فیشن کا بڑھتا ہوا رحجان

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس میں نظریات کی بنیاد بھی اسلامی اُصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی مگر آجکل تعلیمی اداروں میں فیشن کا بڑھتا ہوا رحجان بہت آگے نظرآتا ہے جن میں یونیورسٹی ، کالجز اور انسٹیٹوٹ وغیرہ شامل ہیں اور اس کے ساتھ ہی لڑکیوں کا فیشن سے بھر پور لباس بھی شامل ہے چند دن پہلے نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں لاہور گرلز کالج کے باہر کا منظر دکھایا گیا اُس منظر میں کالج کے باہر لڑکوں کے منڈلانے کا منظر دکھایا گیا اور وہ یہ کام اپنے دیگر کاموں کو چھوڑ کر بہت مزے سے کرتے نظر آتے ہیں اور جب لڑکیوں سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے ان باتوں پر ناگواری ظاہر کرنے کے بجائے اُلٹا اس کو تفریح کا ذریعہ قرار دیا اور ’’ٹائم پاس ‘‘ کا نام دیا اور یہ سب کچھ دُنیا کے سامنے آیا جس کو پوری دُنیا نے دیکھا اور سُنا ۔مگر سوچنے کی بات تو ہے کہ کیا ہم اتنے زیادہ ماڈرن ہو گئے ہیں اور ماڈرنزم کے نام پر اپنی روایات اور اقداروں کو بھلا بیٹھے ہیں اگر ہم اس طرح ماڈرن ہیں کہ ہمارے نوجوان لڑکیوں کو چھیڑتے ، تاڑتے اور پیچھا کرتے ہیں اور ہماری لڑکیوں کو یہ سب انٹرٹینمنٹ لگتا ہے تو انتہائی افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑے گی کہ ہم سب جس میں ہماری خصوصاًنوجوان نسل ، ہمارا معاشرہ ، والدین اور ہمارا ملک تباہی کے راستے پر ہیں یہ ماڈرنزم نہیں کہ، کیا ہمارا معاشرہ جو کہ اسلامی ہے ، کیا ان کی اجازت دیتا ہے ؟ کیا ہماری روایات اور اقدار ہم کو ان رابطوں کی اجازت دیتا ہے ؟ہماری نسل کس راستے پر چل رہی ہے ؟ ہمارے والدین اپنے بچوں کی کیا تربیت کر رہے ہیں ؟ کیا والدین اپنے بچوں اور بچیوں کو گھر سے نکلتے وقت دیِکھتے ہیں جب وہ گھروں باہر تعلیم حاصل کرنے اور کاموں کے لیے نکلتی ہیں ؟

تو کیا یہ والدین کا فرض نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے نکلتے وقت دیکھیں اور کیا یہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ کا فرض نہیں کہ وہ ایسے قواعد و ضوابط بنائیں کہ طلبا و طالبات مہذب حلیے میں نظر آئیں اور حکو مت کو چاہیے کہ وہ بھی اس سلسلے میں خاص اقدامات کرے اور باقاعدہ تمام تعلیمی اداروں میں ایسی پالیسی ترتیب دی جائے جس پر سختی سے عمل کیا جائے ہمار ے اساتذہ پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ان کو چاہیے کہ وہ طلبا و طالبات کی کردار پر خصوصی توجہ دیں ان سب میں سب سے اہم کردار میڈیا کا ہے مگر افسوس کہ ہمارے میڈ یا پر آجکل جس طرح کے پروگرام دکھائے جاتے ہیں اگر آپ مارننگ شو کی مثا ل لے لیں تو تمام مارننگ شوز عمو ماً میز بان دوپٹہ سے عا ری ہو تی ہیں اور اگر اس پر آواز اُ ٹھا ئی جائے تو اس کو میڈیا پر پابندی کا نام دیا جاتا ہے اور میڈیا کی آ زادی میں رکا وٹ کہا جا تا ہے -

لہذا حکومت اور انتظا میہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہما ری مذ ہبی اقدا ر کو سر عام کرنے کے لیے اقدامات کرے اور مذ ہبی اقدار ، معا شرتی اقدار اور روایات کو بر قرار رکھنے کے لیے اقدامات کرے اور تعلیمی اداروں کے باہی منڈلا تے نو جوانو ں کی ایسی لگام لے کہ وہ آئندہ اس بارے میں سو چے بھی نہیں ۔
کشف احمد ۔ جامعہ کراچی
 

Kashaf Ali
About the Author: Kashaf Ali Read More Articles by Kashaf Ali: 6 Articles with 4350 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.