اصل کمپیوٹر کاغذ پر چھاپئے٬ دلچسپ ایجاد

ذرا تصور کیجئے کہ ایک پرنٹر کے ذریعے خاص کاغذ پر کام کرنے والا کمپیوٹر چھاپا جاسکتا ہے اور اس کا ایک ٹکڑا توڑ کر آپ دوسرے کے حوالے کرسکیں گے تاکہ وہ اپنا کام چلاسکے،’ یہ کہنا ہے سٹیو ہوجز کا جو کیمبرج برطانیہ میں مائیکروسوفٹ ریسرچ سے وابستہ ہے۔ یہ زبردست آئیڈیا آج نہیں تو کل حقیقت بن ہی جائے گا کیونکہ اسے ممکن بنانے والی ٹیکنالوجی تیار ہوچکی ہے۔

ہوجز اور یونیورسٹی آف ٹوکیو، جاپان کے سائنسدان اور ان کے ساتھیوں نے ایک طریقہ وضع کیا ہے جس کے تحت کاغذ پر بہت نفاست سے الیکٹرانک سرکٹس کو چھاپا جاسکتا ہے۔
 

image


اس سے بڑھ کر یہ کہ آپ یہ کام ایک عام انک جیٹ پرنٹر سے کرسکتے ہیں جس کی سیاہی میں سلور نینو پارٹیکلز ( چاندی کے نینو ذرات) بھرے ہوتے ہیں۔ گزشتہ ماہ کاواہارہ نے سوئزرلینڈ کے شہر زیورخ میں ایک کانفرنس میں کاغذ پر ایک ایسا سینسر چھاپا جو ہوا میں نمی کا سراغ لگاسکتا تھا۔

جو سرکٹ اور آلات بناتے ہیں وہ صرف ایک کاغذ پر اپنا سرکٹ چھاپ کر اسے ٹیسٹ کرسکتے ہیں اور اگر سرکٹ کام نہ کرے تو کاغذ کو کوڑے دان میں پھینک سکتے ہیں۔ اس طرح وقت اور وسائل دونوں کی بچت ہوگی۔

آج کل تھری ڈی پرنٹرز کا بہت چرچا ہے جن پر کام ہورہا ہے اور کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ یہ تھری ڈی آلات اور اشیا پرنٹ کرتے ہیں لیکن اس کے اندر ٹو ڈی سرکٹس پرنٹ نہیں کرتے اور ہوجز اور کاواہارہ کی یہ ایجاد اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

‘ پرنٹنگ سرکٹ بورڈز کی ڈیزائننگ کوئی مشکل کام نہیں۔ بہت سے لوگ تھری ڈی پرنٹرز سے آئی فون چھاپنے کی بات کرتے ہیں، جس پر آپ ایک جگہ سب چیزیں چھاپ سکتے ہیں،’ میٹ جانسن نے کہا جو لندن کی ایک فرم بیئر کنڈکٹو کے سربراہ ہیں۔ ان کی کمپنی شوقیہ الیکٹرانکس والوں کیلئے ایسی روشنائی بناتی ہے جس سے بجلی گزر جاتی ہے اور اس سے سرکٹ کی لائنیں بنائی جاسکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے سرکٹس بنانے کی ضرورت ہے جو کئی استعمال میں آسکے مثلاً پیکیجنگ وغیرہ۔

کاواہارہ نے چاندی کے محلول پر مبنی جو انک تیار کی ہے اسے ایک عام 80 ڈالر کے انک جیٹ پرنٹر سے چھاپا جاسکتا ہے اور انہوں نے دریافت کیا کہ اس سے فوٹو کوالٹی پیپر پر سرکٹ چھاپا جاسکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ چاندی خارج کرنے کیلئے انک کو گرم کیا جائے اور اس انک کے ذرات کا سائز، ان کا گاڑھا پن اور سرفیس ٹینشن اتنا موزوں ہے کہ اس سے ہموار، سیدھے اور بہترین کنڈکٹرز ایک کاغذ پر بنائے جاسکتے ہیں۔
 

image

ٹیم نے سرکٹ پر مزید پرزے مثلاً رزسٹرز اور کیپیسٹر لگانے کیلئے سولڈرنگ کا عمل استعمال نہیں کیا کیونکہ اس سے کاغذ جلنے کا خدشہ ہوتا ہے اس کی بجائے انہوں نے ایسا گلو استعمال کیا جس سے بجلی گزرسکتی ہے۔

اس ٹیم نے نمی ناپنے والا جو سینسر بنایا جو صرف ایک سرکٹ سے بارش اور مٹی میں نمی کو محسوس کرکے اس کی تفصیل اسی پر پرنٹ ایک وائی فائی اینٹینا کے ذریعے کسی دوسری جگہ بھیج سکتا ہے۔

اسی ٹیم نے مزید پیچیدہ سرکٹ بھی چھاپے ہیں جن میں ایسے کنکٹر ہیں جن سے مائیکرو پروسیسر اور میموری چپ چپک سکتے ہیں۔

دوسری جانب میساچیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین ایسے سرکٹس پر کام کررہے ہیں جن کا ایک حصہ الگ ہوجائے تو بھی وہ کام کرتے رہیں اور اس طرح سرکٹ کا ایک حصہ توڑ کر دوسرے کو دیا جاسکتا ہے ۔

دونوں ماہرین کا خیال ہے کہ اگلے بیس برس میں لوگ پرنٹر سے اپنی پسند کا موبائل فون چھاپنے اور استعمال کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔

دوسری کمپنیاں ایسے خاص کاغذ تیار کررہی ہیں جن پر بچے سرکٹ کاڑھ کر بچے ایل ای ڈی جلاسکیں گے اور ان پر مختلف انداز میں کام کرسکیں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE:

"IMAGINE printing out a paper computer and tearing off a corner so someone else can use part of it." So says Steve Hodges of Microsoft Research in Cambridge, UK. The idea sounds fantastical, but it could become an everyday event thanks in part to a technique he helped develop.