقات کراسکے گی؟ یہ چار حلقوں کانہیں پورے ملک کا معاملہ ہے اگر چند حلقوں کی اجازت دیدی تو بات یہیں تک نہیں رکے گی بلکہ پورے ملک سے درخواستیں آنا شروع ہوجائیں گی اور لائن لگ جائیگی۔مزید یہ کہ معززعدالت نے الیکشن کمیشن کو حکم دیاکہ این اے125 لاہور اور این اے154 لودہراں کے متعلق الیکشن ٹریبونل میں درخواستوں کی تفصیلات پیش کیجائیں۔ الیکشن کمیشن بتائے کہ اس نے اپیلیں خود کیوں نہیں سنیں۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے سیکرٹری الیکشن کمیشن15 روز میں جواب داخل کریں۔ یادرہے کہ ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار حامد خان اور جہانگیر خان ترین ناکام ہوئے جبکہ مسلم لیگ نون کے امیدوار جیت گئے تھے۔

عوام انگشت بدنداں ہیں کہ یہ الفاظ پاکستان کی سپریم کورٹ کے معزز و محترم چیف جسٹس صاحب کے ہیں جب کہ عوام پاکستان بالخصوص پسماندہ اور غریب طبقہ ان سے آس و امید لگائے ہوئے ہیں۔ عوام پاکستان کے اذہان میں مختلف قسم کے سوالات گردش کررہے ہیں ۔اگر عدلیہ اور ججز انصاف فراہم کرنے یا مقدمات کے فیصلے کرنے میں لیت ولعل سے کام لیں۔ یا اس بنا پر فیصلہ نہ کیا جائے کہ اسے نظیر بنا کر دوسرے متاثرین بھی انصاف کیلئے درعدالت پر دستک دیں گے تو پھر محتر م چیف جسٹس! متاثرین عوام کدھر جائیں ۔کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں ۔کونسی زنجیر عدل ہلائیں۔ کیونکہ انہیں حکومت پاکستان ،وزیراعظم ،وزرائے اعلی اور نام نہاد عوامی نمائندوں سے کسی خیر کی توقع نہیں۔کسی اچھائی وبھلائی کی امید نہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ عوام کا خون چوسا۔ ان کی ہڈیوں میں سے گودا نچوڑلیا۔پاکستان کو تباہی (خاکم بدہن) کے دہانے پر لا کھڑ اکیا۔ دوردور تک روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ہر طرف گھپ اندھیروں نے ڈیر ے ڈال رکھے ہیں ۔عوام کو ایک بے ہنگم ہجوم بنا کر بیچ چورا ہے پر لا کھڑ ا کیا ہے۔ان کی قوت فیصلہ سلب کر لی گئی ہے۔ زبان گنگ ہو کر رہ گئی ہے۔ ٹانگوں نے جسم کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا ہے۔ ہاتھ شل ہوچکے ہیں۔ عوام پاکستان ایک ایسی زندہ لاش کی مانند ہوگئی ہیں جو صرف سن سکتی ہے۔ہوش وحواس سے بیگانہ یہ مجبور و محکوم پھر واپس اپنی حالت میں آنا چاہتی ہے۔اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے۔اپنی زبان سے کچھ کہنا چاہتی ہے۔اپنے پاؤں پر کھڑا ہوکر ملک کو خوشحالی وترقی کی طرف گامزن کرنا چاہتی ہے اپنے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنا چاہتی ہے۔ اپنے بے حس، مفلوج و جود سے چھٹکارا چاہتی ہے اور یہ سب کرنے کیلئے اسے آپ جیسے مخلص انسانوں کے سہارے کی ضرورت ہے جو ظلمت شب میں ان کی رہنمائی کرسکے۔ ان کے ماؤف ذہنوں اور مفلوج جسموں کو تحریک وتوانائی دے سکیں۔

محترم چیف جسٹس صاحب! آپکا وژن ،آپکی سوچ یقینا بہت دور تک دیکھتی اور سوچتی ہے ہم سے کئی گنا زیادہ عقل وشعور رکھتے ہیں۔ یقینا آپ کے الفاظ اور فیصلہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں آپکی یہ آبزرویشن بھی یقینا بہت سی پیچیدگیوں سے بچنے اور سلجھانے کا ایک ذریعہ ہے۔اور الیکشن ٹریبونل کو پابند بھی کیا کہ وہ پندرہ دنوں میں اس کی وضاحت کرے۔ لیکن کیا الیکشن ٹریبونل نے ان معاملات میں فیصلے نہ کرکے، ان کو delayکرکے انصاف کے راستے میں رکاوٹ حائل نہیں کی۔ کیا انہوں نے اپنے فرائض سے غفلت نہیں برتی؟ ان سے پوچھا جائے کہ ان کے پیش نظر کیا مصلحت تھی ؟کہ انہوں نے عوام کو عدلیہ پر انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کیا ۔کیا انہیں نشان عبرت نہیں بنایا جانا چاہیے؟ کہ انہوں نے اپنے فرائض کو حقیقی معنوں میں سرانجام نہیں دیا۔اسے روٹین میٹر جان کر پس پشت ڈال دیا۔ یہ سب باتیں لکھنے کا مقصد خدانخواستہ عدلیہ کی توہین یا اسے نشانہ بنانا ہرگز ہرگز نہیں ۔بلکہ یہ کچھ سوالات ہیں جو پسماندہ ،ان پڑھ اور جاہل عوام اپنے الفاظ میں تمام آداب ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے دست بستہ عرض کررہی ہے۔ان سوالات کے ابھرنے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔میں ایک بیان کرنا چاہتا ہوں۔

ہمارے علاقے کے ایک اسسٹنٹ کمشنر ہیں چند روز قبل ان کے ساتھ بیٹھنے اور ملاقات کرنے کا موقع ملا۔ان سے بہت سے چبھتے ہوئے سوالات کیے گئے بالخصوص رشوت اور کرپشن کے حوالے سے ۔انہوں نے ان تمام سوالات کے جوابات بڑی خندہ پیشانی اور تحمل سے دئیے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام فرائض ادا کرنے کے باوجود ان پر Implementنہیں ہوتا تو دکھ ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے قبرستان کیلئے بننے والی دیوار میں ناقص میٹریل پر ایکشن لیا۔ ساری دیوار گرا دی ،کام رکوا دیا اور اسکی رپوٹ ڈی سی او اور متعلقہ حکام کو بھی کردی۔ تاحال کوئی رسپانس نہیں۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتا ل میں ڈاکٹرز اور سٹاف کے آوے کا آوہ بگڑ چکا ہے۔ کوئی اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کرنے پر تیار نہیں۔ وزٹ کرنے پر بہت سے معاملات میں بد عملی اور بد نظمی دیکھی۔ متعلقہ ڈاکٹرز اور افراد کے خلاف رپورٹ کی ۔ ارباب اختیار اور متعلقہ اتھارٹی نے فارمیلٹی پوری کردی ۔محکمہ کو انکوائری دی۔ انکوائری مکمل ہوکر داخل دفتر ہوچکی۔کسی کو سزا ،سرزش نہ ہوئی۔سکولوں کا وزٹ کیا ،حالات بہت دگرگوں اور مسائل گوناگوں تھے۔سٹاف اور ٹیچر غیر حاضر ،طلباء غائب سکولو ں میں وڈیرے ،جاگیردار قابض ۔پچھلی تاریخوں میں غیر حاضری کو چھٹیوں پر تبدیل کیا جانا ،استانیوں سے ایک سوٹ رشوت لے کر ان کی مرضی کے کام کرنا جیسے عوامل پائے گئے۔ ارباب اختیا ر کو رپورٹ کی گئی۔کوئی عمل نہ ہوا ۔اب پٹوار ی کو اس کے غلط کام پر منع کرو تو وہ اسے اپنی تو ہین سمجھتا ہے اور ایک مخصوص لابی ہڑتال کردیتی ہے کام بند ہوجاتا ہے۔ایم این اے،ایم پی اے involveہو جاتے ہیں ۔ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوتی اور الٹا شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔یہ اور اس قسم کے حالات میں کوئی شخص دردمندی اور خلوص کے ساتھ کام نہیں کرسکتا ۔ کہ جب کسی غلط کام پر ایکشن ہی نہ ہوسکے۔ بعینہ حالات ہر جگہ ہر شہر میں ہیں۔کام کرنے والے افسر کو باندھ دیا جاتا ہے اس کے اختیارات سلب کرلیئے جاتے ہیں تو ایسے میں آپ جیسے با اختیار،قوت فیصلہ رکھنے والے اشخاص پر لوگوں کی نگاہ ٹھہرتی ہے۔ اس لیے جناب چیف جسٹس صاحب گذارش ہے کہ الیکشن سے ہٹ کر اس وجہ سے فیصلہ اور انصاف کرنا delay نہ ہو کہ پھر دوسرے متاثرین بھی اپنے حقوق کیلئے عدالت کا دورازہ کھٹکھٹائیں گے۔بلکہ کوتاہی برتنے والے ہرشخص کو بلاتمیز قانون کے کٹہرے میں لاکر ان کی غفلت اور لاپرواہی کی سزا دیں تاکہ انصاف کابول بالا ہو ، عدلیہ کا وقار قائم رہے اور عوام کو تیز اور سستا انصاف مل سکے۔
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193211 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More