اورکتنا ثبوت چاہئے مظفر نگر کے گنہگاروں کے خلاف؟

 فسادمتاثرین کے زخموں پرسیاست کے کانٹے سے وعدوں کا مرہم لگانے کی کوشش

وزیراعظم منموہن سنگھ، کانگریس کی چئرپرسن سونیا گاندھی اور کانگریس کے یووراج راہل گاندھی نے بھی مظفر نگرکے فساد زدہ علاقوں کا دورہ کیا اور انہوں نے بھی فساد متاثرین کے زخموں پر اسی طرح مرہم رکھنے کی کوشش کی جس طرح تین روز قبل اکھلیش سنگھ یادو نے کی تھی۔فساد زدہ علاقوں کا دورہ اور متاثرین کے زخموں پر وعدوں کا مرہم رکھنے کی روایت بہت قدیم ہے اوریہ روایت اتفاق سے کانگریس کی ہی شروع کردہ ہے جس کی حکومت میں ہزار ہا فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور ہزاروں بے گناہوں کے خون سے اس کا دامن داغدار ہے۔ فساد متاثرین کے زخموں پر وعدوں کا یہ مرہم کتنا اثردار ہوگا اور ان کی بازآباد کاری میں کس قدر معاون ہوگا؟ اس کا اندازہ اس سے قبل سیکڑوں فساد زدہ علاقوں کے دورے کے دوران کئے گئے وعدوں سے لگایا جاسکتا ہے ، جس میں فسادیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی اور متاثرین کی مالی امداد اور بازآکاری کے بلند وبانگ دعوے کئے جاتے رہے ہیں، مگر جو وعدوں کے آسمان سے عمل کی زمین پر کبھی نہیں اترسکے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وعدے اور وعیدیں ان فساد متاثرین کے زخموں کا مرہم بن سکتے ہیں جن کے عزیز واقارب اس فساد میں جاں بحق ہوئے ہیں؟کیا یہ وعدہ اس بوڑھے باپ کو اس کا بیٹا واپس لا دے گا جس کو اس کی ہی نظروں کے سامنے فسادیوں نے قتل کردیا؟ کیا وہ ماں اپنے اس لاڈلے کو دوبارہ پالے گی جسے اس کے ہی قریب کے رہنے والوں نے یہ کہہ کر محفوظ مقام پر جانے سے منع کردیا کہ یہاں تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے اور پھر رات کو اسی بوڑھی ماں کی نظروں کے سامنے اس کے لاڈلے کو موت کے گھاٹ اتار دیا؟ کیا یہ کانگریسی یا اکھلیشی وعدے ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی زخموں کو مندمل کرسکتے ہیں جن کی عصمتیں ان کے ہی عزیز واقارب کے سامنے تار تار کی گئیں؟ کیا حکومت کی جانب سے فسادیوں کے خلاف سخت کارروائی کا وعدہ ان لاکھوں مسلمانوں کے زخموں کا مداوا ہوسکتے ہیں جو آج اپنا گھربارچھوڑ کر ریلف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا فسادات میں مارے گئے لوگوں کے ورثاء کو چند لاکھ روپئے کی بھیک یا ملازمت دینے کا جھن جھنا تھما کر مرکزی وریاستی حکومت ان کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کررہی ہیں؟ کیا یہ چندلاکھ روپئے یا ملازمت کا کاسہ اس عذاب کو ختم کرسکتا ہے جس میں آج مظفر پور، باغپت، شاملی اور کوال کے لوگ جل رہے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ کیا مسلمانوں کے جانوں کی قیمت حکومت طئے کرے گی؟ کیا مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے والوں کو ان حکومتی وعدوں کے درپردہ یہ پیغام نہیں دیا جارہا ہے کہ وہ جس کی چاہیں عزت لوٹیں، جس کی چاہیں جان لے لیں، جس کا چاہیں گھر جلا دیں اور جس کو چاہیں اپاہج کردیں ، حکومت ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کا صرف وعدہ کرے گی اور متاثرین کو چند لاکھ روپئے دئے جانے کا وعدہ کرلے گی جسے حاصل کرتے کرتے دوسرا فساد ہوجائے گا۔

ظاہر ہے کہ ان سب سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں۔ تو پھر ان بے چارے فساد متاثرین کے زخموں پر سیاست کے کانٹے سے وعدوں کا مرہم لگانے کی یہ کوشش اب بند ہونی چاہئے ۔یہ صرف اورصرف مسلم ووٹوں کو رجھانے کی ایک کوشش ہے۔ اگر حکومت واقعی اس معاملے میں سنجیدہ ہے تو اسے بغیر کسی تاخیر کے فسادیوں کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہئے اور مرکزی حکومت کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہئے۔ صرف دورہ کرنے اور وعدہ کرنے سے نہ کسی کا زخم مندمل ہوگا اور نہ ہی فسادیوں کو قرار واقعی سزا ملے گی ۔ بلکہ بعید نہیں کہ یہی فسادی حکومت کی تساہلی کو دیکھتے ہوئے اپنا سیاسی مقصد حاصل کرنے کے لئے کسی اور علاقے کو مظفر نگر یا شاملی یا باغپت بنا دیں۔ اور یہ صرف خدشہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ فسادی 2014آتے آتے مزید کئی علاقوں میں آگ اور خون کا ننگا ناچ کریں گے۔ یوں بھی آج آئی بی کی جانب سے مرکزی وزرات داخلہ کو ملک میں ممکنہ فسادات کے تعلق سے ایک رپورٹ سونپی گئی ہے ،جس میں 12ریاستوں کے 45مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ فسادی ان مقامات پر فساد برپا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان 12ریاستوں میں سرِ فہرست اترپردیش ہے ، جبکہ مدھیہ پردیش، بہار، راجستھان ، مہاراشٹر، اڑیسہ ، کرناٹک اور چھتیس گڑھ کے بھی نام شامل ہیں۔(آج تک،16ستمبر2013، 16:39 IST) اس سے یہ بات یقینی ہوجاتی ہے کہ فسادیوں کے حوصلے ابھی بہت بلند ہیں اور وہ ریاست کے دیگر اضلاع کو بھی نشانہ بنانے کی تیاری میں ہیں۔

سونیا گاندھی ، منموہن سنگھ اور راہل گاندھی بھلے ہی مظفر نگرو شاملی کے چند ریلیف کیمپوں میں انتہائی سیکوریٹی کے ساتھ پہلے سے طئے شدہ چند لوگوں سے ملاقات کرکے اپنے چہروں پر پژمردگی طاری کرلئے ہوں، مگریہ بات دعوے کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس دورے اور ملاقات سے وہ اس علاقے کی دلخراش حالات سے دس فیصد بھی واقف نہیں ہوسکے ہونگے۔ ان کا دورہ تو اکھلیش سنگھ یادو کی طرح ایک طئے شدہ دورہ تھا اور وہاں کی انتظامیہ جس کا فساد میں بھرپور رول رہا ، حقیقی متاثرین کو ان کے قریب بھی نہیں بھٹکنے دیا جن کا سب کچھ برباد ہوچکا ہے۔ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کی ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کی عصمت دری کی گئی ہے وہ تو اپنی زندگی کو کوستے ہوئے کہیں کسی کونے میں دبکے ہوئے اپنی بدنصیبی پر آنسو بہارہے تھے۔ ان تک یہ وی آئی پی قافلہ بھلا کیا پہونچا ہوگا۔ ہم ان لوگوں کے دوروں کی مخالفت نہیں کررہے ہیں مگر اس کے ساتھ ہم ان وعدوں کے مرہم بانٹے والوں سے دست بستہ یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ شریمان لوگ! یہ دور شوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا بھی ہے ۔ جس طرح مظفر نگر ودیگر اضلاع کی تباہی وتاراجی میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے سنگیت سوم کی جانب سے یوٹوب اور واٹس اپ پرپوسٹ کی گئی ایک جعلی ویڈیو نے اہم کردار ادا کیاہے ، بالکل اسی طرح فسادات کی کچھ حقیقی تصویریں بھی یو ٹیوب اورواٹس اپ پر موجود ہیں جن سے فسادی درندوں کی سفاکی اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور وہاں کی حقیقی صورت حال سے واقفیت حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر پھر بھی مشکل ہو تو یہ لنک ہی دیکھ لیں اپنے موبائیل پر بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔لنک یہ ہے:(https://daily.bhaskar.com/article/UP-daughters-raped-in-front-of-mothers-muzaffarnagar-riots-victims-too-afraid-to-re-4376208-NOR.html
اس میں کچھ عورتوں کی تصویریں ہیں جو اپنی دلخراش داستان بیان کررہی ہیں۔ یہ ویڈیو نہیں بلکہ ایک خبر ہے اور نہایت ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کی گئی ہے۔یہ لنک اکھلیش سنگھ کو بھی اپنے لیپ ٹاپ پر دیکھ لینی چاہئے جو پوری ریاست میں لیپ ٹاپ تقسیم کرتے گھوم رہے ہیں۔

اس کے علاوہ الکٹرانک میڈیا کے پاس فسادات کے سیکڑوں فوٹیج موجود ہیں جن میں فسادیوں کی نہ صرف ویڈیو ریکارڈنگ ہے بلکہ ان کے بھی کرتوت ریکارڈ میں ہیں جنہوں نے یہ فساد برپا کروایا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فسادیوں کے خلاف سخت ترین کارروائی میں اب بھلا دیر کس بات کا ہے؟ ویڈیو موجودہے، فوٹیج موجود ہے، تصویریں موجود ہیں، ریکارڈنگ موجود ہے ۔ پھر بھلا ان کے خلاف کارروائی کیوں صرف وعدوں تک ہی محدود ہے؟ اگر کارروائی کرنے کی بات آئے تو پولیس تو پاتال سے بھی ڈھونڈ کر فسادیوں کو نکال سکتی ہے۔ ممبئی کے آزاد میدان کے سانحے کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ پولیس نے ویڈیو فوٹیج کی بنیاد پر 30سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا تھا اور جس میں بہت سے ابھی بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یوپی کی پولیس میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ ان ویڈیو زکی مدد سے فسادیوں کو گرفتار کرسکے؟ اس کا جواب بھی ہم ہی دئے دیتے ہیں کہ یو پی پولیس بالکل گرفتار کرسکتی ہے اور اس کے اندر اتنی استطاعت اور قابلیت بھی ہے ۔ مگر فسادیوں کو جو حکومتی سرپرستی حاصل ہے وہ اس معاملے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔سوال یہ بھی تو ہے کہ فسادیوں کے خلاف آخرکارروائی کیوں ہو، جب حکومت یہ جانتی ہے کہ وعدوں کا مرہم ان کے لئے کافی ہے۔ ان کو چند لاکھ روپئے اور ملازمت دینے کی لالچ دینا ہی کافی ہے۔ بیوقوف بنانے کی یہ روایت بہت قدیم ہے ،افسوس کہ اس پر آج بھی عمل جاری ہے کیونکہ ہم بہت جلد بیوقوف بن جاتے ہیں۔

کانگریس کی اس اعلیٰ قیادت کے دورے سے کسی فساد متاثرہ شخص کو کوئی فائدہ ملے یا نہ ملے ، ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ منموہن سنگھ این ڈی اے کی اٹل بہاری واجئپی سے زیادہ بودے اور کمزور ہیں۔ واجپئی نے 2002میں گجرات فسادات میں مودی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے راج دھرم نہ نبھانے پر اسے ہٹانا چاہتے تھے۔ اس کا اظہار انہوں نے برملا کیابھی تھا۔ مگر منموہن سنگھ جی فسادیوں کے خلاف کارروائی کے وعدوں کے سوا اکھلیش حکومت کے خلاف تنبیہی لفظ تک زبان پر نہیں لاسکے۔ یہ پوری صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ ہونا ہوانا کچھ نہیں ہے ، صرف ناٹک ہورہاہے اور یہ ناٹک کسی اور مظفر نگر کی دستک دے رہا ہے۔
Azam Shahab
About the Author: Azam Shahab Read More Articles by Azam Shahab: 7 Articles with 3545 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.