مالیگاؤں کے ذمہ داران مدارس کا قابل تقلید قدم

باسمہ تعالیٰ

گذشتہ دنوں دہلی سے شائع ہونے والے ایک موقراردوروزنامہ میں ایک اہم خبرشائع ہوئی جوکہ اپنی معنویت کے اعتبارسے انتہائی اہمیت کی حامل تھی،لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خبرصرف ایک خبرمحض بن کررہ گئی ،کسی نے اسے لائق توجہ نہیں سمجھا،خبریہ تھی کہ مالیگاؤں کے ارباب مدارس اسلامیہ اورسرکردہ علماء نے متفقہ طورپریہ فیصلہ کیاہے کہ وہ مدارس کو حکومت کی دسترس سے آزادرکھنے کے لیے کسی طرح کی حکومتی امدادنہیں لیں گے ،اورصرف اورصرف اہل خیرکے تعاون سے مدرسہ کے اخراجات کوپوراکریں گے۔خبرانتہائی اہم اورایک زبردست پیغام ہے ان تمام لوگوں کے لیے جواپنے معمولی ذاتی مفادات کے لیے مدارس کوحکومت کی قربان گاہ پر قربان کردیتے ہیں اوردینی تعلیم کامذا ق بناکر ہزاروں معصوم کی زندگی سے کھیلواڑکرتے ہیں،یہ پیغام ان لوگوں کے لیے بھی ہے جواپنی روزی روٹی کے معمولی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ان ریاستوں میں مدرسہ بورڈکے قیام کا پرزورمطالبہ کررہے ہیں جوریاستیں ابھی تک الحمدﷲ اس لعنت سے پاک ہیں،ارباب مدارس کا یہ حوصلہ افزا بیان ایسے وقت میں آیاہے جب کہ حکومت ایک سازش کے تحت مدارس سے روحانیت کوختم کرکے مسلمانوں کے نونہالوں کودین بیزاربنانے کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔مدارس مسلمانوں کے لیے صرف ایک تعلیم گاہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ مدارس مسلمانوں کے لیے ایک مرکزرشدوہدایت کادرجہ رکھتے ہیں،مدارس کی حقیقت کوجاننے کے لیے مفکراسلام حضرت مولاناابولحسن علی ندویؒ کایہ بیان انتہائی اہمیت کاحامل ہے: ’’مدرسہ کیاہے؟مدرسہ کاکیامقصدہے؟ ’’مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے،جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیارہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کابجلی گھر (پاورہاؤس) ہے، جہاں سے اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے،مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کااحتساب ہوتاہے ، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے،جہاں کافرمان پورے عالم پرنافذہے،عالم کافرمان اس پر نافذ نہیں،مدرسہ کا تعلق کسی تقویم، کسی تمدن،کسی عہد،کسی کلچر،زبان وادب سے نہیں کہ اس کی قدامت کاشبہ اوراس کے زوال کاخطرہ ہو،اس کاتعلق براہ راست نبوت محمدیؐ سے ہے جو عالمگیربھی ہے اورزندۂ جاوید بھی،اس کاتعلق اس انسانیت سے ہے جوہردم جواں ہے،اس زندگی سے ہے جوہردم رواں اور دواں ہے،مدرسہ درحقیقت قدیم وجدیم کی بحثوں سے بالاترہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدیؐ کی ابدیت اورزندگی کانمواورحرکت دونوں پائے جاتے ہیں۔‘‘(پاجاسراغ زندگی:۹۴)

مدارس کی اسی روحانیت کوباقی رکھنے کے لیے اوراس کی افادیت کوابدی اورلازوال بنانے کے لیے ام المدارس دارالعلوم دیوبندکے بانی حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ نے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کرجب دارالعلوم دیوبندکی بنیادرکھی تواس وقت اس کے لیے ایک اصول مرتب کیاجسے تاریخ نے’’اصول ہشت گانہ‘‘کے نام سے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیاہے،یہ اصول ہشت گانہ آج بھی دارالعلوم دیوبندکے کتب خانہ میں محفوظ ہے،جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مدارس کی بقاء اورتحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ اسے حکومت کی امداداورگرانٹ سے دوررکھاجائے ورنہ جس دن حکومت کاایک پیسہ بھی مدرسہ کے مدمیں شامل ہوگیاوہ ایک پیسہ مدرسہ کی روحانیت کوختم کرنے کے لیے کافی ہوگا،ملاحظہ فرمائیں حضرت نانوتویؒ کاوہ اصول زریں اورغورکریں کہ کیامدرسہ بورڈقائم ہوناچاہیے ؟کیامدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال کراس کی روحانیت اورابدی افادیت کو ختم کرنے کی ناپاک کوشش کرنے والوں کی حمایت کرنی چاہیے یامخالفت؟حضرت نانوتویؒ نے اپنے قلم سے یہ اصول مرتب کیاتھاجس کاآخری اوراہم اصول یہ تھاکہ: اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں تب تک یہ مدرسہ انشاء اﷲ بشرط توجہ الی اﷲ اسی طرح چلے گااوراگرکوئی آمدنی اس کویقینی ہوگئی جیسے جاگیر،کارخانہ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کا وعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجاء جوسرمایہ رجوع الی اﷲ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادغیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوں میں باہم نزاع پیداہوجائے گا‘۔ (تاریخ دارالعلوم :۱۰۶)

تاریخ شاہدہے کہ جن مدارس نے اپنے آپ کوحکومت کی دسترس سے باہررکھااورتوکل علی اﷲ کواپناسرمایہ بناکرکام کرتے رہے ان کے فارغین نے ہمیشہ اسلام کوسربلندکیااورجن مدارس کے مفادپرست ذمہ داروں نے اپنے چندذاتی مفادات کے لیے مدارس کوحکومت کی جھولی میں ڈال دی ان کاکیاحشرہورہاہے یہ اہل نظرسے پوشیدہ نہیں ہے۔اس وقت ہندستان کی ۲۸؍ریاستوں میں سے تقریبا۱۳؍ریاستوں میں مدرسہ بورڈکانظام رائج ہے ،جہاں حکومت کی جانب سے مقرکردہ نصاب طلبہ کوپڑھایاجارہا ہے لیکن یہ مدارس برائے نام مدارس ہیں وہاں تعلیم کے نام پر معصوم طلبہ وطالبات کی زندگی سے کھیلواڑکیاجاتاہے ،اوربقول مفکرملت حضرت مولانامحمدولی رحمانی مدظلہ‘ العالی کہ ان مدارس میں ۹۵؍ فیصد طلبہ صرف امتحان دے کرڈگری حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیتے ہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتاجوکہ امت مسلمہ کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اوریہ حقیقت ہے کہ یہ مدارس صرف اورصرف ڈگری حاصل کرنے کاایک اہم اورآسان ذریعہ بن چکاہے تاکہ اس کے ذریعہ معاش کے حصول میں آسانی ہواورکہیں اچھی سی نوکری مل جائے جب کہ درحقیقت مدارس فکرمعادیعنی آخرت کوسنوارنے کے لیے ہے نہ کہ فکرمعاش کے ذریعہ آخرت کوبگاڑنے کے لیے۔بہارمیں تقریبا۱۱۲۶؍مدارس حکومت سے امدادیافتہ ہیں اور ۲۴۶۰ ؍مدارس منظورہوچکے ہیں جوامدادحاصل کرنے کی تگ ودومیں لگے ہوئے ہیں اسی طرح یوپی میں۵۹۰۰؍مدارس منظورشدہ ہیں جن میں۴۵۹؍مدارس کوامدادحاصل ہے ، ان میں سے یوپی میں۷؍لاکھ ۷۰؍ہزارجبکہ بہارمیں۲؍لاکھ طلبہ زیرتعلیم ہیں جوکہ اپنے مستقبل کوسنوارنے کے چکرمیں اپنی آخرت بربادکررہے ہیں۔مدرسہ بورڈ کی مخالفت برائے مخالفت نہیں ہے بلکہ میرے سامنے مدرسہ بورڈسے متعلق ایسے حقائق ہیں جوبیان سے باہرہیں،بالخصوص جب سے حکومت نے مدرسہ بورڈ کی اسنادکواساتذہ بحالی کے لیے منظورکیاہے ،امتحانات میں شریک ہونے والے طلبہ وطالبات کی تعدادکئی گنازیادہ ہوگئی ہے اوررشوت کے بل پرنمبرات بڑھانے کاعمل بھی کافی تیزترہوگیاہے کیوں کہ بہارحکومت نے پہلے بحالی کے لیے نمبرکوہی بنیادبنایاتھا،ٹی ای ٹی کی شرط توبعدمیں آئی ہے،ہزاروں گھریلوخواتین جنہوں نے کبھی مدرسہ یااسکول کامنھ تک نہیں دیکھانوکری کی لالچ میں مدرسہ بورڈ میں داخلہ لے کرامتحانات دیے ،اب یہ نہ پوچھیں کہ وہ امتحانات انہوں نے کس طرح دیے اورکس طرح فرسٹ پوزیشن اورفرسٹ ڈویزن سے امتحانات میں کامیابی حاصل کی اوراس کی بنیادپرانہیں نوکریاں مل گئیں اوروہ بحیثیت استانی اسکول میں بچوں کی زندگی سے کھیلواڑکرنے پرمامورہوگئیں،آج صرف بہارکی حدتک اگرمیں کہوں تومبالغہ نہ ہوگاکہ اسکولوں میں اس طرح کے استاذواستانیوں کی بھرمارہیں جنہیں اپنانام تک صحیح سے لکھنانہیں آتالیکن وہ وہاں بحیثیت استاذکام کررہے ہیں،ایک واقعہ جوکہ خود بہارمدرسہ بورڈٹیچرس ایسوسی ایشن کے بڑے ذمہ دارنے مجھے شخصی طورپربتایاوہ مسلمانوں کے لیے کسی درس عبرت سے کم نہیں ہے۔انہوں نے دربھنگہ ضلع کے ایک بلاک کاواقعہ بیان کرتے ہوئے کہاکہ ایک دن ضلع ایجوکیشن افسرنے انہیں فون کرکے کہاکہ آج فلاں بلاک میں نئے اساتذہ کی بحالی کی ایک چھوٹی سی تقریب ہے جس میں مدرسہ بورڈکے فارغین کے درمیان تقررنامہ تقسیم کیاجائے گا،آپ مدرسہ بورڈٹیچرایسوسی ایشن کے ذمہ دارہیں اگرآپ اس تقریب میں شرکت کریں توہمارے لیے بڑی خوشی کی بات ہوگی ، میں نے اس تقریب میں شرکت کی ،اسی دوران ایک ایساشرمناک واقعہ پیش آیاکہ بھری مجلس میں میراسرشرم سے جھک گیاانہوں نے کہاکہ جب ضلع ایجوکیشن آفسرسب کوتقررنامہ تقسیم کررہاتھاتوان سے دستخط بھی لے رہاتھااسی دوران ایک برقعہ پوش خاتون آئیں جسے افسرنے کہاکہ یہاں پرہندی میں لکھیں کہ ’’میں نے اپنانیوکتی پترپایا‘‘اس خاتون کاجواب تھا کہ مجھے ہندی نہیں آتی جب افسرنے مارک شیٹ دیکھاتوہندی میں۸۰؍سے زائدنمبرتھے ،اس افسرنے میری جانب دیکھ کرمضحکہ خیزاندازمیں مسکرایا،پھراس نے خاتون سے کہا کہ اچھااردومیں ہی لکھ دیجئے،تواس خاتون نے بڑی مشکل سے اردومیں لکھاجوکہ کچھ اس طرح تھا’’میں نے اپناپتی پایا‘‘اورمزے کی بات یہ ہے کہ اردومیں بھی ۸۰؍سے زائد نمبر تھے ،مجموعی طورپروہ سبھی مضامین میں اول مقا م پرتھی لیکن عملی طورپرصفر،بعدمیں اس افسرنے جوکچھ مجھ سے کہااس کالفظ لفظ حقیقت پرمبنی تھا ،اس نے کہاکہ مجھے معلوم ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاپڑھاتے ہیں،میں نے تواسی لیے آپ کودعوت دے کربلایاتھاکہ آپ توہنگامہ کرتے ہیں احتجاج کرتے ہیں کہ ہمارے فارغین کونوکری دو،اسکول کے برابرتنخواہ دو،آخرکیوں؟ایسے لوگوں کوبحال کرکے کس کابھلاکریں گے آپ اپنی قوم کایاقوم کے مستقبل ان بچوں کاجنہیں یہ لوگ پڑھائیں گے؟کیایہ قوم کے مستقبل کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟کیاایساپیسہ آپ لوگوں کے لیے جائزہے؟شکرکریں سیاست کا کہ ووٹ بینک کے نام پرحکومت کویہ سب کرناپڑتاہے ورنہ حکومت بھی خوب واقف ہے کہ آپ لوگ مدرسہ بورڈ میں کیاکرتے ہیں؟وہ بولے جارہاتھااورمیں سرجھکائے خاموشی سے اس کی باتیں سنتاجارہاتھاکیوں کہ وہ ایسی حقیقت کومیرے سامنے بیان کررہاتھا جس کے لیے میں اورپورامدرسہ بورڈ ذمہ دارہے،اس ایک واقعہ سے آپ بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے مدارس میں کیاہوتاہے جن کاالحاق حکومت سے ہوتاہے،اول توایسے مدارس میں بحالی کے لیے اساتذہ کوبڑی رقم بطوررشوت دینی ہوتی ہے جس میں سبھی برابرکے حصہ دارہوتے ہیں،پھراپنی تنخواہیں جاری کرانے کے لیے ایسوسی ایشن والوں کوہرماہ کمیشن دیناپڑتاہے جو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ابھی گذشتہ دنوں بھی بہارمدرسہ بورڈ ٹیچرس ایسوسی ایشن کے ایک بڑے ذمہ دارپراس طرح کاالزام لگ چکاہے ،اوریہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے وہ واقعتااس کامجرم ہے،جسے ایک ادنی ٰ ملازم سے لے کرسربراہ تک جانتاہے لیکن ہرایک کواپناحصہ مل جاتاہے اسی لیے سبھی خاموش رہتے ہیں،توایسے حالات میں اساتذہ کیاپڑھائیں گے اور طلبہ وطالبات کے ساتھ ان کاکیارشتہ ہوگا؟ یہ موضوع ایساہے کہ اس پربہت کچھ تفصیل سے لکھاجاسکتاہے لیکن اس مختصرسے مضمون میں ان سب کی گنجائش نہیں ہے ،بس اتنا کہنا کافی ہوگاکہ مدرسہ بورڈ مسلمانوں کے حق میں نہیں ہے بلکہ عملاًیہ مسلمانوں کے خلاف ہے،اگرحکومت مسلمانوں کی اتنی ہی مخلص ہے تووہ مسلمانوں کی فلاح وبہبودکے لیے ان سفارشات پرعمل کرے جوسچرکمیٹی نے پیش کی ہیں،سچرکمیٹی کی رپورٹ نے یہ واضح کردیاکہ مسلمانوں کے صرف۴؍فیصدبچے ہی مدارس میں پڑھتے ہیں اوراسکول وکالج اور یونیورسٹی تک پہونچنے والے مسلم طلبہ کی تعدادبھی تشویشناک حدتک کم ہے توپھرحکومت ۹۶؍فیصدی مسلم طلبہ وطالبات کے لیے کیوں نہیں ٹھوس قدم اٹھارہی ہے جوکہ ایک بڑی تعدادہے جس سے مسلمانوں کے ساتھ ملک کابھی فائدہ ہوگا،حکومت کو۹۶؍فیصدکی توکوئی فکرنہیں ہے لیکن ۴؍فیصدکی اتنی فکرہے کہ اپنی ساری توجہ ان ۴؍فیصدپرہی مرکوز کردینا چاہتی ہے ،آخرکیوں؟یہ ایک ایساسوال ہے جس کاجواب سب کومعلوم ہے لیکن بتاناکوئی نہیں چاہتا۔ایسے ماحول میں مالیگاؤں کے ارباب مدارس کا یہ فیصلہ واقعتالائق تحسین اور پورے ملک کے مسلمانوں کے لیے قابل تقلیدہے۔وقت آگیاہے کہ لوگ حکومت کی سازش کوسمجھیں اورمدرسہ جدیدکاری کے خوبصورت جال میں پھنسنے کی بجائے اس کی حقیقت سے ملک کے عوام کوروشناس کرائیں اورجومدرسہ آزادہیں انہیں آزادہی رہنے دیں،تاکہ ہندستان سے اسلام کوختم کرنے کی جومذموم کوشش کی جارہی ہے اسے یہ مدارس ختم کرسکیں۔اگرمدارس کوحکومت کی دسترس سے آزادنہ رکھاگیاتوپھروہ دن دورنہیں کہ ہندستان میں مسلمان تورہیں گے لیکن اسلام باقی نہ رہے گاجیساکہ علامہ اقبال رحمۃٖ اﷲ علیہ نے اندلس سے واپسی پرقوم کے نام اپنے خطاب میں جو کچھ کہا تھاوہ آج بھی تاریخ کے صفحات پرسنہرے حرفوں میں موجودہے،انہوں نے کہاتھا: ’’ان مکتبوں(مدرسوں)کواسی حالت میں رہنے دو،غریب مسلمانوں کے بچوں کوانہی مدرسوں میں پڑھنے دو اگریہ ملااوردرویش نہ رہے توکیاہوگا؟جوکچھ ہوگامیں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیاہوں۔اگرہندستان کے مسلمان ان مدرسوں کے اثرسے محروم ہوگئے توبالکل اسی طرح جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی ۸؍سوبرس حکومت کے باوجودآج غرناطہ و قرطبہ کے کھنڈر اورالحمراء اورباب الخواتین کے نشانات کے سوااسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اورلال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی ۸؍سوسالہ حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہ ملے گا۔‘‘(علامہ اقبالؒ)

Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46362 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More