پاکستان کی شکست کے عوام - غیر ضروری دفاعی حکمت عملی اور غیر زمہ داری۔

سری لنکا میں ہونے والی ٹیسٹ سیریز کے دوسرے میچ میں بھی پاکستان ایک ممکنہ فتح سے ہمکنار ہونے کے بجائے پراسرار طریقے سے میچ میں فتح کی دیوی سے منہ موڑ کر شکست کو گلے لگا بیٹھا۔ اور اسطرح سری لنکا اپنے ملک میں ٢٦ سال کے بعد کسی ٹیسٹ سیریز کا فاتح قرار پاگیا۔

میچ کی پہلی اننگ میں پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ انتہائی شرمناک طریقے سے ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی اور پاکستانی تیم صرف ٩٠ رنز کے مجموعی اسکور پر آل آؤٹ ہو گئی۔ جس کے جواب میں سری لنکا کی ٹیم جس کا ارادہ ایک بڑا اسکور کرنے کا لگتا تھا مگر پاکستانی بولرز نے اپنے بلے بازوں کے غیر زمہ دارانا بلکہ شرمناک انداز سے آؤٹ ہوجانے کے باوجود سری لنکا کو ٢٤٠ رنز تک محدود رکھا اور اس طرح پاکستان کو دوسری اننگ میں ١٥٠ رنز کے گھاٹے کا سامنا تھا۔

ہمارے کرکٹ کے زمہ دار فرماتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم کو ٹیسٹ کرکٹ کافی عرصے بعد ملی تھی اس لیے سیریز میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔ تو بھائی یونس خان اور فواد عالم (جن کا یہ پہلا میچ تھا) کیا کافی عرصے سے ٹیم سے الگ ہو کر ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے جو وہ اچھی کارکردگی دکھا سکے اور باقی ٹیم کے بلے بازوں نے شائد ١٨ مہینوں سے بلے کو ہاتھ بھی نا لگایا تھا۔ محمد یوسف پہلے ٹیسٹ میں سنچری بنا گئے تھے تو ان کی کون سی پریکٹس تھی وہ ٹیسٹ میچ کی جو وہ باقی تین اننگز میں کچھ نا کرسکے۔ خدا کے واسطے بس کرو منافقت اور دھوکے بازی کی سیاست۔ خدارا کرکٹ کو سیاست سے دور رکھوں۔ ورنہ سیاست میں ہی چلے آؤ کرکٹ کا پیچھا چھوڑ دو خدارا۔

پھر میچ کے دوسرے دن کپتان یونس خان اور ڈیبوٹنٹ فواد عالم نے انتہائی زمہ داری اور پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور اور قابل تعریف مظاہرہ کیا اور پاکستان کے اسکور کو دوسرے دن کے اختتام پر ١٧٨ رنز ایک کھلاڑی آؤٹ تک پہنچا دیا اور پاکستان کی فتح کے امکانات کو روشن کر دیا۔ میچ کے تیسرے دن کا آغاز بھی اچھا رہا اور کپتان اور فواد عالم نے زمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کو ناصرف خسارے سے نکال دیا بلکہ اچھی لیڈ بھی لے دی۔ مگر پھر یونس خان ایک عجیب و غریب شاٹ کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے اور اسکے بعد جس طرح ملک کے مستند اور منجھے ہوئے کھلاڑیوں نے بلے بازی کا مظاہرہ کیا اس سے پاکستان کے عوام اور خصوصاً کرکٹ دیکھنے والے عوام کے سر شرم سے جھک گئے کہ یہ ہے ہماری وہ ٹیم جس نے ٹوئنٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

پاکستانی بلے بازوں خصوصاً محمد یوسف، مصباح الحق، شعیب ملک اور کامران اکمل نے جس طرح کا کھیل پیش کیا وہ ایک کلب کرکٹ کے نو آزمودہ کھلاڑیوں سے بھی گیا گزرا تھا۔ پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی کا مظاہرہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے آخری ٩ وکٹ صرف ٣٥ رنز پر گر گئے۔ یعنی اگر ٹیم میں سے یونس خان کے ٨٢ رنز اور فواد عالم کے ١٦٨ رنز نکال دیے جائیں تو پاکستان کے باقی بلے بازوں نے جو کارنامہ انجام دیا وہ ایک عالمی ریکارڈ ہی کے قریب ہو سکتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ پاکستان کے بولرز اپنی عمدہ بولنگ کے ساتھ ساتھ بیٹنگ بھی کرجاتے تھے اور اس طرح پاکستان آل راؤنڈر کے شعبے میں بھی ایک اہم مقام رکھتا تھا اور ملک عزیز کے بولرز مثلاً عمران خان، وسیم اکرم، عبدالرزاق، اظہر محمود وغیرہ پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ کے فلاپ ہوجانے کے بعد بھی اکثر پاکستان کی بیٹنگ لائن میں گہرائی پیدا کرتے تھے۔ مگر اس گزشتہ ٹیسٹ میچ میں افسوس ناک امر یہ رہا کہ بیٹسمین تو اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریوں کا احساس نا کرتے ہوئے ملک و قوم کی بدنامی کا سبب بنے ہی، ان کے ساتھ ساتھ کچھ ہمارے ایسے کھلاڑی جو ہیں تو بولرز مگر بیٹنگ بھی کرنی پڑتی ہے چاہے نیچے کے نمبروں پر ہی سہی۔ اب ہوا یہ کہ شائد جس پر کسی نے توجہ نہیں دی کہ ہمارے بولرز نے بیٹنگ ملنے پر جو کارنامہ انجام دیا شائد یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہو گا

کہ ہمارے دو بولرز بیٹنگ کے شعبے میں اپنی دونوں اننگز میں صفر پر آؤٹ ہوئے

عبدالرؤف پہلی اننگ میں ٣٤ بولوں پر صفر پر آؤٹ ہوئے اور دوسری اننگ میں ٥ بولوں پر صفر پر آؤٹ ہوئے اور دونوں اننگز میں عبدالروف لیگ بفور وکٹ یعنی ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار پائے گئے۔

سعید اجمل پہلی اننگ میں پہلی ہی گیند پر صفر پر آؤٹ ہوئے اور دوسری اننگ میں ٣ بولوں پر صفر پر آؤٹ ہوئے اور وہ بھی دونوں اننگز میں ایل بی ڈبلیو آؤٹ قرار پائے گئے۔

انکے علاوہ عمر گل پہلی اننگ میں ١٤ بولوں پر صرف ایک رن بنا سکے اور دوسری اننگ میں ٢٦ بولوں پر صرف دو رن بناسکے۔

محمد عامر پہلی اننگ میں ٩ گیندوں پر صرف ایک رن پر آوٹ ہوئے اور دوسری اننگ میں ١٣ گیندوں پر ١ رن پر ناٹ آوٹ گئے۔

دراصل جب تک پاکستان کی ٹیم کی بیٹنگ جارحانہ اور زمہ دارانہ تھی پاکستان کا اسکور بنتا جا رہا تھا مگر جب پاکستان نے ڈ یفنس کی بیٹنگ شروع کی تو اس کے اچھے خاصے بیٹسمین دفاعی رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی ووکٹیں گنواتے رہے جس کو سری لنکا کی ٹیم نے ناصرف محسوس کیا بلکہ انہوں نے پاکستان کی غلطی یعنی دفاعی کرکٹ کھیلنے کے بجائے اپنی دوسری اننگ کی ابتدا اور اختتام جارحانہ کرکٹ سے کیا اور سری لنکا کی ٹیم ٣٢ ویں اوور میں پانچ رنز فی اوور سے زیادہ اچھے اوسط سے ١٧١ رنز ٣ کھلاڑیوں کے نقصان پر بنا کر فاتح قرار پائی اگر سری لنکا کی ٹیم بھی دفاع پوزیشن اختیار کرتی تو اسکے بلے بازوں سے بھی شاید وہی غلطیاں ہوتیں جو پاکستان کے بلے بازوں نے کی تھیں۔

مقصد یہاں بولروں کو الزام دینا نہیں ہے بلکہ ہمیں اپنے ملک کے مایہ ناز بیٹسمینوں یعنی محمد یوسف، مصباح الحق، شعیب ملک اور کامران اکمل کی انتہائی غیر زمہ داری پر افسوس ہے کہ یہ وہ کھلاڑی ہیں کہ جن کے ایک ایک رن جن سے پاکستان کا نام بلند اور روشن ہوتا ہے اس ایک ایک رن کی قیمت ہمارا ملک اور ہمارے ملک کے غریب عوام ادا کرتے ہیں کبھی انعامات کی صورت میں اور کبھی ان پیشہ ور کھلاڑیوں کے انتہائی کثیر مشاہدوں کی صورت میں اور ہمارے یہ کھلاڑی جب جیت کر آتے ہیں تو ملنے والے انعامات انہیں کم لگتے ہیں اور جب ہار کر آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کھیل ہی تو تھا ارے بھائی بے شک کھیل تھا مگر خدارا ملک و قوم کے وقار اور اس کی عزت کے ساتھ تو نا کھیلو۔

اگر کسی کو اپنی صلاحیت اور اپنی محنت آزمانی ہے تو عوام کی طرح محنت مزدوری کر کے روزگار کما کر دیکھو پھر لگ پتا جائے گا کہ ملک کے لیے کھیلنا کیسا ہوتا ہے اور ملک و قوم کی عزت کے ساتھ کھیلنا کیسا ہوتا ہے۔

جب ہمارے کھلاڑی جیت کر آتے ہیں چلیں جیت نا سکیں پھر بھی کھیل میں جان لڑا کر ہار کر بھی آتے ہیں تو ہماری قوم اپنے ہیروز کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا مگر جب قوم کو یہ معلوم ہو کہ ہمارے کھلاڑی کرکٹ کھیلنے کے بجائے کرکٹ میں بھی سیاست کھیل رہے ہیں اور گروہ بندیوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں تو پھر اس قوم کے دل پر کیا گزرتی ہے یہ کاش کوئی قوم کا دل چیر کر دیکھ لے۔

انضمام الحق نے ایک بیان دیا کہ کرکٹ میں سیاست ہو رہی ہے اور گروپ بندیوں کا شکار ہے پاکستان کی کرکٹ ٹیم۔ اسی طرح عبدالقادر جو چیف سلیکٹر تھے کچھ ہفتوں پہلے وہ بھی میڈیا پر کھل کر کہہ چکے ہیں کہ ٹیم میں سیاست اور گروپ بندی اپنے عروج پر ہے انہوں نے تو آن ریکارڈ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ انتخاب عالم نے انہیں ٹیلی فون کر کے کہا تھا کہ شعیب اختر کو ٹیم میں مت ڈالنا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری ٹیم کیا ایک ٹیم ہے یہ ہماری ٹیم میں کئی ٹیمیں اور ایک کپتان کے بجائے کئی کپتان ہیں۔

دل بہت دکھی ہے اور ہونا بھی چاہیے جب جیت کر آتے ہیں ہمارے کھلاڑی تو ہم دل و جان ان پر نچھاور کرنے پر تلے ہوتے ہیں اور ائیرپورٹ پر استقبال کرنے اتنی خلقت پہنچتی ہے کہ کھلاڑیوں کو چھپا کر نکال لیا جاتا ہے۔ تو کیا اس بدنصیب قوم کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے کھلاڑیوں کے اس طرح زلت آمیز رویوں اور کارکردگی کو کڑے ہاتھوں لے۔

جب جیتنے کی خوشی میں ملک کے وزیراعظم کھلاڑیوں اور تمام زمہ داران کرکٹ کو وزیراعظم ہاؤس میں عشائیہ دے سکتے ہیں اور ان کے لیے لاکھوں کروڑوں کے انعامات کی بوچھاڑ کر سکتے ہیں تو کیا ہماری ٹیم اور ہمارے کھلاڑیوں میں اتنی غیرت نہیں کہ دنیا کے سامنے بغیر لڑے شکست کھا کر آجائیں اور ملک کے لوگوں پر تنقید کریں کہ ہمارے عوام تو کھیل کو کھیل نہیں سمجھتے۔ بھیا سب کھیل کو کھیل سمجھتے تو سب ہی کھیل رہے ہوتے۔ بھائی ہم کھیل کو اپنی عزت و وقار سمجھ کر دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں کاش ہمارے دل بھی اتنے سخت ہو جائیں جتنے ہمارے کھلاڑیوں کے دل سخت ہو جاتے ہیں جب (اگر) وہ ملک و قوم کا سودا چند ٹکوں میں کر کے ملک کے ماتھے پر جان بوجھ کر شکست کا داغ لگا آتے ہیں۔

اللہ ہم سب کو ہدایت اور دردمندی عطا فرمائے آمین۔

کسی کو کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کرنا بھائی دل بڑا دکھا ہوا ہے۔ جس طرح دل بڑا خوش تھا ٹوئنٹی ٹوئنٹی سے پہلے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 500061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.