افغان ،پناہ گزین یا ایک مسئلہ

پاکستان میں موجود افغان پناہ گزین، تعداد میں دنیامیں سب سے زیادہ اور محفوظ ترین پناہ گزین ہیں۔ 1979میں جب سویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو، پہلی دفعہ افغان پناہ لینے کے لیے پاکستان آئے۔اس وقت ملک میں رہنے والے افغانوں کے مناسب دستاویزات نہیں تھے۔ دستیاب اعدادوشمار سے اصل پناہ گزین آبادی کااندازہ لگاناممکن نہیں تھا۔2003-4 میں حکومت پاکستان نے ملک میں مقیم افغانوں کی صیحح تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے ان کی مردم شماری کرنے کافیصلہ کیا۔اس سروے میں اقوام متحدہ کے کمشن برائے پناہ گزین، سے مالی اور تکنیکی مدد لی گئی۔ یہ کام 23 فروری سے 4 مارچ 2005 تک مکمل ہونا تھا، لیکن مشکلات کی وجہ سے اس میں کچھ تاخیر ہوئی۔جب اس کے تنائج کا اعلان کیا گیا تویہ نا صرف پاکستان کے لیے غیر متوقع تھا،بلکہ اقوام متحدہ کا کمشن برائے پناہ گز ین بھی 3 ملین سے زیادہ لوگوں کی موجودگی سے حیران رہ گیا۔اس وقت کے اعدادوشمار کے مطابق 548,105 حاندانوں پر مشتمل 3040,268 افغان پناہ گزین پاکستان میں موجود تھے ۔

اب موجودہ صورتحال یہ ہے کہ قوام متحدہ کے کمشن برائے پناہ گزین کے مطابق 1.6 ملین افغان پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں، جبکہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

موجودہ دور میں پاکستان کو بہت سے مسائل در پیش ہیں،جن میں افغان پناہ گزینوں کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ دوسری طرف افغان باشندے ملکی مسائل میں اضافہ کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ افغان محتلف جرئم میں ملوث پائے گے ہیں، جن میں چوری،ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان وغیرہ شامل ہیں۔ذرائع کے مطابق ابھی بھی پاکستان میں 5 سے 10لاکھ ایسے افغان پاکستان میں موجود ہیں جن کا کوئی ریکاڈ اور دستاویزات حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ریکاڈ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا سراغ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے، جو ان کو جرائم کرنے میں مزید آسانی فراہم کرتا ہے۔ آ جکل افغان دہشت گردی میں بھی ملوث ہیں اور ایک سیکورٹی رسک بن چکے ہیں۔

ان کی پاکستان میں طویل عرصہ سے موجودگی اور منفی سرگرمیوں کی وجہ سے اب پاکستانی عوام بھی ان کو نا پسند کرنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ پاکستانی معشت پر فالتوبوجھ ہیں،لہذا ان کا انحلا بے حد ضروری ہے۔

ہجرت ایک مستقل رحجان نہیں ہے،لوگ اپنے ملک میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر کسی دوسرے ملک میں پناہ لیتے ہیں اوراپنے آبائی وطن کے حالات بہتر ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں۔لیکن افغان پناہ گزینوں نے ایسا نہیں کیا، وہ ایک طویل عرصہ سے پاکستان میں ہی رہائش پذیر ہیں۔

2005 میں افغان حکومت نے پناہ گز ینوں کی رضاکارانہ وطن واپسی کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے ،300000 لوگوں میں 13000پلاٹ تقسیم کیے۔ افغانوں کی اکثریت وطن واپس نہ جانے کی وجہ اپنے معاشی مسائل اور افغانستان کا معاشی بحران بتاتی ہے، جبکہ 18 فیصد لوگوں کے مطابق ان کے واپس نہ جانے کی وجہ امن و امان کی خراب صورتحال ہے۔ بین الاقومی قانون کے مطابق جو لوگ معاشی مسائل کی وجہ سے کسی دوسرے ملک میں رہتے ہیں وہ سیاسی پناہ کے مستحق نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کی حثیت کے متعلق پروٹوکول نے واضح طور پران کو پناہ گزینو ں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔اوران کو زبردستی واپس بھیجاجا سکتا ہے۔

غیر ملکی پنا ہ گزین پاکستان کے قانونی شہری نہیں ہیں۔پاکستان کے قانون کے مطابق ایک پناہ گزین پاکستان کا شہری نہیں ہو سکتا۔ حکومت پاکستان نے پناہ گزینوں کو قانونی پابندی کی وجہ سے نہیں،بلکہ انسانی ہمددردی کے جذبہ کے تحت پاکستان میں رہنے کی اجازت دی ہے۔

موجودہ دور میں جب افغان پناہ گزین ایک مسئلہ کی شکل اختیارکر چکے ہیں، تو اس مسئلہ کا جلد اور پائیدار حل تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

حکومتـ پاکستان نے افغانوں کو مزید 2015 تک پاکستان میں رہنے کی اجازت دے دی ہے،حکومت کو چاہیے کہ اس فیصلہ پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ ایک بہت طویل عرصہ ہے، اس مدت کو کم کیا جانا چاہیے اور افغان حکومت سے بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ رضاکارانہ وطن واپسی کو فروغ دینے کے لیے جلد اور ٹھوس اقدامات کرے اور اس سلسلہ میں جامع حکمت عملی تشکیل دے تا کہ افغان پناہ گزینوں کی جلد وطن واپسی ممکن ہو سکے۔

Muhammad Ali Malik
About the Author: Muhammad Ali Malik Read More Articles by Muhammad Ali Malik: 17 Articles with 41442 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.