برطانوی پولیس کی پاکستانی طلبہ پر چڑھائی

گزشتہ دنوں برطانوی پولیس نے انسداد دہشت گردی کی کی ایک نام نہاد کاروائی میں دس پاکستانی طلبہ کو گرفتار کر کے ساری دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹا کہ انہوں نے بڑے دہشت گرد پکڑے ہیں۔ طویل تفتیش کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ لیکن اب برطانوی پولیس اپنی خفت مٹانے کے لئے ان طلبہ کو رہا کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ان طلبہ کے والدین نے پاکستان آکر اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ ان طلبہ کو رہا کیا جائے۔ اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان سخت اقدام کرے۔ ان طلبہ کا اس کے علاوہ کوئی جرم نہیں تھا کہ وہ با جماعت مسجد میں نماز کے لئے جاتے تھے۔ اور ہوٹلوں میں تفریح کے لئے جاتے تھے۔ برطانوی پولیس نے انسداد دہشت گردی کی اس کارروائی کی بڑے پیمانے پر تہشیر کی اور پاکستانیوں کو بدنام کیا۔ شمال مغربی انگلینڈ سے گرفتار کئے جانے والے دس پاکستانی طالب علم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سٹوڈنٹ ویزاز پر برطانیہ میں رہ رہے تھے۔ پولیس نے لیور پول اور مانچیسٹر میں مختلف چھاپوں کے دوران یہ گرفتاریاں کی تھیں۔ برطانوی ہوم سیکرٹری Jacqui Smith نے پولیس کو اس ”کامیاب“ آپریشن کے لئے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ تھا کہ برطانیہ کو شدت پسندوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ یہ گرفتاریاں ایک ایسے وقت میں عمل میں آئی ہیں جب برطانوی پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبے کے سربراہ کو سکیورٹی کے معاملے میں غفلت برتنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایک اعلیٰ برطانوی پولیس افسر کی غلطی آپریشن کی وجہ بن گئی۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر بوب کوئیکسکاٹ لینڈ یارڈ کے اسسٹنٹ کمشنر بوب کوئیک کی غلطی کے باعث حساس دستاویز کے منظر عام پر آنے کے بعد پولیس نے کئی افراد کو گرفتار کیا جب کہ کوئیک نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ ان کا استعفیٰ منظور بھی کر لیا گیا ۔ برطانوی میڈیا کے مطابق انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت چھاپوں کا منصوبہ بہت پہلے بنایا گیا تھا مگر اعلیٰ برطانوی پولیس افسر Bob Quick کی غلطی کی وجہ سے آپریشن سے متعلق حساس دستاویزات کی تصویر منظر عام پر آنے کے بعد گریٹر مانچسٹر اور لنکا شائر پولیس کو فوری کارروائی کرنا پڑی۔

برطانیہ میں لگاتار چھاپوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب ان کی تصاویر انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ایک حساس دستاویز کے ساتھ شائع ہو گئیں۔اس تصویر میں واضح طور پر درج تھا ” آپریشن پاتھ وے“ جس کے نیچے لکھا تھا ” برطانیہ میں القاعدہ کے ممکنہ حملوں کی منصوبہ بندی کے خلاف سیکیورٹی سروس کی قیادت میں آپریشن“اس دستاویز پر یہ بھی درج تھا ”خفیہ“۔ باب کوئیک کی یہ تصویر وزیر اعظم گورڈ ن براؤن کے دفتر کے قریب لی گئی تھی۔ تصویر چھپنے کے فوراً بعد پولیس نے چھاپوں کا سلسلہ شروع کر دیا دریں اثناء اسکاٹ لینڈ یارڈ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسسٹنٹ کمشنر کوئیک اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں کہ انہیں نے ایک خفیہ اور حساس دستاویز کو اس طرح ہاتھ میں اٹھا کر باہر نکلنا نہیں چاہئے تھا کہ اس پر درج کوائف پڑھے جا سکتے۔ برطانوی وزیر داخلہ جیکی اسمتھ نے حساس دستاویزات کے حوالے سے پولیس افسر کی غلطی پر کوئی بیان دینے سے گریز کیا۔ شمال مغربی برطانیہ میں انسداد دہشت گردی یونٹ کے سربراہ ٹونی پورٹر نے بتایا کہ پولیس نے خفیہ اداروں کی جانب سے دے گئی معلومات پر چھاپے مارے۔ ان کا کہنا تھا مانچسٹر، لیور پول اور لنکا شائر میں آٹھ جگہوں پر چھاپے مار کر بارہ افراد گرفتار کئے گئے تھے۔ بعد میں یہ سب جھوٹ ثابت ہوا۔ اب اس جھوٹ کو چھپانے کے لئے ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ برطانیہ میں پاکستانوں کی کثیر تعداد آباد ہے۔ جو اس جھوٹ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ دوسرے یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر سال ہزاروں طلبہ برطاینہ پڑھنے کے لئے جاتے ہیں۔ اگر بر طانیہ میں پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا امتیازی سلوک کیا گیا تو یہ برطانیہ کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوگا اور پاکستانی طلبہ کو تعلیم کے لئے دوسرے ملکوں کی جانب دیکھنا ہوگا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386906 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More