جرم اور سم کارڈز

جرم کیسا ہی ہو٬ اخلاقی جرائم سے لے کر قتل٬ چوری٬ ڈکیتی٬ راہزنی٬ لوٹ مار٬ موبائل فون چھیننے کی وارداتیں اور پھر خودکش حملے- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب وارداتوں کی کامیابی کا راز کیا ہے- ہر خاص و عام اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ کوئی بھی واردات اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک مجرموں کے درمیان رابطہ نہ ہو یہاں یہ بات نہایت افسوس کے ساتھ کہنی پڑے گی کہ جرائم کی دنیا میں استعمال ہونے والا سب سے بڑا ORGAN ہم نے خود مہیا کیا ہے اور وہ ہے گلی میں پرچون٬ پان سگریٹ کی دکانوں پر بکنے والے موبائل فون کےSIM CARDS- کسی بھی نیٹ ورک پر ان سم کارڈز کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے- خیال رہے پاکستان میں جتنے بھی موبائل نیٹ ورک کام کر رہے ہیں وہ سب کے سب غیر ملکی ہیں انہیں تو سرمایہ بٹورنے سے غرض ہے- نہ کہ پاکستان سے- جیسے میڈیا کے لیے قاعدے اور ضابطے ہیں اسی طرح انہیں بھی پابند کیا جائے بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ سم کارڈز صرف نادرہ کے آفس سے ISSUE کیا جائے صرف ان لوگوں کو جن کے شناختی کارڈز بن چکے ہیں- یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بہت کم لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈز موجود ہیں- جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جن لوگوں کے پاس قومی شناختی کارڈز نہیں ہیں انہیں بنیادی سہولتوں سے محروم کیا جاتا- پاکستان ریلوے کے کسی بھی آفس سے ٹکٹ بک کروائیں تو دی جانے والی ٹکٹ پر ایک ہی کالم خالی نظر آئے گا اور وہ کالم قومی شناختی کارڈ کا ہوگا یہی حال تمام بس سروسز کا ہے-

اگر پاکستان واقعی بچانا ہے تو 1980 سے لے کر اب تک آنے والے انڈین اور افغانیوں کو ڈھونڈنا اور نکالنا انتہائی ضروری ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ رجسٹریشن پر زور دیا جائے اور نادرہ کے اسٹاف میں مزید ایک پینل کا اضافہ کیا جائے جس میں موجود لوگ قومی شناختی کارڈ کے درخواست گزار کو Diagnose کر سکیں کہ درخواست دینے والا پاکستانی ہے بھی یا نہیں- امید ہے حکومتِ پاکستان و دیگر ادارے قومی شناختی کارڈز اور غیر رجسٹر سم کارڈز کے بارے میں سوچیں گے اور بہتر فیصلہ کریں گے-
Shabbir Ahmed
About the Author: Shabbir Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.