نوجوان نسل کو بچاﺅ

میرے ایک دوست کے بیٹے حال ہی میں پاکستان سے باہر تعلیم حاصل کرنے گئے ہیں۔ ہرچند کہ وہ ان کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے ہمت کر کے اسے دو تین سال کے لئے ملک سے باہر بھیج دیا ہے۔ میرے آفس کے دو ساتھیوں کے بیٹے بھی چند سال قبل لندن تعلیم کے حصول کے لئے گئے تھے۔ دونوں نے وہاں شادی کر لی اب ماں باپ روتے ہیں کہ ہم نے کیوں بھیجا تھا۔ پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے یہ تبدیلی آئی ہے کہ اب بڑی تعداد میں پاکستانی طالبعلم امریکہ اور دیگر ملکوں میں تعلیم کے لئے جارہے ہیں۔ ان میں غیر ملکوں میں تعلیم کے لئے کونسلنگ کرنے والوں اور غیرملکی یونیورسٹیوں کی تشہیر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اخبارات، رسائل، انٹرنیٹ، اور اب فیس بک نوجوانوں کو ورغلانے میں سب سے آگے ہیں۔ والدین بچوں کو باہر بھیجتے ہوئے اس بات کا مطلق خیال نہیں کرتے کہ ان تعلیمی اداروں میں تشدد کا کیا رجحان ہے۔ جس کے پاس دولت ہے اور جس کے پاس نہیں ہے وہ یہی خواب دیکھتا ہے کہ وہ باہر جا کر تعلیم حاصل کرے۔ حال میں وومین سیلف ڈسٹریکشن آن لائن اعداد شمار کے مطابق امریکہ میں ہر سال دس لاکھ لڑکیاں بن بیاہی ماں بن جاتی ہیں۔

یورپین کمیشن کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ میں ساری دنیا سے زیادہ کرائم کی شرح ہے۔ جس سے اسے کرائم کیپیٹل آف دی ورلڈ کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں آئرلینڈ کی حکومت کی جانب سے قائم کردہ ایک کمیشن نے انکشاف کیا ہے کہ آئرلینڈ کے چرچوں میں پادریوں کی جانب سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود مذہبی اسکولوں اور اداروں میں کیتھولک پادریوں اور ننوں نے ہزاروں بچوں کو جنسی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ دوہزار چھ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً تین سو ایسے افراد ہیں جو اب آئرلینڈ سے باہر رہائش پذیر ہیں اور وہ اپنے اوپر اسکولوں اور دیگر جگہوں پر کئے گئے جنسی تشدد کے مقدمے کی پیروی کیلئے ایک سو چھیاسٹھ مرتبہ آئرلینڈ واپس آئے ہیں۔ آئرلینڈ کی طرح امریکا بھی ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں اس طرح کے واقعات عام ہیں۔ دو ہزار چار میں امریکی کانفرنس آف کیتھولک بشپ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق انیس سو پچاس سے کام کرنے والے پانچ ہزار سے زائد پادریوں یعنی چار فیصد نے جنسی تشدد جیسے جرائم کئے ہیں گو کہ ان کی سطح کم تھی۔

رپورٹ کے مطابق بارہ ہزار سے زیادہ افراد پادریوں کے جنسی تشدد کا شکار ہوچکے ہیں۔ ۷۰۰۲ میں ورجینیا کی یونی ورسٹی ورجینیا ٹیک میں پیش آیا جس میں قاتل نے یونی ورسٹی کے اندر دو مختلف جگہوں پر دو گھنٹوں کے وقفے سے فائرنگ کر کے کم از کم 32 افراد کو ہلاک کر دیا۔ پہلی فائرنگ ایک ہاسٹل کے اندر جب کہ دوسری کلاس روم کی عمارت میں کی گئی۔ اس قتلِ عام سے امریکہ کے تعلیمی اداروں میں ہونے والے دوسرے سانحوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔ امریکہ میں تعلیمی اداروں میں تشدد کا پہلا واقعہ 1966ء میں پیش آیا تھا جب ٹیکساس کی یونی ورسٹی میں ایک شخص نے 13 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد 1998ء میں ریاست کولوراڈو میں کولمبائن ہائی سکول میں 12 طلبا اور ایک استاد کو سکول میں اندھا دھند فائرنگ کر کے ہلاک کر ڈالا تھا۔ اکتوبر 2006ء میں پینسلوینیا کے دیہی علاقے میں ایک شخص نے آمش فرقے سے تعلق رکھنے والی چھ بچیوں کو ایک سکول کے کمرے کے میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس صورتحال میں ہمیں اپنے بچوں کو مغربی اداروں میں بھیجنے سے پہلے ان کی کارکردگی اور وہاں ہونے والے جرائم پر ضرور نظر ڈال لینی چاہیئے۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ابھی تک ایسے تشدد کے واقعات نہیں ملتے۔ امریکہ مدارس کو جس قدر بدنام کر رہا ہے۔ اور ان کو طالبان سے مربوط کر رہا ہے یہ ایک سازش کا حصہ ہے۔ جمہوری معاشروں میں شائستگی٬ رواداری اور تحمل و برداشت کے اوصاف لازمی ہوتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں توازن قائم رکھنے اور اجتماعی معاملات کی عمدہ انجام دہی میں مدد ملتی ہے۔ جمہوری ذہن کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں اس امر کا بطورِ خاص اہتمام کرنا ہو گا کہ طلبہ اور طالبات میں اختلاف رائے کا احترام پیدا ہو اور انہیں مشورے کے ساتھ اجتماعی امور طے کرنے کی عملی تربیت ملتی رہے۔ وہ ممالک جنہوں نے امریکی طرز معیشت کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیا بلکہ اس کے حوالے سے آئی ہوئی ہر چیز کی راہ میں آنکھیں بچھا دیں۔ اور ہمارا ملک بھی ان ممالک میں سے ہے جنہوں نے اندھا دھند امریکی طرز حیات کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کر دئے ہیں۔ گلوبلائزیشن کے نام پر آنے والی ہر چیز کے لئے اپنے تمام دروازے کھول دئے۔ برتھ کنٹرول کے نام پر جنسی بے راہ روی کی نہ صرف اجازت دے دی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی اور اس کے فروغ کے لئے عالمی ادارہ صحت کے فنڈ سے ریڈیو، ٹیلی ویڑن اور اخباروں میں ایسے ایسے اشتہارات واعلانات دینے شروع کردیئے کہ شریف شہریوں کا دم گھٹنے لگا۔ اسقاط حمل اب کوئی جرم نہیں رہا۔ بلکہ اس کے لئے ہر سہولت دستیاب ہے خواہ حمل کی نوعیت کچھ بھی ہو۔ تعلیمی اداروں میں جنسی تعلیم کا فتنہ اسی گلوبلائزیشن اور امریکی طرز زندگی کی دین ہے۔ ایسی متعدد نقالیاں ہیں جنہیں ترقی کے نام پر اختیار کیا جارہا ہے۔ بڑے شہروں کا کلچر نہایت تیزی کے ساتھ امریکی کلچر میں تبدیل ہو رہا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں تو مغربی اقدار سے اِس والہانہ عشق ہے کہ دہلی ہائی کورٹ نے ہم جنس پرستی کی سرپرستی میں فیصلہ دیا ہے۔ یہ مقدمہ لڑنے والی ناز فاؤنڈیشن کی خاتون صدر نے کہا ہے کہ ”بھارت اب صحیح معنی میں 21ویں صدی میں داخل ہوگیا ہے۔“ مغربی اقدار سے یہ محبت کیا کسی غیرت مند ملک کو زیب دیتی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل پر رحم کرتے ہوئے اسے مغرب کے اس تباہ کن ہتھیاروں سے بچانا چاہیے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386896 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More