ایمن الظواہری ’’ ایک خطرناک امریکی مہرہ‘‘۔؟

مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب میں تبدیل کرنے کیلئے امریکی حکمرانوں نے القاعدہ و طالبان کو نشانہ بنا کر جو تحریک شروع کررکھی ہے۔ وہ بڑی خطرنا ک نوعیت کی ہے۔ ان کی جانب سے یہ کوشیش کی جاتی ہے۔کہ مذہب اسلام کے تئیں دنیائے عوام کو گمراہ کیا جائے،ان کو اس مذہب سے دور کیا جائے۔لیکن جو لوگ مذہب اسلام پر عمل پیر ا ہیں۔ان کو عوام کو سامنے اس طرح پیش کیاجاتاہے جیسے کہ وہ تمام لوگ جو اسلام کو مانتے ہیں وہ سب کے سب دھشت گرد ہیں۔مگر امریکی میڈیا کی یہ شرمناک حرکت ہے کہ مسلمانوں کو اسلامی حلیہ میں القاعدہ و طالبان کے حوالہ سے بدنام کیا جاتاہے۔یہ لوگ جو ویڈیو سے منظر عام پر آتے ہیں۔ان کا وجود امریکی ذرائع ابلا غ سے ہوتا ہے۔ پہلے ان کا خوبصورت چہر ہ بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔ پھر ان کے نام سے کسی پیغام کی نمائش کرائی جاتی ہے۔ان کی ’’بات چیت‘‘ کوفرضی طورپر ایک خطرناک سازش دے کر فلمایا جاتا ہے۔ اس کو ’’امریکہ مخالف بنا کر پیش کیا جاتا ہے‘‘اور پھر امریکہ ان کی خطرناک حرکتوں کاحوالہ دیکر اپنے بچاؤ میں اتر آتاہے۔یہ اس کی خود ایک تیار کردہ حکمت عملی ہوتی ہے۔آج کل امریکی انتظامیہ ایمن الظواہری کی خطرناک شکل و صورت بنا کر پیش کررہی ہے۔جس سے مسلم سماج کی غلط تصویرکو اوسامہ کی طرح پھرسے اُبھارہ جارہا ہے۔حالانکہ مسلمان اس حقیقت سے آگاہ ہیں ۔کہ ایمن الظواہری دنیا کیلئے اب ایک خطرناک امریکی مہرہ ہے۔اسی لئے ایمن الظواہری کی تخلیقی کیسٹوں کو بنیاد بنا کراور امریکی میڈیا کی رپورٹ کا حوالہ دیکرعالمی سطح پر اپنے سفارت خانوں میں چند ایام کیلئے بندش لگاکر اپنے اس مہر ے کی نمائش کی جارہی ہے۔ کہ امریکی اخبار نیوٹایمزکے مطابق القاعدہ کے دو اعلیٰ رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کے پکڑے جانے وجہ سے عالمی سطح پر مختلف امریکی سفارت خانوں کو بند کردیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس گفتگو میں القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری بھی شامل تھے۔ اس گفتگو میں11 ستمبر کے حملے بعد سب سے بڑے حملے کی بات کہی گئی تھی۔ جو ایمن الظواہری کو شہرت دینے کیلئے ان کو 10اگست تک بند رکھا گیا۔القاعدہ و طالبان جو مذہب اسلام کو دھشت گرد مذہب تبدیل کرنے کیلئے بنایا گیا۔ اس کو ایک اسلامی حلیہ میں اسلام دشمن چہرہ ہے۔جس سے اسلام و مسلمانوں کو بدنام کیا جاتا ہے۔ یہ امریکی انتظامیہ کی ایک القاعدہ و طالبان کے حوالہ سے ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔ امریکہ کی اس تازہ حکمت عملی سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے۔ امریکہ از خود گیارہ ستمبر جیسے خطرناک حملے کے بعداب پھر کسی بڑے حملے کی تیار ی کررہا ہے۔گیارہ ستمبر کا حملے کے بعد اس نے متعدد عرب ممالک کو اپنے جبڑے میں جکڑ کر وہاں کے عوام اوران کے ملکوں کو حد درجہ کمزور کرکے بے دست وپا کردیا۔پھر ایک نئی کوشیش القاعدہ و طالبان کے حوالہ سے ہی کی جارہی ہے۔ اور کوشیش کی جارہی ہے آگے کس طرح بچے کچے عرب و مسلم ممالک کو اپنی تحویل میں لے کر ان کو کچلا جاسکے۔افغانستان ، عراق، لیبیا ، شام، مصر میں تو مسلمانوں کو عیسائی مذہب کے تحت لانے کیلئے کام چل رہا ہے۔ان ممالک میں مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہوں، مذہبی اداروں و درس گاہوں کو سلسلہ وار بم دھماکوں سے روزانہ اڑایا جارہا ہے۔ان کی اس مکاری کی وجہ نہ ملک تباہ ہوئے بلکہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنا دئے گئے ۔ یہ سب اس لئے کیا جارہا ہے جس سے مسلمان دھشت کا شکار ہوکر خود ہی حلقہ عیسائیت، حلقہ یہودیت میں داخل ہوجائیں۔امریکہ کا مسلم ممالک میں سلسلہ وار قبضہ مذہب اسلام کو مٹانے کی اسلامی حلیہ میں جو تحریک چل رہی ہے۔اس کا اہم مقصد عرب اور مسلم ممالک سے اسلامی تعلیم کو مکمل طورپر ختم کرنا ہے۔اسی کے تحت ہی القاعدہ و طالبان کے عنوان سے کام ہورہا ہے۔ان اس تحریک کا اصل مہرہ ایمن الظواہری ہے۔

بہرحال امریکہ ایمن الظواہری کی پبلسٹی کیلئے ان کی خوبصورت تخلیقی تصویر عالمی سطح پر اپنے سفارت خانوں میں ضرور نصب کرے گا جس طرح اس نے اس سے قبل اوسامہ بن لادن کی نصب کی تھی۔حالانکہ مذہبی اسلامی دنیاامریکہ کی اس خفیہ حکمت عملی کو اب پہنچان چکی ہے۔ایمن الظواہری ہوں یا ملاعمر یہ عربی زبان کے ماہر یہودی لوگ ہیں۔جو اسلامی حلیہ میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف کام کررہے ہیں۔ اسی لئے ان کی پبلسٹی امریکی میڈیا کے ذریعہ کی جارہی ہے۔ یہ سب ایک شرارت کا حصہ ہیں۔بس اس پر اب یہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ کہ ایمن الظواہری ـ’ ’ ایک خطرناک امریکی مہرہ‘‘ ہے۔جس کو امریکہ نے دنیا کی تباہی کیلئے اورایک مفاد کے خا طرمنظم طور پر اس کو گویا تیار کر ہی لیا ہے۔فی الوقت دنیائے عوام کو اس بناؤٹی چہرے سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اس حوالہ سے چلائی جارہی مہم سے ہوشیار رہنے کی شدید ضرورت ہے۔ ایازمحمود، نئی دہلی۔

Ayaz Mehmood
About the Author: Ayaz Mehmood Read More Articles by Ayaz Mehmood: 98 Articles with 73945 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.