ہماری اندرونی لڑائیاں

مسئلہ کشمیروتقسیم کشمیر کی بنیاد اس وقت پڑھی جب ریاستی عوام کی پہلی سیاسی جماعت میں اختلافات نے جنم لیا اوروہ دو حصوں میں تقسیم ہو ئی ۔جناب چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداﷲ کی قیادت میں تقسیم ہونے والے دونوں دھڑوں نے ہند وپاک کے خیموں میں پناہ لی اور انہی کے ہو کر رہ گئے ۔اور ان کے مہمان بننے کے بعد ریاستی عوام یا ان کے حقوق سے تقریباصرف نظر کرتی یہ قیادت اپنے زاتی مفادات اور اقتدار کی رنگا رنگ بھول بھلیوں میں گم ہو گئی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریاستی عوام کو صدیوں پر محیط طویل ترین غلامی سے زرہ راحت ملی تھی۔وہ غلامی جس نے ریاستی زندگی کو ہر اعتبار سے متاثر کیا تھااور ہمیں قومی یا بین الاقوامی سطح پہ ہونے والی تبدیلیوں و سازشوں کاقطعی ادراک نہ تھا ۔یہی وجہ رہی کہ ہم نے سیز فائر و جبراً تقسیم کے بعد قیادت وقت پر تکیہ کر لیا ۔۔۔اندھا اعتماد کر لیا اور خود معمولات زندگی میں محو ہو گئے۔اور یوں امور مملکت چند ایسی شخصیات کے مرہون منت ٹھہرے جن کے بقول ۔۔۔عوام کے لئے اتنا کافی ہے کے ہم اقتدار میں ہیں۔۔۔کی روش اپنائی گئی اور پھر انہوں نے قضیہ کشمیر کے ساتھ وہ سلوک کیا جو سب کے سامنے ہے ۔۔آہستہ آہستہ لفظ’’ کشمیر‘‘ہر ایک کے لئے ایک منافع بخش’’ پروڈکٹ‘‘ بنتا گیا ۔اوائل میں تو یہ چوہدری و شیخ اینڈ کمپنی کی دکان بنا اور ذرہ بعد ہند وپاک کی بیوروکریسی ،اسٹبلشمنٹ سمیت کئی سیاسی گھرانے اس کاروبار میں قسمت آزمائی کے لئے میدان کار زار میں اترے۔جی بھر کر لطف اندوز ہوئے ۔۔۔منافع بھی سمیٹا۔۔۔ وہ جو 1941میں علیحدہ ہوئے تھے نے مشرق و مغرب اڑان بھری اور اسلام آباد و نیو دہلی کی گود میں بیٹھ کر اپنے ہمدردوں میں اضافہ کی غرض سے منقسم ریاستی عوام کے ازہیان میں قبیلا ،برادری اور علاقہ ازم کا بیج بویا اور اپنے آقاؤں کے چہیتے بنے۔ قوم کو کئی نعروں میں بانٹ دیا اور ان حالات میں مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا۔ایسے میں اس اہم قومی مسئلہ کی نوعیت کا احساس رکھتے کچھ احباب نے جدوجہد آزادی کو اس کے حقیقی تناظر میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ۔حسب روایت مشکلات نے گھیر ا،لیکن وہ سوچ و نظریہ بہر حال پنپتا رہا ۔قربانیوں کا ایک لامتنائی سلسلہ چل نکلا۔اور شعور کی کرنیں عام آدمی کے گھر کے دروازے پہ دستک دینے لگیں اور پھر ایک زوردار مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا ،جوبے شک مبنی بر حق تو تھی،لیکن کچھ خامیوں کوتائیوں کے باعث ان خوابوں کو تعبیر نہ دے سکی جو عوام نے دیکھ رکھے تھے ۔۔۔اورجو دکھائے گئے تھے۔

جب تحریک کا آغاز ہوا تو ایک میجر آرگنائزیشن کے علاوہ اکا دکا آزادی پسند تنظیمیں تھیں جب کہ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد تقسیم تنظیم کا ایک ایساطوفان برپا ہوا، جس کی بنیاد1941پڑھی تھی اور مختصر وقت میں ملکی درودیوار آزادی پسند تنظیموں کے نت نئے ناموں سے بھر گئے۔پارٹیوں کو تقسیم کرنا اور نئے دھڑے قائم کرنا جیسے ایک رواج بن گیا ۔اس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ غلامی زدہ قوم تحریک کے معروض و بنیادی سیاسی شعور سے نا بلد تھی ،جس کے باعث جب کوئی تنظیم وجود میں آتی مخالف قوتیں آسانی سے اسے تقسیم کرنے میں کامیاب ہو تی رہیں،اور تنظیموں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل مسلسل بڑھتا رہا۔تنظیموں کی ساری توانائیاں ان کی اندرونی جنگ وجدل میں صرف ہوتی رہیں اور ہنوز ہو رہی ہیں ۔جتنے منہ اتنی باتیں ،قول و فعل میں تضاد، کردار کی گراوٹ اور کوئی وژن نہ ہونا بھی ایک وجہ ثابت ہوا۔۔۔ہرکارکن چاہتا ہے کہ پارٹی اس کے آرڈر پر چلے ۔۔۔اور صدر جوکسی سطح کا بھی بنے تو مطلق العنان ۔۔۔بادشاہ ۔۔۔ڈکٹیٹر ۔۔۔جن سے تواقع کہ وہ پوری تنظیم وقوم کوساتھ لے کر چلے وہ ممبران کو اپنی رعایا سے زیادہ کوئی مقام دینے کو آمادہ نہیں اور اپنے عہدے کے خمار میں اپنے ہی نظریاتی ساتھیوں کی تزہیک سے بھی نہیں چوکتے ،ہر وہ کام جو قومی مفاد کے چاہے خلاف ہو سرانجام دے کر اپنی طاقت کا مظائرہ کرتے ہیں،اور جوابدہی کے لئے آمادہ نہیں ہوتے کہ میں ۔۔۔صدر ہوں ۔۔۔جو چاہے کروں مجھے مینڈیٹ حاصل ہے اور پھر تنظیموں میں مسائل جنم لیتے ہیں ۔ ان الجھے ہوئے مسائل کو کچھ مخلص وسچے نظریاتی لوگ ’’مرمت ‘‘کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور کچھ زاتی انا اور محدود سوچ کے باعث بگڑے رہتے ہیں اور کچھ ہر دو صوروتوں میں تنظیم کی بھاگ ڈور و عہدوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں۔اس طرح کسی بھی تنظیم میں کبھی ادارے وجود میں نہیں آتے ۔نتیجتاًنا اہل و غیر نظریاتی و روائتی لوگ بنا قوائد و ضوابط کے اعلی عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں اور اس طرح کسی بھی منصب پر پہنچنے والے کو ہمیشہ اپنامنصب کھونے کا ڈر لگا رہتا ہے اوریا وہ اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا خواہشمند۔۔۔ اس کیفیت میں وہ ہر کسی کو اپنا دشمن سمجھنے لگتا ہے۔اورہر کسی کی مثبت رائے میں بھی اسے اپنی مخالف نظر آتی ہے اور اس کاتمسخر اڑایا جاتاہے ۔پسند و نا پسند پر ساتھی بنائے جاتے ہیں آزادی پسند و قوم پرست سرعام علاقایت اور قبیلہ پرستی کا عملی مظائرہ کرتے ہیں اور اہل لوگوں کے خلاف ہمیشہ سازشیں ہوتی ہیں اور اگر کوئی نتائج دینے لگے تواسے بھی برداشت نہیں کیا جاتا وہ بھی ایجنٹ ثابت کر دیا جاتا ہے اور جب کسی بھی سطح کے انتخابات ہونے لگیں تو ایک ہجوم ساون کے مینڈکوں کی طرح کہیں سے نکل آتاہے ۔۔۔کنونشن ختم ۔۔۔عہدے ملے۔۔۔ اور سب غائب۔۔۔اور دوسرے کنونشن تک ان کی شکل نظر نہیں آتی۔اور اگر طویل ترین غیر حاضری کے باعث کسی کے منصب کو بدلنے کی کوشش کی جانے لگے تو طوفان بد تمیزی۔۔۔کہ دیرینہ ساتھی کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے لیکن وہ اپنے عہدے یا زمہ داری کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ۔۔۔کوئی مسئلہ نہیں۔پھر بھی محترم ہے ۔اور جلسوں میں ان کی تقریریں سنیں تو زبان حلق میں اٹک جائے،لیکن عملی طور پر یہ لوگ انتہائی کھوکھلے اور دوغلے ثابت ہوئے ہیں اور حالیہ تحریک آزادی جو کہ انہی وجوہات کے بناء پر آخری ہچکیاں لے رہی ہے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھاہے۔گزشتہ پچیس برسوں میں درجنوں گروپ منظر عام پر آئے اور ان میں صرف ایک باردو دھڑوں کا ادغام ہوا لیکن چند روز بعدمذید دو نئے دھڑے ظہور پذیر ہوئے ۔اس پار۔۔۔اس پار۔۔امریکہ ،یورپ ،خلیج گلف حتیٰ کہ جہاں بھی کسی تنظیم کا چھوٹا سا کوئی یونٹ ہے تو وہاں بھی’’میں‘‘ کی یہ جنگ جاری وساری ہے ۔وہ جو گلے پھاڑ پھاڑ کر قوم پرستوں کے اتحاد کی بات کرتے ہیں اگر غور کیا جائے تو انہیں ہی کہیں نہ کہیں اس تقسیم کا زمہ دار پائیں گے۔جب کسی نئے گروپ کے لئے فضا ہموار ہو رہی ہوتی ہے تو کارکن جتن کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو لیکن وہ لوگ اپنی ہٹ درمی سے باز نہیں آتے اور پارٹی کو تقسیم کا زخم دے کر ہی دم لیتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہی اتحاد کا واویلہ کرتے نظر آتے ہیں ۔۔۔ہماری طرف سے ہمیشہ ہر نجی محفل میں اندرون ملک ،ہند وپاک ،امریکہ یورپ اور پوری دنیا پر ہماری تحریک آزادی کو ثبوتاژکرنے کے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہماری تحریک کا ہم سے بڑا دشمن اور کوئی نہیں رہا ہے۔ یہی وہ اصل وجوہات ہیں جن کے باعث آج تلک ریاست میں کوئی اعلیٰ ڈسپلن کی حامل تنظیم وجود میں نہ آسکی جو خود کو بین الاقوامی سطح پر ایک انقلابی قوت کے طور پر منوا سکتی،یہ تبھی ممکن ہے کہ تنظیموں کے اندرونی جنگیں ختم ہوں ۔خود نمائی کی لعنت ،عہدوں کی حوس ،دروغ گوئی جیسی شرمناک عادات اور قول و فعل میں نضادجیسے عوامل کا خاتمہ ہو اور با کردار لوگ سامنے آئیں۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 75599 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.