حضرت علی کرم اللہ وجہہ

حضرت علی کرم اللہ وجہہ (599 – 661) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد ہے۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور وہیں پرورش پائی۔ پغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ حضرت علی علیہا السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی

فاطمہ علیہا السلام اور علی علیہ السلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت آپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ُ حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے، وہ گھر دنیا کی آرائشوں سے دور, راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا, محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بنا ہوا تھا، جہاں سے علی کرم اللہ وجہہ صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اور یہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے او جو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر آتے تھے. بازار سے جو خرید کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیتے تھے اور فاطمہ چکی پیستی, کھانا پکاتی اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں, فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی تھیں.

جہاد
مدینہ میں آکر پغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا. آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا . بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیا اور تکلیفیں پہنچائیں. پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی, اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنہوںنے کہ آپ کو انتہائی ناگوار حالات میں پناہ دی تھی اور آپ کی نصرت و امداد کاوعدہ کیا تھا, آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن آبادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھ تعداد بہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ ادمی تھے, ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی. جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے. اس لڑائی میں زیادہ رسول پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے. علی ابن ابو طالب کرم اللہ وجہہ کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا. 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سر رہا. جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے. تقریباً ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا. اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو تنہا بھیجا اور انہوں نے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیا جس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیا اور اس کا سر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا. آپ کو غصہ آگیا اور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا, اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت رضی اللہ عنہ نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی. چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر آئی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کو قتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر آگیا کہ اس کا قاتل حضرت علی کرم اللہ وجہہ سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔


خدمات
جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنا خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے ليے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے ليے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں حضرت علی اسے اپنے ليے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

اعزاز
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلاً آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہ الفاظ » علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے .,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا»علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔ کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا. جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پغمبر نے اپنا دنیا و آخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

بعدِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ کی لاش کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول کی تجہیز و تکفین اور غسل و کفن کا تمام کام حضرت علی علیہ السلام ہی کے ہاتھوں ہوا اور قبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا۔ اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ و منسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف و تالیف کا اور علمی تحقیق کا ذوق پیدا کیا اور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ و احکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا. بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کا کام انجام دے سکیں, زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحو کی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے. ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفاد ملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت, قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے .

خلافت
پچیس برس تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت علی نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کا منصب حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سامنے پیش کیا. آپ نے پہلے انکار کیا, لیکن جب مسلمانوں کا اصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظور کیا کہ میں بالکل قران اور سنت ُ پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رو رعایت سے کام نہ لوں گا. مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا, آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنہیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا, آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا اور جمل# اور صفین# اور نہروان# کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں. جن میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی. ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی, مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت و مزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردیے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے, پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے, غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے تھے. جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے, یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے. مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں, انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب و کتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اگر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجا دیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے. آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے. آپ اسلامی خزانے میںمال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے.

شہادت
حضرت علیہ السلام کو 19 رمضان 40 ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کر کے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے آخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی وفات ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیز و تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔
Haris Khalid
About the Author: Haris Khalid Read More Articles by Haris Khalid: 30 Articles with 61205 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.