لاہور دھماکہ: اصل دشمن کون؟

لاہور میں گنگا رام اسپتال اور سول لائنز پولیس اسٹیشن کے نزدیک ریسکیو ون فائیو کے دفتر پر خودکش حملے میں تئیس افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔ ایس ایس پی آپریشن چوہدری شفیق نے واقعے میں تئیس افراد کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ تاہم ایدھی ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے میں تیس افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونیوالوں میں چھ پولیس اہلکار اور ایک بچہ بھی شامل ہے۔ دھماکے سے ون فائیو کی دو منزلہ عمارت مکمل طور پر منہدم ہوگئی اور قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ دھماکا ایف آئی اے بلڈنگ پر ہونیوالے حملے کی طرز کا تھا۔

بتایا گیا ہے کہ حملے میں ایک سو کلو گرام بارود استعمال کیا گیا۔ دھماکے سے پہلے فائرنگ بھی کی گئی جس سے سگنل پر کھڑی گاڑیوں میں سے بہت سے لوگ نکل کر بھاگ گئے، اور وہاں کھڑی پچاس سے زائد گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں تباہ ہوگئیں۔ دھماکا اس قدر شدید تھا کہ اس کی گونج سات کلومیٹر تک سنی گئی۔ جائے وقوعہ پر کئی فٹ گہرا اور گڑھا پڑ گیا، امدادی ٹیموں نے زخمیوں کو گنگا رام، سروسز اور میو ہسپتال پہنچایا جہاں متعدد افراد کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔

آرمی اور رینجرز کے دستوں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ ہیلی کاپٹر سے فضائی نگرانی بھی کی گئی اس دوران چارمشتبہ افراد کو گرفتار کر کے تفتیش کے لئے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ دھماکے بعد کے شہر کی تمام حساس عمارتوں کی سکیورٹی انتظامات سخت کر دی گئی۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں نے پہلے فائرنگ کی جس کے بعد انہوں نے بارود سے بھری ویگن عمارت سے ٹکرا دی۔ ان کا کہنا تھا یہ واقعہ ناقص سکیورٹی انتظامات کی وجہ سے پیش آیا ہے۔

کل بروز بدھ ستائیس مئی کو لاہور میں یہ سانحہ پیش آیا ہے جس میں اطلاعات کے مطابق تیس قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ہیں۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے ہماری آرمی اور حکومت سوات، مینگورہ وغیرہ میں حکومتی رٹ بحال کرنے کے لیے آپریشن کررہی ہے اور دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارلحکومت میں دہشت گردی کی یہ ہولناک وارادت پیش آئی ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے لاہور دہشت گردی کا نشانہ بنا ہوا ہے اور لگتا ہے کہ اب دہشت گردوں نے لاہور کو ٹارگٹ بنا لیا ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب تک ہم مرض کی تشخیص نہیں کریں گے اس وقت تک ہم درست علاج بھی نہیں کرسکتے ہیں اور تشخیص کے بغیر علاج کرنا یا اآپریشن کرنا بسا اوقات فائدہ مند ہونے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ہم نے امریکی اور بھارتی دباؤ پر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ دہشت گردی اور اسلام لازم و ملزوم ہیں جہاں کہیں بھی دہشت گردی کی واردات ہوگی اس کا تانا بانا لازماً اسلام یا مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جب کہ امرِ واقعہ یہ ہے کہ بھارت واضح طور پر پاکستان میں دہشت گردی اور دراندازی کا مرتکب ہے۔ اس وقت صورتحال تقریباً وہی ہے جو کہ انیس سو اکہتر میں سابقہ مشرقی پاکستان میں تھی اس وقت بھارت نے مکتی باہنی کو منظم کیا تھا،مکتی باہنی کا جو طریقہ کار تھا اگر اس پر ایک نظر ڈالیں تو بہت ساری باتیں واضح ہوجاتی ہیں

بھارت نے مکتی باہنی کی تنظیم ہر تھانے کی سطح پر کی تھی اور اس کے مندرجہ ذیل گروپ تھے (١) مکتی باہنی (٢) مجیب باہنی (٣) جاسوس گروپ، سبوتاژ گروپ٬ آرمڈ گروپ، افواہ ساز گروپ، اس کے علاوہ مکتی باہنی کی دو زیلی شاخیں بھی تھیں جو کہ خواتین گروپ، اور سائینٹفک گروپ پر مشتمل تھیں خواتین گروپ زیادہ تر ہندو طالبات پر مشتمل تھا اور ان کو مکتی باہنی کی سرگرمیوں کو آسان بنانے کے لیے ہر حد تک گزرنے کی تربیت دی گئی تھی۔ جبکہ سائیٹفک گروپ میں سائنس کے طالبعلم بھارتی سرحد کے قریب خفیہ مقام پر بھارتی انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سیوک سنگھ RSS کے کارکنوں کی رفاقت میں ایسی تباہ کن دستی چیزیں تیار کرتے جو تباہی پھیلا کر ماحول کو دہشت زدہ کرتیں-

مکتی باہنی کے لیے حسب ذیل اہداف مرتب کئے گئے تھے: نمبر ایک سارے مشرقی پاکستان میں پھیل کر پاک فوج سے جھڑپیں کرنا تاکہ اس کی نقل و حرکت محدود ہوجائے اور وہ اپنے علاقے میں محصور ہوکر رہ جائے۔ نمبر دو اس کے بعد گوریلا کاروائیاں تیز کرکے پاکستان کی دفاعی افواج کا حوصلہ پست کردیا جائے نمبر تین جب پاکستان اس سے تنگ آکر بھارت سے کھلی جنگ کے لیے مجبور ہوجائے تو مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے پھیلے ہوئے ایجنٹ بھارت کی باقاعدہ مشرقی فیلیڈ فورس کا کام کرسکیں۔

ان ساری باتوں کو سامنے رکھیں اور پھر دیکھیں کہ کیا آج بھی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کم و بیش ایسے ہی حالات نہیں ہیں؟ کیا سارے پاکستان میں فوج اور پولیس پر حملے کر کے اس کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے؟ کیا آج بھی آرمی کو مختلف اندرونی محاذوں پر الجھا نہیں دیا گیا ہے؟ کیا آج بھی آئے دن دھماکے کر کے دہشت نہیں پھیلائی جارہی ہے؟ کل اکہتر کے موقع پر مکتی باہنی اور باغیوں کے پاس سے بھارتی اسلحہ برآمد ہوتا تھا آج بھی اس بات کا شور تو بہت کیا جاتا ہے کہ دہشت گردوں کو اسلحہ اور رقم کہاں سے مل رہی ہے لیکن کیا کبھی میڈیا کے سامنے یہ لائی گئی ہے کہ جو اسلحہ دہشت گردوں سے برآمد ہوتا ہے وہ کہاں کا ہے؟ ایک خاص بات جو کہ نوٹ کرنی چاہے کہ جس گرفتار دہشت گرد کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے تو اس کو فوراَ طالبان میں شمار کرلیا جاتا ہے کہ جبکہ افغانستان میں صرف طالبان ہی نہیں بلکہ پاکستان مخالف گروپ “شمالی اتحاد“ بھی ہے۔اس طرف کوئی دھیان نہیں دیتا- اس کےعلاوہ سوات مینگورہ وغیرہ میں جو دہشت گرد اسلام کے نام استعمال کر کے جو کاروائیاں کررہے ہیں ماضی میں مکتی باہنی بالکل ایسی ہی وارداتیں کرتی تھی مارچ انیس سو اکہتر میں مشرقی پاکستان میں بغاوت پھیل گئی تو اس وقت کی صورتحال یہ تھی کہ شاہراہوں، اسٹیشنوں، قصبوں،اور شہروں پر مکتی باہنی کے غنڈوں کا راج تھا اور انسانوں کو محاورتاَ نہیں بلکہ حقیقتاَ سڑکوں پر لٹا لٹا کر زبح کیا جارہا تھا، لندن کے ایک معروف اخبار کے مطابق مکتی باہنی کے غنڈوں نے چٹا گانگ میں ایسٹ پاکستان رائفلز کے ایک افسر کی کھال ادھیڑ کر قتل کردیا۔ پھر اس کے دو معصوم بچوں کے سر کاٹ ڈالے اور ان دونوں کٹے ہوئے سروں کو ان کی ماں کی عریاں لاش پر ڈال دیا گیا، بہت سی غیر بنگالی مقتولہ کنواری لڑکیوں کے جسموں (womb ) میں سے بنگلہ دیش کے پرچم نکالے گئے جنہیں مکتی باہنی کے وحشیوں نے ان کے جسموں میں ٹھونس ٹھونس کر قتل کردیا تھا۔ سراج گنج شہر میں چار سو عورتوں اور بچوں کو ایک بڑے ہال میں بند کرکے پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی گئی ( کیا سوات میں اسی طرح سڑکوں پر لٹا لٹا کر لوگوں کو ذبح نہیں کیا گیا؟ کیا اسی طرح لوگوں کے سر نہیں کاٹے گئے؟ تمام واقعات کی مماثلث ایک ہی طرف اشارہ کررہی ہے کہ ان واقعات میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت ملوث ہے) یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے گزشتہ آٹھ نو سال میں افغانستان میں کئی سفارت خانے کھولے ہیں یہ بلا سبب نہیں ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ بھارت، امریکہ اور نیٹو آئے دن پاکستان پر دہشت گردوں کی سرپرستی اور پاکستانی قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کا واویلا مچاتے رہتے ہیں، لیکن جب پاکستان پاک افغان سرحد کو سیل کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کی مخالفت کی جاتی ہے۔ ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہے پاک افغان سرحد سے دہشت گرد افغانستان نہیں جاتے ہیں بلکہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اسی لیے پاک افغان بارڈر کو سیل نہیں کرنے دیا جاتا ہے اگر پاکستان صرف اپنا مغربی بارڈر ہی سیل کردے تو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پچاس تا ساٹھ فی صد کمی ہوسکتی ہے۔اس لیے اصل مسئلہ دہشت گردی نہیں ہے بلکہ اس دہشت گردی کی جڑ ڈھونڈنا ہے اور اگر ہم حقائق سے نظر چرا کر بھارت کو اپنا دوست گردانتے رہیں گے تو یاد رکھیں کہ کل یہ مکتی باہنی کے نام سے آئے تھے آج اسلام کے نام پر یہی کام کر رہے ہیں کل یہ کسی اور نام سے یہی کام کریں گے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1453577 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More