کاش ملالہ تم ڈرون اور عافیہ صدیقی کا ذکر بھی کرتیں

گزشتہ روز 12جولائی2013کو ملالہ یوسف زئی عرف گل مکئی کی 16ویں سالگرہ کے موقع پر اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون،سابق برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن ،جنرل اسمبلی کے صدر روک جیرمک اور دیگر رہنماؤں نے ،ملالہ ڈے کا اانعقاد کرتے ہوئے ملالہ کو تعلیم کیلئے جدو جہد کر نے پر زبردست خیراجِ تحسین پیش کیا۔اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنر ل بان کی مون کے چند الفاظ کالم میں شامل کیے بنا راقم الحروف کی نوشت میں کِسی صورت جان نہ ڈل سکے گی۔ بان کی مون نے ملالہ ڈے کے موقع پر کہا کہ ’’ملالہ کو اسکول جانے اور تعلیم کو پھیلانے کی پاداش میں دہشت گردوں نے نشانہ بنایالیکن ہر بچے کو تعلم دِلانے کیلئے تمام ممالک آج متحد ہیں یہ پاکستانی بچی ہماری ہیرو اور چیمپئن ہے‘‘اور گورڈن براؤن کے یہ تاریخی الفاظ بھی ذرا ملاحظہ فرمائیں’’پوری دنیا ملالہ کے ساتھ ہے ہم اِس کی جدوجہد کی قدر کرتے ہیں‘‘ ……سنا ہے کہ قصائی جانور کو ذبح کرنے سے قبل اُس کی خوب خاطر تواضع کرتا ہے میں قصائی نہیں لہذا یہ رازو نیاز کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ خیر بات ملالہ کی ہو رہی ہے اورکوئی لاکھ پرو پیگنڈاکرے مگر حقیقت یہی ہے کہ دُخترِ سوات گُل مکئی پر پاکستان کو فخر ہے ۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کے پاکستان کے وجود کی حسین وادی سوات کی معصوم گُل مکئی نے دیارِ غیر اور وہ بھی اقوامِ متحدہ میں بارِدا پاکستانی لباس میں ملبوس نوبل پرائز برائے امن وصول کر کے تمام پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے ۔یہی نہیں ملالہ یوسف زئی کو اقوامِ متحدہ میں نیلسن منڈیلا کے بعد سب سے زیادہ پزیرائی مِِلی ہے اور اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں ملالہ کے حق میں نعرے بھی بلند ہوئے۔ایک بات جو مجھ فقیر نا سمجھ بونگے انسان کو دیمک کی مانند اندر ہی اندر سے چاٹے جا رہی ہے آخر ایسی کونسی مصیبت اِن گوری چمڑیوں پر ٹوٹ پڑی ہے کہ انہیں پاکستان کے 13کڑوڑ نوجوانوں میں سے صرف ایک ملالہ کا دکھ درد ہی سمجھ آیا؟دال میں کیا ہے ماملہ مجھ نابینا کی بسیرت کا نہیں یہ تو آنکھ والوں کا ہنر ہے۔ویسے آپس کی بات ہے گُل مکئی اپنا ملالہ ڈے سوات یا پاکستان میں منانے پر بھی تو اسرار کر سکتی تھی اور یوں حب الوطنی اور پاکستانی طالبات کے ساتھ یکجہتی کی ایک اعلیٰ مثال قائم ہوتی۔سنا ہے Celebratesکی ہر فرمائش کو سر آنکھوں پر رکھا جاتا ہے۔ملالہ تم خوشی کے اِن لمحات میں اتنا مگن ہوئی کہ اپنی دکھیاری بہن عافیہ صدیقی کے حق میں ایک جملہ بھی ادا نہ کیا ۔ڈرون حملوں کا شکار ہونے والے معصوم طالبعلموں کے بارے بھی تمہارے لبوں پر کوئی سوال نہ تھا۔تمہارے لب تو ہِل رہے تھے مگر مجھے ایسا کیوں لگا کہ تم خاموش تھیں اور کاموش ہو۔

خیر مجھے اور مجھ جیسے اندھوں کو تو دُخترِ پاکستان عافیہ صدیقہ کا کم سنی میں بوڑھا چہرہ بھی نظر آتا ہے،ہم بہروں کو عافیہ صدیقی کی کراہتی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور ہم گونگے چیخ چیخ کر انصاف کی اور اُس مظلوم کی رہائی کی بھیک بھی مانگتے ہیں ۔مگر حقیقت تو یہی ہے کہ ہم اندھے بھی ہیں ،گونگے اور بہرے بھی اب بھلا دیکھنے ، بولنے اور سننے والے ہم Demented(پاگل، دیوانے) لوگوں کی روداد پر کیونکر یقین کریں۔گورڈن براؤن نے کہا ’’ہم ملالہ کی جدو جہد کی قدر کرتے ہیں‘‘ایک جدو جہد ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھی تو کی تھی تعلیم کو پروان چڑھانے کی اسلام ،عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر ریسرچ کر کے،امریکہ کی ٹاپ یونیورسٹیوں Brandiseاور MITسے Ph.Dکی اعزازی ڈگریاں حاصل کر کے، دین کی تعلیم کیلئے انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ اینڈ ٹیچنگ قائم کرکے قرآن کی تعلیم کو عام کرنے کی ذمہ داری بھی اُٹھا ئی تھی ۔اِس بیٹی کی جدوجہد کی قدر کیا خوب کی گئی اُسے پنچھیوں کی طرح پنجرے میں قید کر لیاگیا۔یہی عافیہ صدیقی اگر طالبان کی قید میں ہوتیں تو پاکستان میں لاکھوں،کروڑوں بینروں تلے مختلف نعروں کے ہمراہ ہزاروں جلوس نمودار ہو رہے ہوتے ۔ایک ہی گھر کی دو بیٹیاں ایک کو سگی اور دوسری کو سوتیلی قرار دے دیا گیا۔ملالہ ڈے منانے والے تو لاکھوں کرڑوں مِل گئے لیکن عافیہ ڈے منانے والوں میں ڈاکٹر فوزیہ اور اُن کے اہلِ خانہ ہی ہیں جِن کی آنکھوں نے حسین خواب دیکھنا چھوڑ دیے ہیں وہ تو بس انتظار کی سولی پر جھول رہے ہیں۔محترم برادران یاسر پیرزادہ،اشتیاق بیگ،نیویارک سے عظیم ایم میاں اور دیگر صاحبِ قلم اپنے کالموں میں ایک بہن کے ذکر کے ساتھ دوسری دکھوں کی ماری بہن عافیہ صدیقی کا تذکرہ کیوں بھول گئے۔ قارئین کو یاد ہوگا جون 2002میں مختارا ں مائی کے ساتھ مبینہ طور پر رونما ہونے والے بدنما واقعے کے بعد گوری چمڑیوں کی متعدد لبرل این جی اُوز نے مختاراں مائی کی عصمت و عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے پاکستانی معاشرے اور پورے نظامِ انصاف کو کھلی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے رات ورات اُسے ہیرو بنا دیا تھا۔یہاں میرا موضوع مختاراں مائی نہیں میں تو بس یہ یاد دلانا چاہتا ہوں جو کل کی ہیرو تھی آج وہ منظرِ عام پر نہیں ……آج ہیرو ملالہ ہے اور کل نہ جانے کون ہو……گورے جِسے چاہیں ہیرو اور جِسے چاہیں زیرو بنادیں ۔ 17جولائی کے شام کے ایک موقر روزنامہ کے مطابق بالی وڈ کے معروف فلم ساز Davis Guggenheimنے ملالہ کی جانب سے کی گئی تعلیم پر جدو جہد اور اُس کی زندگی پر دستاویزی فلم بنانے کا آغاز کر دیا ہے ۔ظلم و ستم کا شکار عافیہ صدیقی کی جدو جہد اور گزشتہ و حالیہ زندگی نے شاید سلیمانی چادر اُوڑھ رکھی ہے ۔

مجھ نہ سمجھ کم عقل بونگے کا سوال پھر وہی ہے کہ اگر ملالہ طالبان کے حملے کی بجائے کِسی اور سے زخمی ہوتی تو کیا اُسے اقوامِ متحدہ میں وہی خیراجِ تحسین ملتا جو 12جولائی ملالہ ڈے کے موقع پر مِلا؟ کیا امریکہ طالبان کو یہ ثابت کروانا چاہتا ہے کہ جو تمہارادشمن ہے وہ ہمارا عزیزِ برادرم ہے ؟2009میں بی بی سی اُردو کو گُل مکئی کے نام سے خواتین کی تعلیم کے فروغ کیلئے خطوط لکھنے سے شہرت پانے والی ملالہ یوسف زئی 9 اکتوبر2012کواسکول سے گھر جاتے وقت اسکول وین میں طالبان کی اندھی گولی کا شکار ہوتی ہے جسے پہلے پشاور اور وہاں سے ایم ایچ ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے جہاں ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق انگلینڈ پہنچا دیا جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے چند ہی ماہ میں آٹھویں کلاس کی 15سالہ طالبہ اقوامِ متحدہ کی ہیرو بن جاتی ہے مگر گزشتہ10سال سے قید عافیہ صدیقی کِسی کو نظر کیوں نہیں آئی۔مجھ درویش نے بہت کوشش کی بات کو ہضم کر لوں مگر میرا ہاضمہ اِس قدر اچھا نہیں…… ایک خلش سی ہے جو ذہن میں محو ررقص ہے کہیں ہماری معصوم دخترِ سوات کو استعمال تو نہیں کیا جارہا؟کیونکہ وہ اِس وقت جِن کے درمیان موجود ہیں اِن کے دِل میں پاکستانیوں کی تعلیم اور انسانیت کا اتنا ہی دکھ ہوتا تو وہ دخترِ پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ قید میں یوں حیوانی سلوک ہر گز نہ کرتے ۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلیمی منصوبہ ہی عافیہ صدیقی کا اصل جُرم ہے کیونکہ اس طرح پاکستان 20سے25سال میں سائنس اورٹیکنا لوجی میں یورپ اور امریکہ کا مقابلہ کرسکتا تھا وہ نئی نسل کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے ملک کے حالات بدلنا چاہتی تھیں ۔میں ملالہ کی جدو جہد کی تہہ دِل سے قدر کرتا ہوں لیکن ہمیں تو ہمارے پیارے آقا محمدمصطفیٰ ﷺ نے مساوات کی تعلیم دی ہے ہماری نظروں میں تو سب کی قدرومنزلت ،عظمت و عصمت ایک سی ہے خواہ وہ مختارا مائی ہو ،ملالہ یوسف زئی،ڈاکٹرعافیہ صدیقی یا 12جنوری 2012کو ہم سے بچھڑ جانے والی ننھی مائیکرو سافٹ سر ٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم رندھاوا ہماری نظر میں تما م بہن بیٹیاں قابلِ احترام ہیں۔پاکستانیوں نے کبھی کِسی کی بہن بیٹی کو برہنہ پنجرے میں قید نہیں کیا ۔ہم ایک ہی گھر کی دو بہنوں میں سے ایک کو پنجرے میں قید کر کے دوسری کو سیون سٹار ماحول مہیا ہر گز نہیں کرتے کیونکہ ہمیں خطبہ حجتہ الواع میں ہمارے رہبر و رہنما امام الانبیاء محمدمصطفیٰﷺ نے یہی درس دیا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں ۔مگر یہ مغربی ممالک اُونچ نیچ کا فرق پیدا کرکے ہمیں منتشر کرنے کی نایاب سازشیں رچا رہے ہیں۔ انصاف کا قتلِ عام ہو رہا ہے…… مسلمانوں جاگو اور دُخترِ اُمتِ مسلمہ عافیہ صدیقی اور اُس کے معصوم بچوں کی درد میں ڈوبی پکار کو سنو!کہی ایسا نہ ہو کہ کنکریوں والی ابابیلیں ایک بار پھر سے آن پہنچیں۔
Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 37544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.