امریکہ کے خلائی ادارے ناسا کا وواہئجر-1 خلائی جہاز
انسان کی بنائی ہوئی وہ پہلی چیز ہے جو نظامِ شمسی سے باہر نکل گئی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وواہئجر کے آلات سے ملنے والی اطلاعات سے معلوم
ہوتا ہے کہ وہ ہمارے سورج کے مدار سے نکل چکی ہے اور وہ اب ستاروں کے
درمیان خلا میں گھوم رہی ہے۔
وواہئجر-1 کو 1977 میں ابتدائی طور پر نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کے مطالعے
کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن یہ آگے چلتا ہی گیا۔
|
|
آج ناسا کا یہ خلائی جہاز زمین سے تقریباً 19 ارب کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
یہ فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ اب وواہئجر سے بھیجے گئے ریڈیو سنگنل زمین پر
لگے ریسیورز تک سترہ گھنٹوں میں پہنچتے ہیں۔
اس مشن کے سربراہ سائنسدان ایڈ سٹون نے کہا کہ ’یہ واقعی ایک اہم سنگِ میل
ہے جس کی ہم نے چالیس سال پہلے اس پراجیکٹ کو شروع کرتے ہوئے امید کی تھی۔
ہمیں امید تھی کہ ہم ستاروں کے درمیان خلا میں خلائی جہاز کو پہنچائیں گے۔‘
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سائنسی اور تاریخی اعتبار سے ایک بہت ہی
اہم سنگِ میل ہے جس طرح انسان نے پہلی دفعہ زمین پر قدم رکھا تھا۔ یہ پہلی
دفعہ ہے کہ ہم نے ستاروں کے درمیان خلا کو دریافت کرنا شروع کر دیا ہے۔‘
|
|
جب وواہئجر-1 کی ٹیم نے خلائی جہاز پر موجود آلات سے ملنے والی معلومات اور
نئے ڈیٹا کا تجزیہ کیا تو انھیں معلوم ہوا کہ وواہئجر 25 اگست 2012 کو یا
اس تاریخ کے قریب نظامِ شمسی سے باہر نکلا ہے۔
وواہئجر کے متعلق ان تمام معلومات کو سائنس نامی جریدے میں شائع کیا گیا ہے۔
وواہئجر-1 چالیس ہزار سال تک کسی دوسرے سیارہ تک نہیں پہنچے گا حالانکہ یہ
45 کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہا ہے۔
پرفیسر ایڈ سٹون کا کہنا ہے کہ ’وواہئجر-1 ہمارے کہکشاں کے مرکز میں ستاروں
کے درمیان اربوں سالوں تک رہے گا۔‘
|