تعلیمی اداروں میں سزا کا کلچر

جب ہم سکول جاتے تھے تو اس و قت صرف اور صرف گورنمنٹ سکول ہوا کرتے تھے ان میں ایک ہی قسم کا نصاب پڑھایا جاتا تھااورایک ہی طرح کا طریقہ کار ہوا کرتاتھا ہمارے ذہن میں، سوچ میں، ایک ہی بات تھی کہ سزا کا دوسرانام سکول ہے۔ سکول میں مار پڑنا،کان پکڑنا،مرغا بننا،ہاتھوں پر ڈنڈیاں کھانا تعلیم کا لازمی جزوہے۔اس کے بغیر پڑھا نہیں جا سکتا استاد بھی سزا دیتے ہوئے یہی کہتے تھے کہ ہم بھی مار کھا کے پڑھے ہیں آپ بھی مار کھا کے ہی پڑھو گے ہم سوچتے تھے جس نے مار نہیں کھائی وہ بڑا آدمی نہیں بن سکتایہی سوچ کے سزا کو پڑھائی کا لازمی حصہ سمجھتے تھے۔ہمارے ساتھ کتنے لائق ہونہار اور پڑھنے کا شوق رکھنے والے بچے صرف سزا کے ڈر سے سکول سے بھاگ جاتے یا چھپ جاتے اور بعض تو گھر سے ہی بھاگ جاتے ،مجھے آج بھی یاد ہے کہ کئی بار مار کے خوف سے میں بھی پورا پورا دن سکول سے چھپا رہا۔ہمارے سامنے کوئی آپشن نہیں ہوتاتھا ،سکول جانا ہے یا پھر گھر سے بھاگ جانا ہے پڑھائی کے بغیر گھر رہنا مشکل تھا۔ ،سزا کی وجہ سے تعلیم سے اکتاہٹ اور سکول سے نفرت،پڑھائی عذاب لگتی تھی دن رات یہ دعا کرتے کہ کب اس سے جان چھوٹے گی چھٹیاں ہوتیں تو سمجھو عید ہو گئی۔وقت اور حالات نے کروٹ بدلی،یہاں انسان کی سوچ بدلی وہاں کچھ نظام بھی بدل گیا۔ ضاء الحق کے دور حکومت میں تعلیم کے میدان میں بھی تبدیلی آئی سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ سکول بھی متعارف ہوئے جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں چھا گئے اور تعلیمی داروں کے ساتھ ساتھ بزنس اور پیسہ کمانے کی فیکٹریاں بن گئے ان سکولوں کا نصاب ،فیس،ڈریس،اور طریقے کار بھی اپنا اپنا ہونے لگاکوئی مہنگے کوئی سستے اور کوئی نارمل۔ہم نے اے بی سی چھٹی جماعت میں سیکھی تھی مگر پرائیویٹ کلچر نے اس کو ابتدا سے ہی شروع کروا دیا جو موجودہ دور کو سامنے رکھتے ہوئے اچھی بات کہی جا سکتی ہے، امیر والدین نے اپنے بچے سرکاری سکولوں سے ہٹا کر پرائیویٹ سکولوں میں داخل کروانے کو ترجیح دی پھر آہستہ اہستہ یہ ایک ٹرینڈ بن گیا کہ پرائیویٹ سکولوں میں پڑھنے والے بچے زیادہ لائق سمجھے جاتے ہیں۔،سرکاری سکولوں میں صرف غریب ،مزدور کے بچے ہی رہ گئے اسکی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سزا کے کلچر نے بچوں کو خوف زدہ کیا ہوا تھا وہ بچے جو سکول نہیں بھی جاتے وہ پرائیویٹ سکولوں میں شوق سے جانے لگے۔سکول جتنا مہنگا ہوتا بچہ اتنا شوق سے سکول جاتا کیوں کہ مہنگے سکولوں میں سزا سے نہیں پیار سے پڑھایا جاتا ہے،کتاب کا پڑھا لکھا نہیں بلکہ اندر کی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاتا ہے۔جبکہ سرکاری سکولوں اور سستے سکولوں میں پڑھانے کے بجائے رٹا لگاوایا جاتا ہے اگر وہ رٹا ،یاد، نہ ہو تو سزا بھی دی جاتی ہے جس سے بچے تعلیم سے متنفر ہو جاتے ہیں۔بچے معصوم ہوتے ہیں ان کو پیار اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ان کو دلچسپی اور مزاحیہ پن چاہیے ہوتا ہے، بچے کا ذہن کچا ہوتا ہے ان کواگر سز ا کے خوف سے ڈرا کر پڑھایا جائے تو وہ کبھی بھی کری ایٹو کام نہیں کر سکتا وہ مار کے ڈر سے رٹ کر سبق تو یاد کرے گا مگر وہ سمجھ کر مقابلے کی سوچ سے کبھی نہیں پڑھے گا۔کتابوں کی حد تک پڑھانا کوئی فن نہیں سوالوں کے جوابات نشان لگا کر دینا کوئی مہارت نہیں بلکہ سبق پڑھانے کے بعد بچے کو اس کا مفہوم،مطلب،اور مختصرکہانی بنا کر سمجھانا اصلی فن ٹیچنگ ہے۔ سوالوں کے جوابات اپنے پاس سے بنانے اور لکھنے کا فن بتانا بچے کے اندر شوق و زوق پیدا کرتا ہے نہ کہ سزا اور ڈرا کے کسی بچے کو ذہین کیا جا سکتا ہے آج اس ترقی کے دور میں جب بچے سزا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اکثریت سکولوں کی ایسی ہے جہاں پرانا ،فرسودہ،اور انگریزوں کے دور کا تعلیمی نظام رائج ہے بچے کو سزا دینا حق سمجھا جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ ذہین ہونے کے بجائے نالائق ہوتا جاتا ہے، کری ایٹوو سوچ کے بدلے وہ نفسیاتی ہو جاتا ہے اور سبق رٹ کر اپنی جان چھڑواتا ہے۔یہ بچے جو آج معصوم ننھے پھولوں کی مانند ہیں ان کا ذہن صاف ہوتا ہے ان میں خوف بھر دو یا ان کی صلاحیتں سامنے لے آو، یہ کمپیوٹر مشین کی مانند ہوتے ہیں ان کے اندر جو فیڈ کرو گے یہ وہی پرفام کریں گے۔ یہ میرے بچے ہیں نہ آپ کے یہ قوم کے ،ملک کے بچے ہیں ۔اگر ان کو پیار سے ،طریقے سے پڑھایا جائے تو یہ کل سکول کا ہی نہیں بلکہ ملک و قوم کا نام روشن کریں گے مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ جو بچے تعلیم کو ،پڑھائی کو،سکول کو اپنے اوپر بوجھ محسوس کریں تو وہ کل کیسے نام پیدا کر سکتے ہیں آج اپنے ارد گرد بہت سے بھائیوں ،دوستوں سے نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی جائے تو وہ صرف اور صرف سزا کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ہمارے دور میں تو سکول بدلنے کا کوئی آپشن نہیں تھا ہمیں سزا کے بغیر پڑھنے کا بتایا ہی نہیں گیا تھا جب کہ آج کے بچے تو کمپیوٹر دور کے بچے ہیں ان کو سزا سے نہیں بلکہ اپنے فن سے اپنے پیار سے معاشرے کا بہترین کار آمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔آج تو ادھر بچے کو سکول میں سزا ملی ادھر اس نے سکول بدلنے کا مطالبہ کر دیا ،اساتذہ کا رشتہ محترم ہوتا ہے وہ روحانی باپ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے ان معماروں کا خالق بھی ہوتے ہیں ان کو چاہئے کے وہ رٹا نہ لگاوئیں بلکہ دلچسپی کا عنصر پیدا کریں بچے کو سزا دینے سے بہتر ہے کہ اسے آسان طریقے سے سمجھایا جائے ،استاد مقدس پیشہ ہے اس کے تقدس کو مدنظر رکھ کربچے کے لئے آئیڈیل بنا جائے،پیار اور بھائی چارے کا موحول پیدا کیا جائے سکول کوبچوں کی نفسیات کی تربیت گاہ بنا کر انہیں تیار کیا جائے، نہ کہ ولن بن کر ان کے ساتھ پیش آیا جائے ،سکول میں سزا سے نہیں پیار سے پڑھانے کے قانون کو عملی جامہ پہنایا جائے سزا کے کلچر سے نفسیاتی مریض تو تیار ہو سکتے ہیں ڈاکٹر نہیں۔ سکول وہ نرسری ہوتے ہیں جہاں سے ملک کو چلانے والے مستقبل کے لیڈر، سیاست دان، ڈاکٹر ،انجینئرز، وکیل، سوشل ورکر،اچھے انسان،کار آمدشہری،بہترین مفکر، شاعر،مصنف،تاریخ دان،پیدا کئے جاتے ہیں۔جس معاشرے کے سکول اچھے ہوں اساتذہ تہذیب یافتہ،نرم مزاج۔خوش اخلاق،مساوات پسند، ہوں اس معاشرے میں کبھی اخلاقیات کو زوال نہیں آ سکتا ۔جس قوم میں اخلاقیات اور انسانیت زندہ ہو اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا۔آج ہم مقابلے کے اس دور سے گزر رہے ہیں جہاں ہمیں تمام تر تفریق کو بالائے طاق رکھ کر ایک ہی سوچ سے ایک سمت اگے بڑنا ہوگا،وہ تب ہی ممکن ہے جب ہم ان معصوم ،ننھے پودوں کی آبیاری پیار اور اور اخلاق کے پانی سے کریں گے۔ قسمت نوحِ بشر تبدیل ہوتی ہے یہاں۔ایک مقدس فرض کی تکمیل ہوتی ہے یہاں۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.