ملالہ اور حکمران

 سوات کی وادی 2007سے2009کے دوران اتنی پر امن نہ تھی یہاں شدت پسندوں کا کنٹرول تھا جو اپنے نظریات مسلط کرنے پر با ضد تھے مگر انہی گلیوں میں ایک ننھاپھول ایسا تھا جو علم کی روشی کوپہچانتاتھا جسے دنیا گل مکئی کے نام سے جانتی تھی گل مکئی کی تحریریں جو 2009میں سامنے آئیں،انہوں شدت پسندوں کو خوف زدہ کر دیاجو بچیوں کی تعلیم کے حق میں نہ تھے 2009کے وسط میں گل مکئی زرائع ابلاغ کے زریعے سامنے آئی اور بہادری سے اپنا تعارف ملالہ یوسف زئی کے نام سے کروایا۔12سال کی ملالہ اپنے علاقے کے بچوں کے حقوق کی آواز بلند کرتی رہی ملالہ اپنے اور بچے بچیوں کی تعلیم کے حق میں آواز بلند کرتی رہی جوسوات سے نکل کر اب پورے ملک میں سنائی جانے لگی،ملک سے نکل کر یہ آواز پھر عالمی سطح تک بھی سنائی جانے لگی۔اکتوبر 2011میں صرف 14سال کی عمر میں ملالہ بچوں کے امن انعام کے لئے نامزد ہوئی،حالانکہ یہ انعام اسے نہ مل سکا مگر حکومت پاکستان نے تعلیم کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سراہا۔ حکومت نے اس ایوارڈ کا نام بھی بعد میں ملالہ یوسف زئی کے نام پر رکھ دیا۔ ملالہ نے جہالت کے اندھیروں کو علم کی روشنی سے شکست دی، ایک سال پہلے 19اکتوبر2012کو ملالہ کی سکول وین کو روک کر شناخت کے بعد گولیاں چلا دی گئیں جس سے ملالہ اور اسکی ساتھی طالبات زخمی ہو گئیں ملزم واقعے کے بعد فرار ہو گیا اور شاید اس نے یہ سوچا اب علم کے حصول کے لئے بات کرنے والا کوئی نہیں اٹھے گامگرایسا نہ ہو سکاحالانکہ گولی ملالہ کے سر کو چیرتی ہوئی نکلی مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھاملالہ کو مقامی ہسپتال میں طبعی امداد کے بعد پشاور ،سی ایم ایچ، ہسپتال منتقل کر دیا گیا،جہاں وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہی یہاں سے اسے بہتر سہولیات کے لئے اسلام آباد ہسپتال منتقل کر دیا گیاقوم کی دعائیں رنگ لائیں اور ملالہ کی طبیعت بہتر ہونا شروع ہوئی،جس کو مد نظر رکھ کر 15اکتوبر 2012 کو ملالہ کوبرطانیہ کے کوئز الز بیتھ ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا،ہر گزرتے دن کے ساتھ ملالہ کی طبیعت بہتر ہوتی گئی اور وہ ایک ایسی قوت بن کر ابھری جو علم کی روشنی پھیلانے میں انتہائی موثر ثابت ہو رہی ہے۔ گولی کی زبان سے خاموش کرنے کی کوشش اسے اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹا سکی روشن آنکھوں والی ملالہ کی ہمتوں کے اگے مصیبتوں کے پہاڑ بھی رائی بن گئے۔جو مستقبل میں اس ملک کی نوجوان نسل کو ستاروں سے اگے لے جانے کے لئے پر عزم ہے۔انسانیت پر یقین رکھنے والی ملالہ نے یورپین یونین کا انسانی حقوق کا ایوارڈ بھی اپنے نام کر لیا،اس کی ہمت و جرت کا یہ پہلا عتراف نہیں ایک سال پہلے سر پر گولی لگی تو حکومت پاکستان نے ستارہ شجاعت ملالہ کی جھولی میں ڈال دیا ۔ستمبر2013میں بچوں کے امن کا انعام ملا، ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بھی ضمیر کا سفیر بنا دیا، اردن کی ملکہ رانیا نے گلوبل سٹیزن ایوارڈ ملالہ کے نام کیا۔ہاورڈ یونیورسٹی نے بھی ایک اور عزاز ، ہیومینٹیرین ایوارڈ پاکستان کی بیٹی کو دے دیا۔ ستراسالہ تاریخ میں ملالہ امن نوبل انعام کے لئے نامزد ہونے والی کم عمر ترین شخصیت تھی وہ اعزازات کی طویل تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ،ملالہ کو نوبل انعام تو نہ مل سکا مگر اس کا نامزد ہونا کسی انعام ملنے سے کم نہ تھا،ایک ایسی دنیا کے معاشرے میں یہاں مسلم اور غیر مسلم کی ہی نہیں بلکہ انسان کی انسان کے خلاف جنگ ہے ایسے موحول میں ملالہ جس کا تعلق پاکستان جیسے بدنام ترین ملک سے ہے نامزد ہونا انعام ملنے کے برابر ہے اپنی اس نامزدگی کے دوران ملالہ نے دنیا بھر کے میڈیا کو اپنے انٹرویو دیے ملالہ نے ہر جگہ اور ہر ایک چینل کو یہ فخر سے بتایا کہ میں پاکستانی ہوں اور مجھے اپنے وطن سے محبت ہے دو جنتیں ہیں ایک آخرت والی اور ایک دنیا میں سوات ہمارا سوات کسی جنت سے کم نہیں،میں یہاں پر بھی قمیض شلوار پہنتی ہوں اور سر پر دوپٹہ رکھتی ہوں۔ملالہ کی ایک کتاب (میں ملالہ ہوں) بھی شائع ہو رہی ہے جس میں اس نے ملک بھر کی بچیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہر ایک بچی ملالہ ہے۔یہ کم سن بچی اس کی کہانی کیا ہے کیا نہیں اپنی جگہ۔ اس کے نامزد ہونے کے بعد ملک بھر سے سیاسی و سماجی شخصیات نے اپنے اپنے رسمی روایتی بیانات دیے ،اس کی بہادری وفاداری اور ہمت کو داد دی۔مگر اس ملک کی دہشت زدہ ،خوف کی ماری فضاء ان سیاست دانوں سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ کب تک ایک بچی اس مالک کے ماتھے سے بدنما داغ دھوتی رہے گی،کب تک ایک بچی دنیا میں اس ملک کی خوبصورتی کے گن گائے گی اور کہاں کہاں وہ یہ گوائیاں دیتی پھرے گی کہ میرا ملک دہشت گرد نہیں۔یہ ملک ان بااختیار لوگوں سے یہ سوال بھی پوچھتا ہے کہ اپنی دولت نہ لائیں اس ملک میں،اپنے بچوں کو اس ملک کے سکولوں میں داخل نہ کروائیں مگر اس ملک کی بقا اور حب الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے تعلیم کا نصاف تو ایک کر دیں ۔ ملالہ نے تعلیم کے حصول کے لئے ہی گولیاں کھائیں،آج دنیا نے اسے نوبل انعام کے لئے نامزد کیا اور نہ ملنے پر تمام سیاسی لوگوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں مگر افسوس کے کسی نے نہیں کہا کہ ہم بھی آج ملالہ کے نام اور اس کی کوششوں کی لاج رکھتے ہوئے ملک میں تعلیم کو سستا کرتے ہیں ،سب کے لئے ایک جیسا نصاب کر لیتے ہیں تاکہ وہ کام جس کا بھیڑا ملالہ نے اٹھایا اس کو اسان کردیا جائے،ایک طرف تو تعلیم کو عام آدمی اور غریب کی پہنچ سے دور کر رہے ہیں اور دوسری طرف ملالہ کی تعلیمی کاوشوں پر اپنا سر فخرسے بلند کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی زمہ داری پوری کر لی ہے۔ملالہ یوسف زئی نے تو دہشت گردی کو شکست دی آپ نے کیا کیا؟
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69481 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.